تحریر : قادر خان یوسف زئی پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ٹویٹر پر جاری اپنے ایک پیغام میں افغان طالبان و حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے 27 مشتبہ عسکریت پسندوںکو نومبر2017ء میں افغانستان حکومت ( امریکا)کے حوالے کئے جانے کا انکشاف کیا ہے ۔ بظاہر مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو اور اقوام عالم کو باور کرایا جائے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف امریکاسے بھرپور تعاون کررہا ہے ۔حوالگی ابھی تک صیغہ راز میں رکھی گئی تھی لیکن امریکی دبائو کو کم کرنے کیلئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹرمحمد فیصل نے ٹویٹر کا سہارا لیتے ہوئے بتایا کہ تحریک طالبان افغانستان ا ور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے 27مبینہ مشتبہ افراد کو افغانستان یعنی امریکاکے حوالے کیا تھا ۔ گزشتہ دنوں کابل میں بے در پے بم دھماکوں کے بڑے واقعات کے بعد امریکا کی جانب سے پاکستان پر مزید دبائو بڑھاتے ہوئے فیصلہ کن کاروائی کا مطالبہ دوہرایا گیا۔ پاکستان پر پھر الزام لگا کہ انٹرنیشنل ہوٹل اور وزرات داخلہ افغانستان میں ہونے والے کابل بم دہماکوںکی منصوبہ بندی پاکستان میں اور حقانی نیٹ ورک کے افراد اس میں ملوث ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹرمحمد فیصل کے مطابق نومبر2017ء میں ان 27مشتبہ دہشت گردوں کو افغانستان کے حوالے کیا گیا تھا تو پھر اس کے بعد اگلے ہی مہینے امریکی صدر ٹرمپ نے ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے مالی امداد دینے کا طعنہ کیوں دیا تھا ۔ پاکستان نے دسمبر ہی میں امریکا کے ساتھ مشترکہ فوجی کاروائیوں کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مشترکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پرازخود کاروائی کرے گا لیکن امریکا کے ساتھ اپنی سرزمین پر مشترکہ فوجی آپریشن نہیں کرسکتا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس امر کی وضاحت نہیں دی کہ جب نومبر2017میں ان 27افغان مشتبہ عسکریت پسندوں کو افغانستان کے حوالے کیا جارہا تھا تو پاکستان نے اُسی وقت اقوام عالم کو بتانا ضروری کیوں نہیں سمجھا کہ انٹیلی جنس بنیادوں پر انہیں گرفتار کیا گیا یا پاکستانی اداروں کی کاروائی تھی۔ یا یہ سمجھا جائے کہ 27افغان مشتبہ عسکریت پسند( جنہیں افغانستان اپنی سرزمین میں ہونے والے کاروائیوں کا ذمے دار سمجھتا ہے ،)پاکستان میں روپوش تھے جو پاکستانی اداروں کے علم میں نہیں تھے۔ علاوہ ازیں پاکستان کو اب ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ وہ دہشت گردوں کی تعداد تو بتا رہا ہے لیکن تفصیلات نہیں بتا رہا ۔ جب پاکستان کے دفتر خارجہ نے یہ فیصلہ کر ہی لیا تھا کہ وہ امریکا ور افغانستان کے دبائو کو کم کرنے کیلئے یہ بتانے پر مجبور ہوا ہے کہ پاکستان ، سنجیدگی کے ساتھ افغان عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کئے جانے کی کوشش کو ناکام بنا رہا ہے تو پھر پاکستان کو اقوام عالم سمیت پاکستانی عوام کو اعتماد لے لینا چاہیے تھا کہ پاکستان سابق صدر پرویز مشرف کی پالیسیوں کو درست سمجھتا تھا اور امریکہ کے مطالبے پر اُس نے جتنے عسکریت پسند یا مطلوب افراد کو افغانستان( امریکہ) کے حوالے کیا وہ درست اقدام تھا لہذا موجودہ اقدام بھی ماضی کے اقدامات کا تسلسل ہے۔
یہ مہبم ترین خارجہ پالیسی ہے کہ ایک جانب پاکستان کی عوام کو بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین میں عسکریت پسندوں کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے ۔ تو دوسری جانب عسکریت پسندوں کو افغانستان کے حوالے بھی کیا جاتاہے کہ یہ پاکستان میں موجود تھے اس لئے ہم آپ کے مطالبے پر یا خیر سگالی کے جذبات کے تحت حوالے کررہے ہیں المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ساز اتنے خوفزدہ کیوں ہیں کہ قومی مفادات پر بیرونی دبائو کو ترجیح دیتے ہیں۔ بادیٔ النظر پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان کے بعدامریکا ، افغانستان کی جانب سے الزام تراشیوں کی توثیق ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں افغان عسکریت پسند موجود تھے یا ہیں۔لیکن پاکستانی عوام کو یہ جاننے کا بھی حق ہے کہ کیا ان افغان عسکریت پسندوں نے افغانستان یا پاکستان میں کسی بڑی شدت پسندی کی کاروائی میں حصہ لیا تھا کہ نہیں ، پھر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ملزمان کے حوالگی کا کوئی معاہدہ کسی دور میں طے پایا بھی ہے کہ نہیں ، کیونکہ ماضی میں بھی افغان عسکریت پسندوں کو پاکستان کی حکومت نے گرفتار کیا اور پھر امریکاو افغانستان کی درخواست پر بیشتر افغان طالبان کے رہنمائوں کو رہا بھی کیاتھا ۔ شاید پاکستانی پارلیمنٹ کو بھی وضاحت کی ضرورت ہے کہ کیا پاکستان و افغانستان میں ایسا کوئی معاہدہ خفیہ طے پایا تھا کہ صرف پاکستان ہی عسکریت پسندوں کو افغانستان یعنی امریکہ کے حوالے کرے گا اور افغانستان کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث اُن ملزمان کو حکومت کے حوالے کرے جو وطن ِ عزیز میں شدت پسندی کے واقعات کے ذمے دار ہیں۔
پاکستانی حکومت کی خارجہ پالیسی کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ ریاست نے ہمیشہ مبہم اور مشکوک ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جو وقت کے ساتھ افشا ہوجاتی ہیں اور پاکستانی قوم کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پاکستانی عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عسکریت پسند وں کا تعلق کس قبیل سے ہے ، پاکستانی عوام صرف اتنا جانتے ہیں کہ ان کے ملک میں امن قائم رہے اور کسی دوسرے ملک کی جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن نہ بنے۔امریکی اتحادی بننے کے بعد پاکستان نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے اب جبکہ افغانستان میں افغان طالبان اور داعش کی خراسان شاخ امریکا اور کابل انتظامیہ کے خلاف پے در پے کاروائیاں کررہی ہیں تو ان حالات میں پاکستان کی جانب سے اہم راز کا” افشا “کرنا حیران کن معلوم ہوتا ہے کہ کیا اس کے بعد ردعمل کے طور پاکستان اب محفوظ ہوگا، کیونکہ پاکستان نے اپنے قوانین سے ماورا ہوکر افغان عسکریت پسندوں کو افغانستان ( امریکا) کے حوالے کیا جس کا واضح تاثر یہی بنتا ہے کہ پاکستان اب بھی امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی ہے اور پاکستان میں ڈرون حملے بھی ہونا ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے بے موقع” راز” کا اخفا یا اس بات کا خوف کہ کابل میں یکے بعد دیگرے افغان عسکریت پسندوں کی کاروائیوں کے حملوں میں بڑی تباہوں سے پاکستان کو اپنی پوزیشن ثابت کرنے کے لئے اس ‘ راز’ کو افشا کرنے کی ضرورت پیش آگئی تھی کہ اس کی سرزمین کسی عسکریت پسندکی پناہ گاہ نہیں ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے27افغان عسکریت پسندوں کو افغانستان ( امریکا) کے حوالے کیا تھا۔
ضرورت تو اس بات کی تھی امریکا اور افغانستان مل کر پاکستانی حکومت کو” شاباشی” دیتے ۔الٹا ان کے مطالبات میں سختی آتی چلی گئی اور یہاں تک کہ پاکستان کو ملنے والی فوجی امداد کو بھی منجمد کردیا گیا ۔ اب پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے اس بیان کے بعد صورتحال عجیب تر نظر آتی ہے کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟۔ پاکستان روز اوّل سے بارڈر منجمنٹ کے میکنزم پر افغانستان سے تعاون مانگ رہا ہے ۔ پاکستان ، افغان مہاجرین کی واپسی کو پائدار امن سے جوڑتا ہے کہ جب تک افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں اور پاک۔افغان سرحدیں آمد و رفت میں غیر محفوظ ہیں اُس وقت تک پاکستان اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ کوئی افغان عسکریت پسند پاکستان میں موجود نہیں۔ یہ پاکستان کا اصولی و صائب موقف ہے ۔ لیکن کیا پاکستان نے اس ٹھوس موقف کو یقینی بنایا ہوا ہے یا پھر اس پر عالمی دبائو برقرار ہے اس پر حکام کو پاکستانی عوام کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔ امریکی صدر کے روز بہ روز بڑھتی دھمکیوں اور افغان صدر کا امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ بھارت شائد پاکستان کے اقدامات سے بخوبی آگاہ ہے اس لئے پاکستان کی خاموشی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اور امریکی چینل سے اس پر پر دبائو میں اضافے کا موجب بن رہا ہے ۔ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت سے کسی قدر غافل نہیں ہے لیکن اس وقت پاکستانی عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حکومت اپنی عوام کو مکمل سچائی سے آگاہ رکھے، کیونکہ ریاست جتنی عوام کے ساتھ مخلص ہوگی ریاست کو بڑے فیصلے لینے اُسی قدر آسانی ہو گی۔