پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ابھی پائوں پائوں چلنا ہی شروع ہوئی تھی کہ ماضی نے خود ایک بار پھر سے دوہرانا شروع کر دیا، ماضی کے تلخ تجربات اور حقائق سے سبق نہ سیکھنے والے مسلم لیگ نواز کے سر کردہ لیڈران آج بھی اسی روش پر گامزن ہیں جس سے ان کی حکومت اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی تھی، ملک میں جاری مہنگائی کی کمر توڑ لہر، دہشت گردی، فرقہ واریت ، لاقانونیت، سیاسی عدم استحکام نے مستقبل قریب و بعید کو ابہام کے سینکڑوں پردوں میں چھپا دیا ہے۔
ہر پاکستانی کے لبوں پر ایک ہی سوال موجود ہے کہ ہمارے مستقبل کا کیا ہوگا؟ پاکستان کے حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ قائد کے پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہوگا؟ آج معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں قومی ادارے ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ سیاسی شخصیات اور حکومتی حلقوں کی براہ راست اداروں میں ٹانگ اڑانا ہے، حکومتی حلقے اپنی اس باری کو ”آخری باری” سمجھتے ہوئے بلکہ وطن عزیز پاکستان کو افطاری کا دستر خوان سمجھتے ہوئے دونوں ہاتھوں اور پائووں سے لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں، دوسری طرف ماہ صیام جو کہ مسلمانوں کیلئے رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔
اس کے شروع ہونے سے قبل ہی جس طرح مسلمان اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کرکے اپنی ”مسلمانیت” دکھانا شروع ہو جاتے ہیں وہ ہمارے لئے انتہائی باعث شرم ہے’ یہ بات بھی واضحہے کہ منافع خوروں ‘ ذخیرہ اندوزوں کی بڑی تعداد کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے، خود حکومت میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے ”باگڑ بلے” شوگر ملوں کے مالک چینی اور شکر کا بحران پیدا کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، چینی’ آٹے اور دیگر دوسری ااشیاء کا بحران عید کے بعد کسی وقت بھی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، فی الحال بحران پیدا کرنے والے ”باگڑ بلے” بحران کو روک کر رمضان کے فیوض و برکات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
وطن عزیز میں ماہ صیام اور سیاسی عدم استحکام ایک دوسرے کیساتھ ساتھ چل رہے ہیں’ ایک طرف شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کیخلاف فوجی آپریشن ”ضرب عضب” جاری ہے تو دوسری طرف خود حکومت کی اپنی صفوں میں محاذ آرئی جاری ہے، جس ملک کا وزیر داخلہ ایسے حالات میں جب کہ ملک حالت جنگ میں ہے اپنے تمام فرائض سے منہ موڑ کر ”مراقبے” میں بیٹھ جائے اورسربراہان حکومت موصوف کو مناتے پھریں اس ملک میں قانون کی رٹ کا کیا عالم ہوگ اس بات کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے، ڈاکٹر طاہر القادری کے در آمدی ڈرامے سے لیکر اب تک حکومت ہر جگہ محاذ آرئی میں مصروف نظر آرہی ہے جو ماضی کی طرح حکومت کیلئے خود کشی کے مترادف بھی ہو سکتا ہے۔
سیاسی سمجھ رکھنے والے عام پاکستان اور سیاسی پنڈتوں کی نظریں عید الفطر کے بعد کے سیاسی حالات پر جمی ہوئی ہیں، ایک طرف طاہر القادری ابھی تک اپنے کسی واضح لائحہ عمل کا اعلان نہیں کر سکے مگر دوسری جانب عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف عید کے بعد 14 اگست کو D چوک اسلام آباد میں سیاسی دنگل لگانے کا علان کر چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی تیاریاں بھی جاری ہیں، قوم اس وقت خود مرو یا مارو کی پوزیشن میں نظرآتی ہے کیونکہ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر اور لاقانونیت نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔
Pakistan Tehreek-e-Insaf
ایسے حالات میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی غصے سے بھرپور تقریریں’ جلسے’ جلوس عوامی غم و غصے اور تبدیلی کی آگ کو مزید جلا بخش رہے ہیں، سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت اس قدر شدید بھی ہو سکتا ہے جس میں حکمرانوں کو اپنے قدم زمین پر رکھتے ہوئے جلن محسوس ہوگی، دوسری طرف کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاہر القادری کے در آمدی ڈرامے کی طرح حکومت پی ٹی آئی کے اس سیلاب کو بھی روکنے میں کامیاب ہو جائے گی، ویسے میری ذاتی رائے میں اگر حکومتی حلقے طاہر القادری اور پی ٹی آئی کو ایک طرح سے ٹریٹ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
تو یہ ان کی سنگین غلطی ہوگی کیونکہ طاہر القادری اور پاکستان تحریک انصاف میں زمین و آسمان کا فرق موجود ہے، طاہر القادری ایک امپورٹڈ انقلابی اور مریدین کے سہارے چلنے والے لیڈر ہیں جبکہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی و جمہوری قوت ہیں جس نے عام انتخابات 2013 ء میں بڑے بڑے سیاسی اپ سیٹ کئے تھے، قارئین کرام! اگر عمران خان اور طاہر القادری کسی ایجنڈے پر ایک ہو جائیں تو ملک میں تبدیلی کے امکانات بہت زیادہ روشن ہو جائیں گے لیکن فی الحال دونوں جماعتوں کے مابین دوریاں نظر آ رہی ہے اور اس پر طاہر القادری کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کر دکھایا کہ انقلاب کو سونامی کی ضرورت نہیں۔
بہر حال اگر طاہر القادری ”خفیہ” انقلاب پر بضد ہیں تو یہ ایک خونی انقلاب ہوگا اور یہی وہ بنیادی نظریہ ہے جس کیہ بنیاد پر تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک میں دوری پائی جا رہی ہے، عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کو گرانے والی کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے جبکہ طاہر القادری حکمرانوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کیلئے اپنے کارکنوں کو احکامات جاری کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم حکومت گرا کر رہیں گے، ملکی سیاسی حالات کس سمت جاتے ہیں اور آنے والے دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی’ فی الحال تو پاکستان گردش ایام سے گزر رہا ہے۔