لاہور (جیوڈیسک) حکومت کا یہ خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی ’’جمہوری قوتیں‘‘ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو موجودہ نظام کو گرانے کیلئے ان کے منصوبے سے باز رکھنے کیلئے حکومت، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان پل کا کردار ادا کرینگی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے مطابق متوقع طور پر مصالحت کرانے والی ان جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی (محمود اچکزئی کی جماعت)، جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپائو کی قومی جمہوری پارٹی شامل ہیں۔ اگرچہ ان جماعتوں کو متعدد امور پر تحفظات بھی ہیں تاہم ان میں کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ سیاسی نظام ڈسٹرب ہو۔
دی نیشن سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ آئندہ چند روز میں جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو گا تو مصالحت کے اس عمل کا آغاز ہو گا۔ مسلم لیگ ن کے بعض رہنما بھی ان رہنمائوں (عمران، طاہر القادری) سے رابطے میں ہیں جو انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کیلئے قانونی راہ اپنائیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کوئی ایسا کام نہیں کرینگی جس سے اس وقت جبکہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے جمہوری نظام ڈسٹرب ہو۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ 14 اگست کو کیا ہو گا تو انہوں نے کہا کہ کچھ بھی نہیں۔
چند ہزار لوگ بسوں میں اور ان کے لیڈر لگژری کاروں میں آئینگے، لیڈر امپورٹڈ پانی، پیزا اور برگر کھائیں گے جبکہ عام ورکر پانی پر گذارہ کرینگے۔ میرے خیال میں یہ چائے کی پیالی میں طوفان سے کچھ زیادہ نہیں ہو گا۔ عمران اور طاہر القادری کا ایجنڈا غیر منطقی ہے۔ عمران خان نئے الیکشن چاہتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں انہوں نے 2002ء میں اس وقت انتخابات لڑے تھے جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میدان میں نہیں تھے اور وہ اس وقت قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست لے سکے تھے، 2013ء کے الیکشن کے ایک سال بعد ہی نئے الیکشن کے مطالبے کا کوئی جواز نہیں خصوصاً اس وقت جبکہ اہم تنظیمیں یہ کہہ چکی ہیں کہ گذشتہ انتخابات آزادانہ و منصفانہ تھے اور ان میں 80 فیصد عوام کی رائے شامل تھی۔
دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری موجودہ نظام کو ہی نہیں مانتے، وہ اپنا نظام حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ شخصیات کے تضاد کے باوجود عمران اور طاہر القادری سٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ وہ مختلف قسم کے نعرے لگاتے ہیں۔ حکومت کے پاس کسی ایک حلقے کا نتیجہ دکھانے کا اختیار نہیں، یہ اختیار صرف الیکشن کمشن کے پاس ہے۔ اگر عمران چاہتے ہیں کہ الیکشن ٹربیونلز کیس جلد نمٹائیں تو وہ پارلیمنٹ میں اس حوالے سے قانون لے کر آئیں لیکن اگر وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا بستر ہی گول کر دیا جائے تو اس قانون کی حمایت کون کرے گا۔ کیا پی ٹی آئی آمریت لانا چاہتی ہے۔ لانگ مارچ حکومت کی تبدیلی کا صحیح طریقہ نہیں۔
اگر لانگ مارچ کو قانونی میکنزم تسلیم کر لیا گیا تو پھر اگر خیبر پی کے میں کوئی جماعت ایسا کچھ لے آئی تو پھر کیا صورتحال ہو گی، بیلٹ پیپر ہی حکومت کی تبدیلی کا آئینی راستہ ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا مقصد پرویز مشرف کو بچانا ہے تو وہ اسے تحریک مشرف کا نام دے دے۔ عمران اپنے عزائم میں ناکام ہونگے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کا کیس عدالت میں زیرسماعت ہے حکومت کے پاس نہیں۔ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، حکومت کوئی مداخلت نہیں کریگی۔ اگر کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ مشرف کو کسی قسم کا کوئی ریلیف ملے تو انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہئے، وزیراعظم نواز شریف مشرف کو رعایت نہیں دینگے۔
عمران اور طاہر القادری کی گرفتاری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس موقع پر اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اس حوالے سے وقت کی صورتحال کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں فوج کو بلانے کا پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے لانگ مارچ سے کوئی تعلق نہیں، 15 جون کو فوج کی تعیناتی کے نوٹیفکیشن کے اجراء میں تاخیر پروسیجر کے حالے سے ہوئی ہے۔ این این آئی کے مطابق سنیٹر پرویز رشید نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ ایک سال کے دوران معیشت مزید بہتر ہو گی، بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو گا، سیاسی نظام مستحکم ہو گا۔
گذشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کی معیشت کے بڑے اشاریوں میں بہتری آئی ہے، اگست کے وسط سے سیاسی مشکلات کم ہونا شروع ہوجائیں گی اور جمہوریت مستحکم ہو گی، آئندہ ایک سال میں قیمتیں مستحکم ہونگی، جمہوری قوتوں کے درمیان اتحاد ہے۔ پرویز رشید نے عمران خان کی طرف سے نئے انتخابات کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا عمران خان بہت ہی چھوٹی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں، چھوٹی پارٹی کے مطالبے کا کوئی سیاسی جواز نہیں۔ انہوں نے کہا تحریک انصاف کو اسلام آباد میں دھرنے کی اجازت کا سوال اس وقت پیدا ہوگا جب وہ دن آئے گا ابھی اس قسم کی باتیں قبل از وقت ہیں۔