حکومت کو درپیش بحران

Dollar

Dollar

کیا معاملات اُلٹے پائوں چلنا شروع ہو چکے، حکومت کو درپیش بحرانوں کا بے قابو جن اس کی وضاحت کرتا ہے جیو کی پشت پناہی کے باوجود حکومتی حواری بظاہر اسے ٹلتا ہوا دیکھ رہے ہیں مگر پس منظر ہمیشہ پیش منظر سے مختلف ہوا کرتا ہے پوری شدت اور طاقت کے ساتھ یہ سب کچھ اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے حکومتی تنخواہ دار، کاسہ لیس، معاشی ماہرین جن کے نزدیک ڈالر کی قیمت گرنے سے معاشی بحالی کے چشمے پھوٹنے کا واویلہ تھا عام فرد وطن بڑی معاشی بدحالی کی زد میں ہے ڈالر کی قیمت گرنے کے اثرات کے تصور تک کو وہ ترس رہا ہے اُس کی اُمیدیں بیٹھنا شروع ہو چکی ہیں حکمران اشرافیہ کی عیاشی، بڑھتے ہوئے قرضوں کے بے ہنگم حجم میں اضافے سے ریاست ایک ممکنہ معاشی دیوالیہ پن کا شکار ہے۔

آئی ایس آئی چیف پر ہرزہ سرائی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ن لیگی قیادت کو جب بھی بھاری مینڈیٹ ملا اداروں پر گرفت سے لیکر عوام الناس تک شخصی آمریت کا خناس ان کے اذہان پر مسلط رہا جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ یہی کہانی دہرائی گئی، اپنا ہی من پسند آرمی چیف مشرف بھی شخصی آمریت کے زعم میں معتوب ہوا مربی مظہر برلاس نے کئی روز پہلے اس سچ کی نشاندہی کی کہ مشرف کو لانے کا ذمہ دار کون ہے ؟یقئناً ملک پر دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کا چھایا ہوا عفریت جو پچا س ہزار بے گنا ہ افراد کو نگل گیا اس کی ذمہ داری بھی اس پر ہے جس نے علیقلی خان جیسے سنیئر جرنیل کو بائی پا س کر کے مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف کے بیج لگا ئے پھر مشرف کو قوم پر مسلط کرنے کا مجرم کون ٹھہرا۔

کیا ہو ا تیراوعدہ ؟کے مصداق الیکشن سے قبل تین ماہ میں بجلی بحران کے خا تمہ کا عندیہ ائیر مارشل اصغر خا ن سے ایک معروف سیا ستدان نے جب ایوب ہٹا و تحریک کا عروج تھا کہا کہ عوام بے وقوف ہیں اور تحریک کی کا میا بی کے بعد میر ے پا س اسے بے وقوف بنا نے کا نسخہ کیمیا ہے مجھے یہ فن آتا ہے کہ عوام کو بے وقوف بنا کر ان پر حکمرانی کیسے کی جاتی ہے ائر ما رشل اصغر خا ن کی حب الوطنی جا گی سیخ پا ہو ئے اور اس سیاستدان سے اپنی راہیں جدا کر لیں فرزند راولپنڈی سے پوچھا گیا کہ آپ کا دعویٰ تھا ڈالر سو روپے سے کم ہوا تو استعفٰی دے دیں گے۔مگر ڈالر اٹھا نوئے پہ ا گیا آپ نے استعفٰی نہیں دیا۔شیخ بولے ڈیڑھ ارب ڈالر کا کما ل ہے جو بر ادر اسلامی ملکسے آیا۔جہا ں تک میرے استعفٰی کی با ت ہے وہ اس سڑک کے کنا رے پڑا ہے جس پر شہباز شریف نے آصف زرداری کو گھسیٹا۔ وحشیا نہ تفریط زر اور روزگار سے محرومی کی حامل پالیسیوں کی زد میں نسبتًا کمزور ملک آتے ہیں وہاں عام آدمی یہ پو چھنے میں حق بجانب ہوتا ہے کہ غیر ضروری اور بوجھل نوعیت کے مسائل کب اس کی جان چھوڑیں گے ؟کیا حکومت کسی قسم کی ترقی یا خوشحالی کا کام کر پائے گی۔

Inflation

Inflation

وطن عزیز کی 67 سا لہ تاریخ میںشا ید ہی ابتدائی ایک سالہ اقتدار میں مہنگائی، غربت اور محرومی اتنی شدت سے ابھری سامراج اور سرمایہ داری کی معاشی، سیاسی، سفارتی اور ریاستی تابعداری وغلا می کی انتہا بھی موجودہ دورحکمرانی کے دوران دیکھنے میں آئی فیصل آبا د میں تا ریخ کا تقاضا تھا کہ مزدورکی ایک بڑی تعداد نے اس نظا م سے انتقا م لینے کے لیے گھروں کی دہلیز پار کی جسے بچا نے کی فکر میں پیپلز پارٹی کو ”فرینڈلی اپو زیشن ” کا رول ملا وہ لو گ گھروں سے نکلے جن کے بچوں کو اس نظام نے بھوک سے بلک بلک کر اور غربت کی بیما ریوں سے مر نے پر مجبور کر دیا جن کے بزرگ اپنی عمر کے مز ید گزارے جا نے والے سال گزارنے سے قبل قابل علاج تکلیفوں سے لا علا جی کی وجہ سے مر ے وہ جن کے پیا روں نے معاشی بدحالی سے تنگ آکر خودکشیاں کی وہ جو بچپن سے براہ راست بڑھا پے میں داخل ہو کر جوانی کو محسوس بھی نہ کر سکے وہ نو جوان با ہر نکلے دوہر ے نظام تعلیم نے جن کو علم سے نا بینا رکھا ان سب کی بربادیوں کاذمہ دار یہ نظام ہے۔اسے ہم جموریت کی عوامی قتل وغارت کہہ سکتے ہیں۔

کیا 11 مئی 2013 کو ہو نے والے انتخاب کو اس صدی کا سب سے بڑا فراڈ نہیں کہا جا سکتا جب پسماندہ، خستہ حال انفراسڑکچر اور ڈوبتی معیشت کے ایک ملک میں حقیقی نمائیندے چننے کے نام پر مطلق العنانیت کا تسلط ممکن بنایا گیا جن کے نتا ئج واشنگٹن میں ترتیب پائے۔

ن لیگی کا سہ لیس جیو پر اسے جمہوریت کی سب سے بڑی فتح قرار دیا جاتا رہا تھا اور اس جھوٹ کو عوام کے شعورپر مسلط کر نے کی سر توڑ کو شش کی گی۔19 کر وڑ عوام نے جس جماعت کو اپنی ذلتو ں سے نجات کا واحد رستہ سمجھا اس پا رٹی نے سرمایہ دارانہ جبر کی شدت کو تیز کر نے ذمہ داری خوب نبھائی سرمایہ داری کی کوکھ سے جنم لینے والے سرکاری معیشت دان ”شیطانی مسکراہٹ ”کے سا تھ عوام دشمن اقدامات کا دفاع کر تے نظر آتے ہیں سرما یہ داروں اور سامراجی آقائوں کے مفادات کی وکالت کرتے ہیں ان تم م ظالمانہ ہتھکنڈوں کے باوجود ہم ایک تا زہ دم تحریک کا جنم دیکھ رہے ہیں۔فیصل آباد میں پچھلے ایک لمبے عر صے سے مزدور بدترین عوامی جبر تلے سسک رہا ہے اس کی مراعات کو چھینا گیا ہے اس کے حقوق غصب ہو ئے ہیں اسے جمہوری حکمرانی میں ایک ایک سا نس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام شاہینے اس کی لڑائی کے تمام پلیٹ فارم چھین لیے کیا حکمران اپنی تقریروں میں ایک ایسے نظام کو بچانے کی ناکام سعی میں مصروف عمل نہیں جو اپنی موت خود مر رہا ہے وہ چا ہتے ہیں کہ محنت کش طبقے کا شعور پست ہو جائے اور وہ طبقاتی لڑائی سے پسائی اختیار کرے مگر یہ نظام سے نفرت کا اظہار تھا صنعتی شہر فیصل آباد میں ایک ایسا طبقہ شاہرات پر امڈ آیا جس کے کان نئے نظام کی نوید سننا چاہتے ہیں۔

 M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک