کشکول لے کر دَر دَر گھومنے والی بھکاریوں کی حکومت میں اندرونی ”پھَڈے ہی پھَڈے”۔ تحریکِ انصاف میں جہانگیرترین اور شاہ محمود قریشی کے بڑے گروپ تو پہلے ہی سے موجود تھے، اب کئی چھوٹے چھوٹے گروپ بھی بن چکے ہیں۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیرِاطلاعات و نشریات اور سرکاری ٹی وی بورڈ کی آپس میں ٹھَن گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے پر بَدانتظامی اور بَدکلامی کے الزامات لگائے۔ سرکاری ٹی وی بورڈ کے ڈائریکٹرز نے فواد چودھری کے خط کے جواب میں لکھا ”آپ کی بَدزبانی کی وجہ سے سرکاری ٹی وی میں کاروباری ہدف کو نقصان پہنچا ہے”۔ وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی نعیم الحق نے کہا کہ وزیرِاعظم کو سرکاری ٹی وی بورڈ پر مکمل اعتماد ہے۔ دَر جوابِ آں غزل فواد چودھری بولے ”وزیرِاعظم ہاؤس میں بیٹھے غیرمنتخب لوگوں کو سیاست کا علم نہیں”۔ پھر ٹویٹر پر لکھا
ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
سچ کہا ہے فواد چودھری نے، واقعی اگر کپتان کرکٹ کے حوالے سے قومی ہیرو نہ ہوتے، شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے اداروں کے بانی نہ ہوتے تو میدانِ سیاست میں اُن کی آمدہوتی نہ فوادچودھری، نعیم الحق اور فیاض چوہان جیسے لوگوں کا یہ مقام ہوتا۔ اب اگر یہ لوگ تقدیر کے دھکے سے اِس مقام تک پہنچ ہی گئے ہیں تو اِس کی حفاظت بھی کریں کہ سیانے کہتے ہیں، جنگ جیتنا مشکل لیکن جیت کو برقرار رکھنا مشکل تَر۔ مگریہاں عالم یہ کہ شاہ سے زیادہ، شاہ کی وفاداری میں یہ لوگ سیاسی اخلاقیات کی ساری حدیں پھلانگ چکے۔ جس طرح آئی ایس پی آر فوجی ترجمانی کا فریضة سرانجام دیتا ہے، اُسی طرح وزارتِ اطلاعات ونشریات وفاقی حکومت کی ترجمان ہوتی ہے۔ فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور جب بھی میڈیا بریفنگ دیتے ہیں، اُن کی ”میڈیاٹاک” انتہائی شائستہ اور نَپی تُلی ہوتی ہے۔اُنہوںنے پلوامہ حملے کے حوالے سے بھارت کی گیدڑ بھبھکیوں کے جواب میں کہا ”ذمہ دار ملک جنگ چاہتے ہیں، نہ جنگ کی بات کرتے ہیں۔ بھارت ہمیں حیران نہیں کر سکتا، ہم اُسے حیران کریں گے۔
حملہ ہوا تو اِس بار پاکستان کا فوجی ردِعمل مختلف ہوگا۔ ہم جنگ کی تیاری نہیں کر رہے بلکہ جنگ کی صورت میں جواب دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہم آخری سانس اور گولی تک ملک کا دفاع کریں گے”۔ دوسری طرف ہماری اطلاعات ونشریات کی وزارت کو سرے سے ادراک ہی نہیں کہ بھارت کیسے کیسے حربوں کے ذریعے پاکستان کا گھیراؤ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ فوادچودھری اپنی ”نوکری” پکّی کرنے کے چکر میں یا تو اپوزیشن کے خلاف بَدکلامی کرتے نظر آتے ہیں یا پھراپنوں کے خلاف ہی طوفان بپا کرتے۔ میاں شہبازشریف کے خلاف گلی گلی میں چور چور، ڈاکو ڈاکو کا شور بپا کرنے والے فوادچودھری کی بڑھکوں کا جواب لاہور ہائیکورٹ کے معزز بنچ نے کیا خوب دیا۔ بنچ نے تفصیلی فیصلے میں لکھاکہ سابق وزیرِاعلیٰ میاں شہبازشریف نے اپنے اختیارات کا نہ تو ناجائز استعمال کیا، نہ ہی بَدعنوانی کی۔ نیب کی ”پِک اینڈ چُوز” پالیسی بَدنیتی پر مبنی لگتی ہے۔ رمضان شوگر مِل کے فیصلے میں لکھا گیاکہ گندے نالے سے ایک بڑی آبادی استفادہ کر رہی ہے۔ نَیب یہ ثابت نہیں کر سکا کہ گندے نالے سے صرف مِل کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ریفرنس کے بارے میں لکھا کہ ایک انچ سرکاری زمین منتقل ہوئی، نہ کسی کو نقصان پہنچا۔ ایل ڈی اے کو منصوبہ پی ایل ڈی سی کے بورڈ کی منظوری سے منتقل ہوا، میاں شہباز شریف کو بطور وزیرِاعلیٰ منصوبہ منتقل کرنے کا اختیار حاصل تھا۔
کاش فوادچودھری اپنی توپوں کا رُخ اپنوں کی بجائے اُن لوگوں کی طرف کرتے جو ملکی سلامتی کے دَرپے ہیں۔ چودھری صاحب کے ٹویٹ کیے گئے شعر کا اصل نشانہ تو افغان صدر اشرف غنی ہونا چاہیے تھا جو امریکہ کی شہ پر دُم پر کھڑا ناچ رہا ہے اور جسے افغانستان میں امریکی دفترِخارجہ کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ شخص نائن الیون کے بعد 2002ء میں وزیرِخزانہ بنا۔ حامد کرزئی کی حکومت کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد صدارتی انتخابات میں بدقسمتی سے پاکستان نے عبداللہ عبداللہ کے مقابلے میں اشرف غنی کی بھرپور مدد کی۔ آج وہی احسان ناسپاس پاکستان کی پیٹھ میں چھُرا گھونپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب پاکستان نے افغان طالبان کے وفد کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی توکابل کے صدارتی محل تک محدود حکومت کرنے والے اِس شخص نے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کو کہا ”اگر افغان طالبان پاکستان گئے تو میں پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دوںگا، بلوچ علیحدگی پسندوں کو افغانستان بلاؤں گا، اُن سے ملاقات کروںگا اور بھارت کے دَورے پر بھی جاؤںگا”۔ پاکستان کو آنکھیں دکھانے والے اشرف غنی کو شاید نہیں پتہ کہ اگر پاکستان صرف تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو افغانستان میں دھکیل دے تو افغان قوم بھوکوں مر جائے۔ عشرے گزر گئے جب سے ہم افغان پناہ گزینوں کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ اُن کی دو نسلیں پاکستان میں جوان ہوچکیں۔ آج اُسی قوم کا صدر امریکہ اور بھارت کی شہ پر اکڑ رہا ہے۔ اُس کے پیٹ میں اِس لیے بھی مروڑ اُٹھ رہے ہیں کہ افغان طالبان نے اُسے گھاس نہ ڈالتے ہوئے اُس کے ساتھ مذاکرات سے صاف انکار کر دیا۔
دوسری طرف ہمارا دوزخ سے نکلا ہوا پڑوسی بھارت اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے اور پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے الزامات لگا کر دھمکیاں دے رہا ہے حالانکہ پاکستان خود دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے اور اِس دہشت گردی میں غالب حصّہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی مثال سب کے سامنے ہے۔ بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے ڈوزیئر ہم اقوامِ عالم کو دے چکے لیکن اُن کے کان پر بھی جوں تک نہیں رینگی۔ عین اُس وقت جب عالمی عدالت میں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا مقدمہ زیرِسماعت ہونے والا تھا، بھارت نے پلوامہ میں خودکُش حملے کا ڈرامہ رچا کر ہیجان بپا کر دیا۔ بھارت ایک طرف تو عالمی عدالت کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف بی جے پی ہیجان بپا کرکے آمدہ الیکشن میں مسلم مخالف ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے ڈرامے بھارت پہلے بھی کئی بار کر چکا۔
بھارتی حکمرانوں نے بَس سروس کی معطلی کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تجارت بھی معطل کر دی ہے۔ واہگہ بارڈر پر پاکستان سے سیمنٹ اور دوسرا سامان لیجانے والے ٹرک روک دیئے گئے، زرعی اشیاء کی پاکستان میں ترسیل بند کر دی گئی اورراجھستان میں موجود پاکستانی سیاحوں کو اڑتالیس گھنٹوں میں نکل جانے کا حکم دے دیا۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی نے اپنی فوج کو مناسب وقت پر کارروائی کی اجازت دے دی ہے اور اِسی حوالے سے راجھستان میں جنگی مشقیں بھی جاری ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب خود بھارتی ذرائع یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پلوانہ خودکُش حملے میں حملہ آور کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے تھا جہاں کشمیری عوام عشروں سے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں تو پھر پاکستان کا اِس سے کیا تعلق؟۔ شاید اسی لیے بھارت کے اندر سے بھی پاکستان کو موردِالزام ٹھہرانے کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں جنہیں دبانے کی سعیٔ بیکار کی جا رہی ہے۔
اقوامِ عالم بھی بھارتی پراپیگنڈے پر کان نہیں دھر رہی اور ہر جگہ اُسے مُنہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ رہی جنگ کی بات تو پاکستان اِس کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ وزیرِاعظم عمران خاں نے قوم سے مختصر خطاب میں بھارت کو پیغام دے دیا کہ پاکستان مذاکرات اور جنگ، دونوں کے لیے تیار ہے۔ اُنہوں نے پاک فوج کو جوابی کارروائی کی اجازت بھی دے دی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چڑی کوٹ اور باغ سیکٹر کا دورہ کرتے ہوئے فرمایا ”پاکستان امن پسند ملک ہے۔ ہم کسی خوف یا دباؤ میں نہیں آئیں گے، کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کا اُسی شدت سے بھرپور جواب دیا جائے گا”۔ اب یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ جنگ چاہتا ہے یا امن۔ چلتے چلتے ہم بھارتیوں کو یہ بتاتے چلیں کہ اگر بھارت کے پاس 140 ایٹم بم ہیں تو پاکستان کے پاس 182 ۔ پاکستان بائیس کروڑ آبادی پر مشتمل ملک ہے جبکہ بھارت ایک ارب تیس کروڑ۔ بھارتی سوچ لیں کہ جنگ کی صورت میںپاکستان کے لیے سودا مہنگا نہیں۔