رمضان المبارک کے بعد میدان سجنے والا ہے بہت کچھ تبدیل ہونے جارہا ہے یا کچھ بھی نہیں ہوگا اسکا فیصلہ اب بہت جلدی ہونے والا ہے ایک طرف حکومتی جماعت ہے جو ہر طرف یہ ہی کہتی سنائی دے رہی ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا صرف چند لوگوں کی شرارت ہے جو وقت آنے پر خود بہ خود ختم ہوجائے گی دوسری طرف عمران خان ہے جن کے حامی کہہ رہے ہیں۔
مارچ میں حکمرانوں کی دوڑیں لگ جائینگی تو تیسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں جو انقلاب کا پرچم اٹھائے اعلان کر رہے کہ حکمرانوں کو لگ پتہ جائیگا اور کسی کو ملک سے فرار ہونے نہیں دیا جائیگا اب وقت بہت کم رہ گیا ہے آزادی مارچ اور انقلاب کیا رنگ لاتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ سبز انقلاب ہوگا یا سرخ انقلاب جسکا فیصلہ اب وقت ہی کرے گا جو بہت قریب آتا جارہا ہے مگر حکومت کی خاموشی اور عوام کا حکومت پر سے اٹھتا ہوا اعتماد بھی کسی خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کررہا ہے۔
کیونکہ انتخابات سے قبل حکومت نے عوام سے جووعدے کیے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوارمضان المبارک کے دوران شدید گرمی اور اوپر سے لوڈ شیڈنگ نے عوام کا برا حال کررکھا ہے خاص کر ایسے علاقے جہاں دو یا تین مرلے کے گھروں میں کئی کئی فیملیاں رہ رہی ہوں وہاں پر حبس اور گرمی نے جہاں بڑوں کوسخت امتحان میں ڈالا ہوا ہے وہیں پر چھوٹے چھوٹے معصوم بچے رو رو کر دن رات گذار رہے ہیں۔
بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے باعث اب تو بعض محب وطن مسلم لیگی بھی اپنی حکومت سے ناراض ہوچکے ہیں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کو یہ بھی یقین تھا کہ آصف علی زرداری انکی حمایت کرینگے اور اپنے استادی گروں سے میاں نواز شریف کے پانچ سال نکلوادیں مگر آصف علی زرداری کے ایک بیان کے بعد اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ بھی اب میاں نواز شریف کی حکومت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اگر دونوں رہنمائوں کے درمیان گلے شکووں کے بعد صلہ ہوبھی جاتی ہے۔
Nawaz Sharif
تو وہ میاں نواز شریف کو میڈٹرم الیکشن پر راضی کرنے کی کوشش کریں گے جسکے لیے زرداری صاحب کے پاس بہت سی وجوہات ہونگی اور امید ہے کہ وہ حکومت کو ڈرا دھمکا کر درمیانی مدت میں انتخابات کا اعلان کروادیں گے جس کے بعد پھر یہ دونوں پارٹیاں اپوزیشن کا مل کر مقابلہ کرینگی مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو ناسمجھی کی گولیاں کھلا کھلا کر بیوقوف بنانے والے یہ بات بھول گئے ہیں کہ غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری ،لاقانونیت اور اقربا پروی کے بوجھ تلے دبی ہوئی قوم کو اب شعور آنا شرع ہوگیا ہے۔
خواہ نکا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہواب عوام کو سمجھ آچکی ہے کہ انکے ووٹوں کی وجہ سے اقتدارکی منزل پر پہنچنے والے والے اپنے آپ کو خاندانی حکمران سمجھ بیٹھے ہیں جن کے ووٹوں کے صدقے ایوان اقتدار میں داخل ہوئے انہیں گرمیوں کی تپتی ہوئی دھوپ میں بے یارومددگار چھوڑ دیا اور خود ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر عوام کا مذاق اڑانا شروع کردیا اور جمہوریت کے تحفظ کا نعرہ لگا کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والے سبھی سیاست دانوں نے لوٹ لوٹ کر ملک اور قوم کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔
جو سب سے زیادہ جمہوریت کا شور مچارہے ہیں انکی اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں کسی جماعت میں خاندانی شخصیات مسلط ہیں تو کہیں فرد واحد ہی ہر چیز پر قابض ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر کوئی بھی عہدے دار پارٹی قائد سے اختلاف نہیں کرسکتا اگر کرے گا توتمام عہدوں سے فارغ کردیا جائیگا اس لیے سیانے سیاستدان پارٹی قائد سے وفاداری نبھاتے ہوئے ملک وقوم کا مفاد ایک شخص کی خوشنودی کے لیے قربان کردیتے ہیںیہی وجہ ہے۔
ہرگذرتے دن کے ساتھ ساتھ پاکستان ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کی طرف جارہا ہے اور ہمارے سیاستدان ہیں کہ ابھی تک انکی زہنیت تبدیل نہیں ہوئی اب تو ان سیاسی چوروں کی طرف دیکھتے ہوئے انکے خاص ورکروں نے بھی مال ودولت اکٹھا کرنا شروع کردیا ہے ہماری بدقسمتی بھی یہی ہے کہ ہم نے لوٹ مار کرنے والے چوروں اور ٹھگوں کو اپنا لیڈر بنا لیا اورجو انکے سب سے بڑے حامی ہوتے ہیں وہ بھی اپنی اپنی دیہاڑیاں لگانے میں مصروف ہیں اور آگے ان سب دیہاڑی بازوں کے ایجنٹ شکاری کتوں کی طرح شکار ڈھونڈ نے میں مصروف ہیں۔
ان ایجنٹوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انکا یہ پیغام ہر جگہ پہنچ جائے تاکہ غریب ،مجبور اور غرض مند افراد انکے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر اپنا آپ لٹادیںیہ کا م پاکستان میں اتنی تیزی کے ساتھ پھیلا ہے کہ اب زیادہ تر دو ہی طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں ایک وہ جو مختلف لالچ دیکر لوٹ رہے ہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے ان فراڈیوں کے لالچ میں آکر اپنا آپ لٹا بیٹھتے ہیں اور کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو صحافت کا لبادہ اوڑھ کر مختلف شہروں میں جاکر لوٹ مارکرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے ولا نہیں ہے اس لیے ہمارے ملک میں فراڈ کی انڈسٹری بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے عید کے بعد مارچ میں کس کا مارچ ہوتا ہے؟