تحریر:محمد شاہد محمود واہگہ بارڈر میں ہونے والے خود کش حملے میں سمندری کا وہ خاندان بھی تھا جس کے9افراد موت کی نیند جا سوئے۔بدنصیب خاندان کے چھ بچوں سمیت خواتین کی نماز جنازہ ان کے آبائی گائوں چک نمبر 471 گ ب میںادا کی گئی ۔ مرحومین کی میتیں جب مذکورہ گائوں ان کے گھر پہنچیں تو وہاں پر موجود ہر آنکھ اشکبار تھی لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ایک گھر سے جب نو جنازے اٹھائے گئے تو دلخراش مناظر دیکھنے میں آئے مرحومین کے ورثاء کو غشی کے دورے پڑتے رہے اور وہ ایک دوسرے سے گلے لگ کر روتے رہے۔
مذکورہ گائوں کے رہائشی محمد ظفر کی والدہ بہنیں بھانجیاں اور بھتجیاں ظفر کی دوسری بہن جو لاہور میں رہائش پذیر ہے کے بچوں کے عقیقہ میں شرکت کیلئے گئے جہاں سے یہ پورا خاندان واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے کیلئے چلا گیا اور دہشت گردی کی نذر ہو گیا جس سے چھوٹے بچوں رباب، ایمان فاطمہ، حلیمہ سعدیہ، حور یاسیمن، نادیہ، زاہدہ اور دو ظفر کی بہنیں جویریا، عمرانہ اور اس کی والدہ رمضان بی بی سمیت نو افراد لقمہ اجل بن گئے، دہشت گردی میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکت پر سمندری میں شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے شہریوں کا کہنا تھا کہ حکومت جلد اس واقعہ کے مجرموں کو پکڑ کر کیفرکردار تک پہنچائے۔ نو افراد کے جاں بحق ہونے کے سوگ میں سمندری شہر مکمل طور پر بند رہا جس کی وجہ سے کاروباری زندگی معطل رہی۔
ورثا نے اپنے تاثرات میں کہا کہ یہ سانحہ ناقابل برداشت ہے ہم اللہ کی رضا کے آگے بے بس ہیں ان کا کہنا تھا کہ حکمران دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے مئوثر اقدامات کریں اور اس واقعہ کے مجرموں کو جلد بے نقاب کر کے انہیں عبرتناک سزا دیں اور خفیہ ہاتھوں کو تلاش کر کے انہیں عبرت کا نشان بنائیں جبکہ میڈیا کو میتوں کی کوریج اور تصاویر بنانے سے روک دیا۔ رینجرز انسپکٹر محمد رضوان کا نکاح سات ماہ قبل رینالہ خورد کے رہائشی محمد احمد صراف کی بیٹی زوبیا احمد سے ہوا تھا جس میں عزیز و اقارب کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی رخصتی دسمبر میں ہونی تھی، وہ شہید عارفوالہ کے رہائشی تھے وہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی سرحدوں پر ایک نہیں کروڑوں جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہوں زوبیا رضوان نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ میرے خاوند ایک بہادر اور نڈر آفیسر تھے جن کا مشن ملک و قوم کی خدمت کرنا تھا بالآخر انہوں نے ملکی سرحد پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ 30 سالہ بیچلر ڈگری کے حامل رینجر انسپکٹر محمد رضوان بچپن سے ہی سکیورٹی فورسز جوائن کرنا چاہتے تھے
کیونکہ ان کے والد آرمی سے ریٹائرڈ تھے ان کا بڑا بھائی محمد ریحان بھی پاکستان رینجرز میں ملازمت کرتا ہے۔ کالج لائف سے ہی وہ اپنے گھر والوں اور دوستوں کو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا ہو کر فوجی بنوں گا اور قوم کیلئے جان دوں گا۔ رینجرز میں 10 سال سروس کرنے والے رضوان پچھلے ہفتے جب چھٹی گزار کر اپنی ڈیوٹی پر واپس جانے لگے تو انہوں نے بڑے بھائیوں کو کہا کہ میرے نام جو پراپرٹی ہے اسے آپ اپنے نام لگوا لو میری زندگی کا کچھ پتہ نہیں۔ ڈیڑھ ماہ قبل محمدرضوان کا نکاح تو ہو گیا مگر رخصتی 2 ماہ بعد ربیع الاول میں ہونا قرار پائی تھی لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ وہ شادی سے پہلے ہی شہید ہو جائیں گے۔ رضوان کی خواہش تھی کہ وہ شادی سادگی سے نہیں بلکہ دھوم دھام سے کریں گے۔ شہید کو فورسز کی جانب سے سلامی پیش کی گئی۔
شہید کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ اس نے اپنی قوم کیلئے اپنی جان کا نذرانہ دیا۔ ان کے بھائی نے کہا کہ میرا بھائی زندہ ہے اسے کوئی مردہ نہ کہے 3 روز پہلے اس کا ایک بھائی اسے واہگہ بارڈر پر ملنے گیا تو اسے رضوان واپس آنے نہیں دے رہا تھا کہہ رہا تھا آپ مزید ایک دو دن رک جائیں بھائی نے کہا کہ اسے کیا پتہ تھا کہ اس کا بھائی اسے کیوں اتنے زور سے روک رہا ہے۔ محمد رضوان کی میت جب گھر پہنچی ہر آنکھ اشکبار تھی۔ لانس نائیک محمد سلطان کے باپ نے بتایا کہ اس کے بیٹے کی ریٹائرمنٹ میں دو سال رہ گئے تھے اللہ تعالیٰ نے میر ے بیٹے کو شہادت دی ہے، اگر حکومت دوبارہ موقع دیا تو اپنے بیٹے اور پوتے بھی ملک وقوم کیلئے قربان کردوں گا۔ دھماکہ میں شہید ہونے والے رینجرز کے جوان لارنس نائیک محمد سلطان شہید کے والد جمال دین نے کہاکہ آج میرے بیٹے کی دلی خواہش پوری ہو گئی ہے کیونکہ سلطان اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ ملک و قوم کیلئے شہادت چاہتا ہے
شہید کی والدہ بشیراں بی بی نے کہا کہ میرے بیٹے نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا ہے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لیکن مجھے پھر بھی اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے جس نے ملک وقوم کی حفاظت کیلئے اپنی جان قربان کر دی، بشیراں بی بی نے کہا کہ شہید محمد سلطان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، لارنس نائیک محمد سلطان شہید کی میت جب ان کے آبائی گائوں بوہڑی پہنچی تو اہل علاقہ کی بڑی تعداد جمع ہو گئی اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی، گائوں بوہڑی میں شہید کے گھر عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کی بڑی تعداد کے علاوہ قریبی دیہاتوں کے سینکڑوں افراد پہنچ چکے ہیں، صدر پاکستان کی جانب سے قبر پر پھول بھی چڑھائے گئے جنازے کے موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان فوج آپریشن ضرب عضب سے ملک دشمن عناصر کا صفایا کر رہی ہے
Terrorists
جبکہ آخری دہشت گرد ختم نہیں ہو جاتا فوج ان کے خلاف آپریشن جاری رکھے گی انہوں نے کہ میں شہید کے والد کو سلام پیش کرتا ہوں اور مبارک باد دیتا ہوں جنہوں نے شہید کے باپ ہونے رتبہ حاصل کیا ہے ہم دعا گوان شہیدوں کے خون سے ملک پاکستان میں امن وامان قائم ہو گا دشمن بزدل ہے جو بے گناہ لوگوں کو مار رہا ہے لیکن ہماری قوم انتہائی بہادر ہے اور وہ انتہائی صبر سے ملک دشمن عناصر کا سامنا کرے گی۔سانحہ واہگہ کے تین شہداء حمیرا، عبدالستار اور پرویز کے جنازے جب انکی رہائشگاہ واقع مدینہ ٹاون باغبانپورہ سے اٹھائے گئے تو گھر میں کہرام مچ گیا،بہنیںجوان بھائیوں اور بھابھی کی نعشوں سے لپٹ کرروتی رہیں، دو بچوںکی ماں حمیرا کی والدہ منور بیگم شدت غم سے نڈھال تھی جبکہ رشتہ داروں، عزیزواقارب کے علاوہ ہمسایوں اور علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد انکے گھر پر جمع تھی اور سانحے پر آٹھ آٹھ آنسو بہارہی تھی۔ پرویز اور ستار کی بہنوں صائمہ اور تنزیلہ نے زاروقطار روتے ہوئے کہاکہ ہمارے بھائیوں کے گھر اجڑ گئے
بھائی ہم سے بچھڑ گئے، وہ بچوںکی ضد پر واہگہ گئے تھے کیا خبر تھی کہ اس حال میں تابوتوں میں واپس آئیں گے، مالی امداد سے ہمارے زخم نہیں بھرجائیں گے، دہشتگردوں کو کڑی سزادی جائے آخرکب تک لوگ مرتے رہیں گے اور خاندان اجڑتے رہیں گے۔ ممتاز اور رانی نے کہاکہ خودکش دھماکے میں میرے دو بھائی ایک بھابھی، ایک بہنوئی اور ایک بھانجا شہید ہوگئے ہیں ایک بھابھی اور دوبچے زخمی ہیں بتائیں ان سب کا کیا قصور تھا؟ اور اب ہمارا کیا قصور ہے جو اپنے پیاروں کو ایک ہی روز قبروں میں اتارنے پر مجبور ہیں۔ بھائی جاوید نے کہاکہ ہمارا خاندان اجڑ گیا ہے، بچوں کی ضد، تفریح کی خواہش اور موت میرے گھر والوں کو واہگہ لے گئی، ہمیں ڈیڈ باڈیاں وصول کرنے میں بہت سے مسائل سے گزرنا پڑا، ہمارے ہنستے بستے گھر اجڑ گئے، دہشتگردی پر قابو پایا جائے۔
حمیرا کے والد ریاض نے بتایاکہ یہ لوگ بارڈر کے قریب ایک گاوں میں اپنے کسی عزیزکی وفات پرافسوس کے بعد بچوں کے ہمراہ پرچم کشائی کی تقریب دیکھنے چلے گئے جب ٹی وی پر خبریں دیکھیں تو میں نے فون کیا جسے انکی بھتیجی نے اٹنیڈ کیا وہ چیخ رہی تھی ”یہاں بم دھماکہ ہوگیا ہے، اعضا بکھرے پڑے ہیں، کسی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ ہم بھاگم بھاگ گھرکی ہسپتال پہنچے، پھرکافی دیرمختلف ہسپتالوں میں خوار ہوتے رہے، میری بیٹی تیس سالہ حمیرا، اسکا شوہر عبدالستار ، دیور پرویز، نندوئی رفیق اور نندکا بیٹا مظہر انتقال کر گئے تھے جبکہ پرویز کی بیوی کوثر اور حمیرا کا ایک بیٹا مبشرزخمی حالت میں ہسپتال تھے ، ایک بیٹا گم ہوگیا تھا جو اب مل گیاہے وہ بھی زخمی ہے۔
انکے گھر میں اب بچوں کے سوا کوئی بڑا نہیں ہے۔ رشتہ دارخواتین نے کہاکہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ رقم مذاق معلوم ہوتی ہے،یہ لوگ وطن پرقربان ہوئے اور بے گناہی کی موت مارے گئے، حکمران انکے بچوں کی تعلیم اور روزگار کا ایس ابندوبست کرے کہ یہ تمام عمر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پرمجبورنہ ہوں۔ آج انکا اتنا بڑا غم دیکھ کر ہمارا دل بھی خون کے آنسو رورہاہے، حکومت دہشتگردوں کو پکڑے اور دہشتگرد جان لیں کہ ہم مادروطن کی خاسطرخون کاآخری قطرہ بہانے کو بھی تیار ہیں، ان واقعات سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہو سکتے۔