پشاور (اصل میڈیا ڈیسک) خیبرپختونخوا کا 1 ہزار 118 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا۔
اسپیکر مشتاق غنی کی زیر صدارت صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے نئے مالی سال 2021۔22 کا بجٹ کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے کا بجٹ ایک ہزار 118 ارب روپے کا ہوگا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 371 اور غیر ترقیاتی کاموں کے لیے 747 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جب کہ آئندہ مالی سال کے لیے 80 فیصد فنڈز جاری ترقیاتی منصبوں کے لیے رکھے گئے ہیں، 199 ارب ضم اضلاع کے لیے جبکہ 919 ارب روپے باقی صوبے کے لیے رکھے گئے ہیں۔
تیمور جھگڑا نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مجموعی طور پر 37 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے، 10 فیصد ایڈہاک ریلیف تمام سرکاری ملازمین کو ملے گا، خصوصی الاؤنس نہ لینے والے ملازمین کے لئے فنکشنل یا سیکٹرول الاؤنس میں 20 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے، سرکاری رہائش نہ رکھنے والے ملازمین کے ہاؤس رینٹ میں 7 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے، اگر کسی ملازم کی تنخواہ میں اضافہ کسی وجہ سے نہ ہوا تو اس کے لیے شکایات ازالہ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پینشن میں 10 فیصد کر رہے ہیں، پنشن اخراجات میں گزشتہ چند سالوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے، پنشن اخراجات 03-2004 میں بجٹ کا صرف 1 فیصد تھے لیکن، اب 13.8 فیصد ہیں، ان اخراجات کو کم کرنے کے لیے نظام میں اصلاحات لا رہے ہیں، صوبے میں ریٹائرمنٹ کی کم از کم عمر 55 سال اور سروس کی حد 25 سال کر رہے ہیں، اس اقدام سے سالانہ 12 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ پنشن رولز میں تبدیلی اور پنشن مستحقین کی تعداد کم کرنے سے سالانہ 1 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ فوت ہو جانے والے ملازمین کی پنشن ان کی بیواؤں، والدین یا پھر بچوں کو ملے گی۔ بیواؤں کی پنشن میں 75 کی بجائے 100 فیصد اضافہ کر رہے ہیں۔
تیمور جھگڑا نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے چھوٹے کسانوں کے لئے ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے اور چھوٹے کاشتکاروں کے لئے اراضی ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، بجٹ میں پروفیشنل ٹیکس بھی ختم کردیا گیا، باقاعدگی سے ٹیکس دینے والوں کے لئے پراپرٹی ٹیکس ریٹس کی شرح میں بھی کمی کردی گئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں خیبرپختونخوا میں ٹریفک جرمانوں میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ٹریفک حادثات میں کمی لائی جائے۔ ایک ارب روپے بلدیاتی انتخابات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
گاڑی خریدنے والے شہریوں کے لئے اچھی خبر
بجٹ میں نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس صرف ایک روپے مقرر کردی گئی۔ 600 سی سی سے 4000 سی سی تک گاڑیوں کی رجسٹریشن صرف ایک روپے کردی گئی جب کہ دوبارہ رجسٹریشن بالکل مفت ہوگی۔
بجٹ دستایزات کے مطابق تنخواہوں کے لئے 374 ارب اور پنشن کے لئے 92 ارب روپے رکھے گئے ہیں، تنخواہوں میں گریڈ 18 تک 25 فیصد اور 18 سے اوپر ملازمین کے لیے 10 فیصد مختص کئے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کےلیے دس فی صدایڈہاک ریلیف الاؤنس، ہاؤس رینٹ میں 7فی صداضافے کی تجویز ہے اور مزدورں کی کم ازکم اجرت21ہزارروپےمقررکی ہے، جبکہ رواں مالی سال میں 20ہزار ائمہ کرام کو2ارب60کروڑروپے ماہانہ اعزازیہ کی مدمیں دیے جائیں گے۔
سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت صوبہ کے بندوبستی اور ضم اضلاع کے لئے کئی اہم نئے منصوبے شامل ہیں، ضم اضلاع سمیت صوبہ کے تمام اضلاع کے لیے ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ پلان بنائے جائیں گے، ضم اضلاع میں سیکنڈری اسپتالوں کو نئے اور جدید خطوط پر استوار کیاجائے گا، ریسکیو 1122 کو صوبہ کی تمام تحصیلوں تک توسیع دی جارہی ہے۔
ضم اضلاع میں کیٹگری ڈی اسپتالوں کو ایکسپریس لائنز مہیا کی جائیں گی، نہروں کو گندگی سے پاک کرنے کے علاوہ ضم اضلاع میں میں بازاروں اور کاروباری مراکز کو بہتر کیاجائے گا، ضم اضلاع میں پبلک پارکس کے قیام کے علاوہ ٹی ایم ایز کو فعال کیا جائے گا، ان اضلاع میں 210 اسکولوں کی اپ گریڈیشن کی جائے گی جن میں 70 ، 70 پرائمری، مڈل اور ہائی سکول شامل ہوں گے، اور یہاں طلبہ کو درسی کتب کی مفت فراہمی بھی کی جائے گی۔
صوبہ میں اگلے مالی سال کے دوران 89 پرائمری اور 50 سیکنڈری اسکول بنانے کے علاوہ آئی ٹی لیبارٹریاں بھی قائم کی جائیں گی، زراعت کے شعبہ میں ٹیلی فارمنگ متعارف کرانے کے علاوہ صوبہ میں بیج کی صنعت کا قیام بھی عمل میں لایاجائے گا، قابل کاشت اراضی کی میپنگ بھی کی جائے گی، ضم اضلاع میں زیتون کی کاشت کو فروغ دیا جائے گا جس کے ساتھ شہد کی پیداوار کی بھی ترویج کی جائے گی۔
صوبہ کے بندوبستی اور ضم اضلاع میں سیٹیزن سہولت مراکز کے قیام کے علاوہ ہری پور میں ڈیجیٹل سٹی جب کہ پشاور، ایبٹ آباد اور ہری پور میں آئی ٹی پارک قائم کیے جائیں گے، خصوصی ٹیکنالوجی زونز بھی قائم ہوں گے، صوبہ میں یونین کونسلوں کی سطح پر کھیلوں کے میدان بنانے کے ساتھ ضم اضلاع کے لیے مربوط سیاحتی ترقیاتی پروگرام ترتیب دیا جائے گا، سیاحتی علاقوں میں جیپ ٹریک بنائے جائیں گے ۔
آئندہ مالی سال کے دوران ضلع خیبر میں دریائے کابل پر شلمان، لنڈی کوتل کے لیے آبنوشی کی بڑی اسکیم بنائی جائے گی، صوبہ کے دیگر اضلاع میں آب رسانی اور نکاسی کی اسکیمیں بنائی جائیں گی، اگلے مالی سال کے دوران صوبہ کے مختلف اضلاع میں طلبہ و طالبات کے لیے 30 نئے کالج بنائے جائیں گے، جب کہ صوبہ کے ضم اضلاع میں 12 نئے کالج بنیں گے۔
صوبے میں نہروں کے کناروں پر سڑکوں کی تعمیر کی جائے گی، ضم اضلاع میں چیک ڈیم اور پانی کے ذخائر کی تعمیر بھی کی جائے گی، اگلے مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 2100 اسکولوں پر اخراجات کیے جارہے ہیں، 4300 اساتذہ کی بھرتی کی جائے گی اورایک لاکھ 20 ہزار طلبہ کو اسکولوں میں داخل کیاجائے گا۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ میں 300 بنیادی مراکز صحت ،60 دیہی مراکز صحت اور 32 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں کی حالت بہتر کرتے ہوئے وہاں 24 گھنٹے سہولیات کی فراہمی کی جائے گی، اسپتالوں کو اپ گریڈ کرتے ہوئے ان میں 2000 بیڈز کی استعداد بڑھائی جائے گی، 3000 کلومیٹر نئی سڑکوں کی تعمیر کرنے کے علاوہ خواتین کے لیے ڈویژنل سطح پر 7 انڈور جمناسٹک اور6 ہاکی ٹرفس بچھائی جائیں گی، 260000 ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنانے کے علاوہ 2900 ٹیوب ویل لگائے جائیں گے جس سے صوبہ کے 84 افراد کو پینے کا پانی میسر آئے گا، بجٹ میں خواجہ سراؤں اور معزوروں کے لیے خصوصی فنڈز مختض کئے گئے ہیں۔
اگلے مالی سال کے دوران 300 کنال پر مشتمل پشاور بس اسٹینڈ کی تعمیر کی جائے گی، صوبہ کے 25 شہروں کو داخلہ گیٹ، یادگاروں کی تعمیر اور گرین بیلٹس کے ذریعے خوبصورت بنایا جائے گا، صوبہ میں 5 ہزار مساجد اور 8 ہزار اسکولوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا، شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے صوبہ کو سالانہ 33 کروڑ کی بچت ہوگی۔
کالام میں تین نئے کرکٹ اسٹیڈیم بنانے جائیں گے، کرک میں سالٹ اینڈ جپسم سٹی کا قیام عمل میں لایاجائے گا جس سے 2 لاکھ ا فراد کو روزگار میسر آئے گا، صوبہ میں 224 میگاواٹ بجلی کی پیداوار یقینی بنائی جائے گی جس سے صوبہ کو بجلی کے خالص منافع کی صورت میں 10 ارب روپے ملیں گے، 25000 افراد کو دو لاکھ سے 10 لاکھ روپے تک کے قرضوں کی فراہمی کرنے کے علاوہ صوبہ میں 8 صنعتی زونز کا قیام عمل میں لایاجائے گا، یہ صنعتی زونز دیر لوئر، صوابی، باجوڑ، حطار، رشکئی، بونیر، مہمند اور باڑہ میں قائم ہوں گے، جن سے دو لاکھ افراد کو روزگار میسرآئے گا۔