تحریر : حاجی زاہد حسین تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلم خلیفوں حکمرانوں نے بزدلی دیکھائی مصلحت کوشی کی تب ذلت و شکست ان کا مقدر بنی۔ آئے زمانہ اس کا خمیازہ امت مسلمہ کو بھگتنا پڑا۔ آخری عباسی خلیفوں نے فاطمی علوی اور اہل تشیع کے سازشیوں کی وجہ سے ہلاکوں خان کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کھائی یہیود و نصاری کے ہاتھوں صلیبی جنگوں میں ذلت اٹھائی بیت المقدس گنوایا، متحدہ بنگال گنوایا اور رقص موسیقی کے رسیا مغل حکمرانوں نے اپنے میر جعفروں میر صادقوں کی غدار ی اور آرام پرستی عیاش پرستی سے صر ف چند ہزار انگریزوں کے ہاتھوں لاکھوں کی فوج کے باوجود سارا ہندوستان گنوایا۔ اور پھر تراسی ہزار مربع میل پر مشتمل ریاست کشمیر باوجود درجنوں قبائل میر بٹ خواجے عباسی سدہن اور گجر چوہدری ہوتے ہوئے چھوٹے سے ڈوگرا قبیلے کے ہاتھوں اور یہاں کے میر قاسموں کی غداریوں کی وجہ سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑا یا۔ جس کا دورانیہ گزشتہ ایک صدی سے اب بھی جاری وساری ہے۔ اس طرح امت مسلمہ آئے روز قلیل تعداد کے کفار سے بحیثیت کثیر شکست کھاتے رہے۔
عرب کی امیر ترین ریاستیں اور ان کے جابر حکمران چالیس چالیس سالوں سے مسلط جب تک غیرت و حمیت کے پاسدار رہے تب تک اسلامی ریاستوں اور وہاں کی رعایا کی ترقی اور آسودگی کا طوطی بولتا رہا۔ مگر جب وہ اپنے ہی گھر کے سازشیوں اقتدار پرستوں مصلحتوں کے شکار ہوئے تب پھر اپنوں نے یہودو نصاری کے جتھوں نے انہیں اور امت کو عبرت کا مقام بنا دیا۔ کرنل قذافی جب تک ثابت قدم رہا عوام کا خیر خواہ رہا تب تک اس کی ہیبت سارے یورپ پر رہی مگر جب ضعف بزدلی کا شکار ہوا۔ تب پھر اربوں ڈالر لا کر بھی طیارے کے متاثرین ہاتھ سے گئے ۔ اپنے عوام بد دل اور بیزار ہوئے تب اسے عبرت کا مقام بنا دیا گیا۔ صدر صدام کی ہیبت و جلالیت سارے یورپ اور عرب پر رہی ثابت قدمی رہی تب تک کوئی اس پر اور اس کے عراق کومیلی آنکھ سے بھی نہ دیکھ سکا ۔ مگر جب وہ بھی اپنوں کی سازشوں سابقہ روائتی حریفوں شیعوں اور انکے سرپرست ہمسایہ ایران کے ہاتھوں عالمی جتھوں کی چڑھائی سے عبرت ناک انجام کو پہنچا بات اس ڈکٹیٹر فرد واحد کی نہیں بات جابر قذافی کی نہیں بات وہاں کے عوام کی ہے۔
ساری امت کی ہے۔ جو جب تک متحد رہے ثابت قدم رہے۔ ترقی کے آسمان عروج پر تھے۔ مگر جب اپنوں کی سازشوںکا شکار ہوئے۔ قوم پرستی نسل پرستی اور فرقہ پرستی کے چنگل میں آئے تو اپنے ملک و ملت کا دھڑن تختہ کر گئے آج تک سنبھل نہ سکے دولت بھی گئی ۔ عزت و ناموس بھی گئی اور اپنی نسلوں کو افراتفری کا شکار اور ملکی معیشت کو بیمار کر گئے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ نہ سنی ہمسایوں کے ہاتھ کچھ آیا نہ ہی سازشی ایران کے کچھ ہاتھ آیا۔ سنیوں کو سنیوں سے لڑا دیا گیا۔ اور شیعے سنی ، داعش ، القاعدہ بھی آپس میں گتھم گتھا کر دیئے گئے۔ اب لگی ہے اک آگ سی عرب کو عجم کو ایران کا اسلامی انقلاب وہاں کی سرحدوں سے باہر نکل سکا نہ طالبان کا انقلاب پروان چڑھ سکا ۔ بشار الاسد اپنوں کو مار رہا ہے مروا رہا ہے۔
عبداللہ صالح اپنوں کورافضیوں سے مروا رہا ہے۔ مصر میں اسلام پرست اور اسلام بیزار طبقاتی جنگ جاری ہے۔ فلسطین میں یاسر عرفات کے بعد دو دھڑے ابو ھانیہ اور عباس آپس میں گتھم گتھا ہیں اسرائیل اور اس کے سرپرست تماش بین ہیں جو کام نصف صدی وہ نہ کر سکے اب امت کے یہ طبقاتی تفرقے لگے ہیں۔ اور وہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ کیسی آزادی کہاں کی آزادی قارئین بدقسمتی سے اب ان سازشیوں کا رخ ہمارے وطن عزیز کی طرف ہے ہمارے سابق حکمران بزدلی اور مصلحتوں کا شکار رہے ملک کو ان کے شکنجے میں دیکر افراتفری دہشت گردی کا شکار ربنا کر اب لندن دوبئی میں چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ہمیں اپنوں کا بھی حریف اور بیگانوں کا بھی حریف بنا کر رکھ دیا ہمارے ان بزدل اقتدار پرست حکمرانوں نے ایک لاکھ جانوں کی قربانی لے لی ہمیں ایسی جنگ میں پھنسا دیا جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ، ہمسایہ برادر ایران تو ہم سے عرب سنی ریاستوں کی حمایت پر نالاں اور ترساں ہے ۔ اب تو وہ بھی دھمکیوں پر اتر آیا مگر ہمارا ہمسایہ کرزئیوں ، اشرف غنیوں کا افغانستان تو آئے روز ہماری سرحد پر شب و خون مارتا نظر آرہا ہے۔
وہ افغانستان جسکو ہم نے سفید ریچھ کے چنگل سے چھڑوانے میں کیا کچھ نہ کیا۔ چالیس لاکھ مہاجرین کو چالیس سالوں تک پالا پوسا کھلایا پلایا پناہ دی عزت و توقیر دی مگر پھر بھی وہ انڈیا کی گود میں بیٹھ کر ہمیں ڈرا دھمکا رہا ہے۔ بلی کو خواب میں چھچھڑے نظر آرہے ہیں۔ مگر دونوں جان لیں پاکستان نہ تو شام لبنان ہے۔ نہ عراق ، بغداد ہے۔ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں۔ اسلامی برادرانہ رشتے اور ہمسائیگی کا خیال کریں امت مسلمہ کو مزید بکھرنے سے بچائیں۔ ورنہ نہ رہے کا بانس نہ بجے کی بانسری خدارا ہمارے موجودہ حکمرانوں کی مصلحت کوشی بزدلی اقتدار پرستی کا فائدہ نہ اٹھائیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشی کا بہانہ نہ بنائیں۔ جو خطرات سے گرے پاکستان کو پس پشت ڈال کر تم ہٹو ہماری باری کا راگ آلاپ رہے ہیں آ ج انڈیا کے حکمران ہم پر شب و خون مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں مشرقی پاکستان ہم سے چھیننے کا اعتراف کر رہے ہیں۔ کشمیریوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔
تہاڑ جیل میں برملا انہیں اور ہمارے بے گناہ کشمیریوں کو پھانسی پے پھانسی دے رہے ہیں۔ اور اپنے دہشت گرد ہمارے بچوں اور عوام کے قاتل کلبھوشن یادیو کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر لے جانے کے لئے ہیلے بہانے کر رہے ہیں۔ مگر آفرین ہے ہمارے ان حکمرانوں پر ان لیڈروں پر تف ہے ان بزدلوں پر ان مصلحت کے شکار پاکستان کے ٹھیکیداروں پر جو جرات اور قوت ایمانی سے دو بول بولنے سے قاصر ہیں ان کی ٹون میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے سے قطرا رہے ہیں۔ ایوب کی طرح پھنکارنے بھٹو کی طرح للکارنے اور ضیا الحق کی طرح جھنجھاڑنے سے ڈرتے ہیں۔ ورنہ ہمارے ان حریفوں کے لئے دو بول ہی کافی تھے۔ ان کی اس جرم ضیعفی نے تمام اہل پاکستان کو مرگ مفاجات تک پہنچا کر رکھ دیا ہے۔ ان کو اپنے شہریوں کا دفاع کرنا نہیں آتا ۔ اپنی عافیہ جیسی بیٹیوں کا کیس لڑنا نہیںا تا۔ افضل گورو کا دفاع نہیں آتا ۔ ایمل کانسی اور ریمنڈ ڈیوس کو پکڑ کر بس دینا آتا ہے۔ کشمیریوں کے ترجمان حافظ سعید کو پکڑ کر جیل میں ڈالنا آتا ہے۔ قو م کے بیٹے بیٹیاں وطن پر قربان ہو رہے ہیں۔
بچے بوڑھے دہشت گردوں کی نظر ہو رہے ہیں۔ مگر سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ میں عالمی عدالتوں میں ان کی زبانیں بند ہیں۔ گونگے بہرے ہیں اقتدار سے کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ ہمارے وطن کے دشمن ان کے آلہ کار ہمیں ڈرا رہے ہیں دھمکا رہے ہیں۔ مگر یہ منرو کی طرح چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ تف ہے ان پر عالمی عدالت میں پانی کا کیس ہارنے پر دہشت گردی کلبھوشن کا کیس چھیننے اور ہارنے پر ان کو شرم نہیں آتی۔ ساری قوم خون کے آنسو رو رہی ہے۔ اسلامی غیرت اور حمیت سے کھلبلا رہی ہے۔ مگر یہ ہیں کہ آپس میں اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اللہ ہمیں ان سے اور عالم اسلام کو ایسے بزدل مصلحت پسند دینی غیرت حمیت سے نا آشنا حکمرانوں سے جان چھڑائے ۔ تاریخ کے آئینے میں ایسے خلیفوں بادشاہوں حکمرانوں کا حشر تو عبرت ناک ہوا مگر ساتھ فی زمانہ امت مسلمہ کی عزت اور ناموس کا کباڑا بھی کر دیا جاتا رہا ۔ اللہ ہمارے پاکستان کی اور ہماری حفاظت فرمائے آمین جرم ضعیفی کی سزا ہے مرگ مفاجات۔
Haji Zahid Hussain Khan
تحریر : حاجی زاہد حسین کان ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ hajizahid.palandri@gmail.com