تحریر: عتیق الرحمن بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی پاکستان عالم اسلام کا ایک منفرد و مایہ ناز تعلیمی ادارہ ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ یہ مصر و سعودیہ کے بعد عالم اسلام کا تعلیم کے میدان میںتیسرا قبلہ ہے تو غلط و بے جا نہ ہوگا۔اسلامی یونیورسٹی میں تقریبا تیس سے زائد ممالک کے طلبہ و طالبات اپنی تعلیم کی تشنگی کو مٹانے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ان طلبہ میں سے بہت سے متوسط و کم سرمایہ ممالک سے آئے ہوئے ہیں یہاں تک کہ ان کے تعلیمی اخراجات ان کی بوڑھی ماں برداشت کرتی ہے تاکہ ان کا بیٹا اس عظیم اسلامی درس گاہ میں دینی تعلیم حاصل کر کے اپنی والدہ محترمہ کی نیک تمنائوں پر پورا اتر سکے اور اس امر کا خالص مقصد رضا للہ ہی ہوسکتاہے اور ہے بھی۔ اسلامی یونیورسٹی میں دینی و دنیاوی تعلیم میں کوئی انفرادی و امتیازی حیثیت حاصل کرنے یا اس کے حصول کی جدوجہد کرنے کی بجائے یہ تعلیمی ادارہ مروجہ دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح مال بٹورنے کا مرکز بن چکا ہے۔
اسلامی یونیورسٹی گذشتہ چندسالوں سے ایک تعلیمی ادارے کی بجائے سیاسی اکھاڑے کا منظربن چکا ہے،جس میں ہر کوئی سیکولر و لادین طبقے اور تنگ نظر اور خودپسند دین کی تفہیم رکھنے والے افراد اس کو اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کرنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔ یہاں پر کبھی ایران کی بالادستی رائج کرنے کی جدوجہد ہوتی ہے تو کبھی سعودیہ عرب اپنا حکم مسلط کرنے کی کوشش کرتاہے۔اسلامی یونیورسٹی میں سیاسی عنصر اس حد تک قوی و مضبوط ہوچکا ہے کہ طلبہ تنظیمیں،اساتذہ تنظیم،ملازمین کی تنظیم ایک دوسرے پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ۔آئے روز کے احتجاجی مظاہرے،تنظیموں کے سیاسی و مذہبی ،نسلی و قومی عصبیت پر مبنی پروگرامات سے طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں۔
حال ہی میں ایک میڈیا رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کو مکمل طور پر درست تسلیم و حق نہیں سمجھاجاسکتاالبتہ اس امر تک مجھے اتفاق ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ اپنی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کو اداکرنے میں بے پناہ حدتک ناکام ہوچکاہے اور اس کے اصلاح احوال کی ضرورت ہے ۔مندرجہ ذیل تحریر میں اس ادارے میں موجود لاتعداد خرابیوں میں سے چند کا اجمالاً ذکر کیا جاتاہے ۔اور یہ امید کی جاتی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ دیانت داری و نیک نیتی کے ساتھ ان امور کا جائزہ لے گی اور جن اصلاحات کی حاجت ہوئی تو ضرور اس کو عمل میں لائے گی قطع نظر اس کے کہ یہ کلام یا تحریر کس کی ہے۔
اسلامی یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں کی عملی چند مثالوں سے اندازہ ہوسکتاہے کہ یہ ادارہ تعلیمی مرکز ہے یا ایک سیاسی اکھاڑہ کہ جس پر ہر ایک اپنے جوہر دیکھانے میں پیش قدمی کرتاہے اور حریف مخالف کو چت کرنے کے نئے نئے ہنر ایجاد کرتاہے۔حال ہی میں ایران ،سعودیہ اوریمن کی صورتحال پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا کہ جس کا عنوان ”سعودیہ اور پاکستان کے مابین تعلقات میں علماء کا کردار”،اس سیمینار سے قبل یونیورسٹی میں متعدد کانفرنسیں منعقد کی گئیں اور ان میں علمی و تعلیمی اور فکری تربیت پر غور کرنے کی بجائے صرف اور صرف فوٹوسیشن ہوئے ،اور چند متعین لوگوں کو مدعو کیا جاتارہاہے تاحال ان کانفرنسوں میں منظور شدہ متفقہ نکات پر عمل درامد کا آغاز نہیں ہوا۔گذشتہ ماہ میں بھی ”اسلامی تعلیمات جہاد کے بارے میں اور عصر حاضر کے مسائل و اشکالات ”پر بھی دوروزہ سیمینار ہوا اور اپریل کے آخر میں ایک عالمی سیرت کانفرنس منعقد ہوئی۔
Islamic University Students
اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں اور اس کے ذیلی شعبوں کے زیر انتظام متعدد پروگرامات و کورسز کرائے جاتے ہیں جن میں اربوں روپے سالانہ صرف ہوتے ہیں مگر ان کے نتائج سے کوئی ذی شعور آگاہ نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سرگرمیاں شعبدہ بازی اور ڈرامہ بازی سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان کانفرنسوں اور سیمینارز پر کروڑوں روپیہ کا فنڈ خرچ کیا گیا ہے کیا یہ یونیورسٹی میں موجود طلبہ کی تعلیم و تحقیق کے معیار کو درست کرنے کے لیے صرف نہیں ہوسکتے تھے؟یا پھر درجن سے زائد کانفرنسز کی عملی رپورٹ کوئی دیکھا سکتاہے کہ اتنی خطیر رقم اسراف کے زمرے میں خرچ نہیں کی گئی بلکہ اس کے ظاہری نتائج بھی موجود ہیں؟یونیورسٹی میں سیاسی عنصریت اس قدر غالب ہے کہ طلبہ ،اساتذہ،اور ملازمین اپنے جائز و ناجائز مطالبات کی منظوری کے لیے گاہے بگاہے احتجاج کرتے رہتے ہیں اور اسی طرح ایک دوسرے پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لیے اپنے سیاسی پلیٹ فارم کا غلط استعمال بھی کرتے نظر آتے ہیں اور حال ہی میں یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ کے مابین مسجد کے قضیہ پر فرقہ وارانہ کشمکش اخباروں کی زینت بنی رہی اور یہ معاملہ عدالت تک بھی جاپہنچا۔اس امر میں شک نہیں کہ اسلامی یونیورسٹی میں ایک مخصوص فکر کو غالب کرنے کی ماضی کی طرح اب دوبارہ منظم کوششیں کی جارہی ہیں ۔ اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم و تربیت اور اخلاق و فکرکی پختگی کی بجائے عہدے و مناصب من پسند افراد اور ایک مخصوص مسلک کے وابستگان میں خیرات کی طرح بانٹے جارہے ہیں۔
درجن سے زائد اہم عہدوں پر یا تو صدر جامعہ کا قبضہ ہے یا پھر ان پرمخصوص مسلک کے احباب یا کٹھ پتلی اور غیر قانونی طور پر من پسند افراد کو تعینات کیا گیا ہے۔ان عہدوں میں ریکٹر کے عہدے سے لے کر کلیات ڈین ،شعبہ جات کے سربراہان،اور انتظامی و ذیلی اداروں کے عہدے شامل ہیں۔ جن شخصیات کو نوازا جارہا ہے اور وہ یونیورسٹی کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہیں ان کے نامدرج کرنے کی بجائے صرف ان کے ماتحت شعبوں اورنقصانات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتاہے۔ حسب ذیل ہیں ۔ادارہ شئون طلاب الوافدین کی زیر نگرانی طلبہ کے مابین تفریق کی اساس رکھنے کا فریضہ انجام دیاجاتاہے،عمرہ پیکج ،طلبہ کو سکالرشپس ،اور دیگر یونیورسٹی میں ایک خاص فکر کو رائج کرانے کے لیے صدر جامعہ کے دائیں بازو کا فریضہ نبھارہے ہیں۔سٹوڈنٹ ایڈوائزر،طلبہ تنظیموں کی مجرمانہ سرگرمیوں میں سرپرستی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، اصول الدین فیکلٹی مجموعی طور پر زوال پذیر ہوچکی ہے، من پسند اساتذہ کی تقرری اور ان کی ظالمانہ جابریت نے طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے،عرب اساتذہ سے محرومی اس کلیہ کے طلبا کا تاریک مستقبل کا پیش خیمہ ہے،واضح رہے کہ یہ فیکلٹی اسلامی یونیورسٹی کے اساسی و امتیازی فیکلٹی ہے جس کو دن بدن مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تاریکیوں میں دھکیلا جارہاہے
علمی چوری میں اساتذة و طلبہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ،میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ اسلامی یونیورسٹی کی تنزلی میں اس کلیہ کابنیادی کردار ہے کیوں کہ یہاں دین پڑھااور پڑھایا جاتاہے مگر سب پیسوں کی خاطر اخلاق و کرداراور عمل میں اسلامی روح ناپید نظر آتی ہے۔صدر جامعہ کے ساتھ سعودی عرب سے مبعوث بعض شخصیات اساتذہ و طلبہ کی توہین و تحقیر کو اپنا فریضہ جانتے ہیں اور یونیورسٹی کے فنڈز و بیرون ممالک سے آنے والی امداد کوطلبہ و اساتذہ میںاپنے مفادات کے حصول کے لیے، بے رحمی کے ساتھ بغیر کسی ترتیب کے تقسیم خیرات کی طرح بانٹتے نظر آتے ہیں جبکہ کہا یہ جاتاہے کہ اسلامی یونیورسٹی مالی طور پر کمزور ہے اسی سبب ہم شعبہ جات کے متخصصین اساتذہ میسر کرنے سے عاجز ہیں۔ ایک صاحب پر اپنے تھیسز میں چوری کا الزام HECکی طرف سے عائد ہے اور متعدد بار اخباروں میں بھی ذکر آچکا ہے مگر اس پر کوئی ایکشن نہیں لیاگیا بلکہ ان کو بڑے عہدوں اور منصبوں سے نوازاجارہاہے۔،شعبہ مالیات کے ذمہ داران کی بداخلاقی و سینہ زوری سے طلبہ عاجز آچکے ہیں ،من پسند یا طاقتور طلبہ کی یکمشت فیسیں معاف کرنا ان کا خاص پیشہ ہے ۔یہ تمام محترم حضرات یونیورسٹی میں تعلیم و تعلم کی خدمت کرنے کی بجائے صدر جامعہ کی خوشنودی کے حصول اور ان کی مدح سرائی و کاسہ لیسی میں شب و روز مصروف عمل رہتے ہیں۔
یہ خبر بھی سننے میں آرہی ہے کہ صدر جامعہ نے یونیورسٹی کے بعض کلیدی عہدوں پر فائز ذمہ داران کی تنخواہ میں اضافہ کے نام پر سعودیہ سے بھاری بھر کم رشوت بھی عطاکرتے ہیں معلوم یہی ہوتاہے ان حضرات نے بدلے میں اسلامی یونیورسٹی کی اساس و و بنیادوں کو کمزور وناکارہ بنانے کی قسم لے رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ طلبہ کو ہی پڑہارہے ہیں بلکہ ظلم تو یہ ہے کہ متعدد طلبہ تنظیموں کے سرکردہ ذمہ داران استاد کا لباس اوڑھ کرنے اپنے مسلک و مکتب کی فکر کو فرو غ دے رہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ تعلیم کی افادیت و علم و فن کی مہارت معدوم بن چکی ہے۔خبر نگاری و تقریرکے انداز میں لیکچر دیئے جاتے ہیں ۔اس اندوہناک امر سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ طلبہ کے ساتھ کس درجہ ظلم و زیادتی کا سلسلہ روا رکھا جارہاہے۔اسی کے ساتھ ہی اسلامی یونیورسٹی میں متعدد شعبہ جات میں متخصصین و ماہرین علم و فن اساتذہ معدوم ہیں۔اس دانش گاہ کا امتیاز عرب اساتذہ تھے جن کا سیشن مکمل ہوجانے کے بعد ان کے سیشن میں اعادہ یا متبادل اساتذہ کی بروقت طلبی کی بجائے ان سے پیدا ہونے والے خلاء کو مکمل کرنے کے لیے سعودیہ کے فنڈ پر پاکستانی اساتذہ ایک خاص مسلک کے لائے گئے جن کے سبب صرف اصول الدین فیکلٹی کے تین ڈیپارٹمنٹ روبہ زوال ہیں(شعبہ سیرت و تاریخ،شعبہ حدیث اور شعبہ عقیدہ و فلسفہ)۔
Islamic University Teachers
یونیورسٹی میں موجودہ عرب اساتذہ کو ویزہ کے حصول، تنخواہ کے حصول ،کنٹریکٹ کی بار بار تجدید جیسے غیر ضروری امور میں الجھایاجاتاہے جو ان کا اصل مقصد و ہدف یونیورسٹی میں تعلیم اورطلبہ کی خدمت کرنا ہے اس سے ہٹاکر ان کو زچ کیا جاتاہے اور ان کو انتظامی مشاکل میں پھنسا کر ان کی صلاحیتوں کو روگ لگادیا جاتاہے۔ یہاں ایک امر کی جانب اشارہ ضروری سمجھتاہوں کہ اگر یہ جامعہ مختلف عرب ممالک سے اپنے تعلقات بہتر کرے تو سیکنڑوںمتخصصین اور ماہرین و علم فن اساتذہ انہیں ان ممالک کے تعاون سے آسکتے ہیں۔مگر پاکستانی اساتذہ و منتظمین کو علم دوستی کم اپنی جاہ و حشمت زیادہ عزیز ہے۔ اسلامی یونیورسٹی میں جمع ہونے والی فیسوں اور عرب ممالک سے ملنے والی امدادکا من پسند افراد پر پانی کی طرح بلاکسی قاعدے و ضابطے کے استعمال کیا جارہاہے اور یونیورسٹی میں غیر ضروری مقامات اور لہو ولعب کی تقریبات پر خرچ کیا جاتاہے ۔صدر جامعہ کا شیش محل تعمیر کیا گیا،صدر جامعہ کے سیکیورٹی کے نام پر لاکھوں روپے صرف ہوئے ،صدر جامعہ نے بی ایم ڈبلیو حاصل کی،صدر جامعہ کی درجن سے زائد کتب شائع کی گئیں
درجن سے زیادہ کانفرنسز و سیمینارز منعقد کیے گئے ،شریعہ اکیڈمی،دعوة اکیڈمی مختلف کورسز میں کروڑوں روپے مال بے رحم کی طرح صرف کرتی ہیں،حال ہی میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر یونیورسٹی کے ہر اہم مقام پر جہاں سے طلبہ کو دن میں متعدد بار گذرنا ہوتاہے وہاں پر ان کو موذی امراض میں مبتلا کرنے کے لیے لاکھوں روپے کی سکینر مشینیں نصب کردی گئی ہیں جس کے سبب مستقبل قریب میں متعدد طلبہ جان لیوامراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں جب کہ یونیورسٹی میں سیکیورٹی کا ناقص انتظام ہے اور پرائیویٹ کمپنی کے افراد کو سبزی منڈی و روڈوں پر گشت کرنے والے افراد کو بشکل محافظ متعارف کروایا گیا ہے ۔اور ان میں متعدد سیکیورٹی گارڈ طلبہ و اساتذہ کی تذلیل و تحقیر کرنا اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہیں۔جب کہ اسلامی یونیورسٹی کا ایک منفرد امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں جامعہ مسجد گذشتہ پندرہ سالوں میں تعمیر نہ ہوسکی اور مسجد کے نام پر اربوں روپے کا فنڈ بادل نخواستہ انتظامیہ کے نہ پر ہونے والے کنویں میں دفن ہوچکا ہے۔
جب کہ دوسری طرف دیکھا جائے تو طلبہ و اساتذہ اور ملازمین دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ان کی تعلیم و تعلم کے لیے تعلیمی بلاکس کی کمی ہے ،کلاسز اپنے اساتذہ کے کمروں یا مسجدوں میں لی جاتی ہیں،سب لائبریریزکا فقد ان ہے مرکزی و فیکلٹی کی لائبریری میں کوئی کتاب گھنٹوں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتی،شعبہ جات کے تخصصات کی کتب تو نایاب و ناپید ہیں۔جب کہ طلبہ کو رہائش کے لیے مسجدوں میں ڈیرے ڈالنے پڑتے ہیں یا پھر ہاسٹلوں میں بوجہ مجبوری حاجت سے زیادہ لڑکے رہنے پر مجبور ہیں۔ایم ایس و پی ایچ ڈی کے کمروں میں ڈبل ڈبل لڑکوں کو سیٹ الاٹ کی جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ طلبہ اپنے مطالعہ و مراجعہ اور ریسرچ و تحقیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔اسی طرح متعددچھوٹے درجہ ملازمین بھی رہائش کے سلسلہ میں پریشانی سے دوچار نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں متعدد افراد سرائے خانہ کے طور پر بھی رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں تعلیم کہیں اور حاصل کرتے ہیں یا نوکری و ملازمت کرتے ہیں مگر رہتے اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں ہیں ،ہاں ان کے پاس یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ و ہاسٹل کارڈزبھی موجود ہوتے ہیں۔
امتحان سیکشن و فنانس سیکشن میں موجود بڑے و چھوٹے سبھی طلبہ سے بداخلاقی و بدتہذیبی،استہزاء کا رویہ اختیار کرنا اور طلبہ کو نظر حقارت سے دیکھنااپنا فرض منصبی گردانتے ہیں جبکہ خود اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ دفتری اوقات میں فیس بک کا استعمال ،اخبارات کا مطالعہ ،اور میٹنگ و کھانے کے نام پر طلبہ کو گھنٹوں انتظار میں ذلیل کرتے ہیں اور جب اپنی کرسی پر پہنچ جائیں تو سب و شتم اور طلبہ پر الزامات کی بھرمار کردیتے ہیں۔جب کہ متعدد ملازمین دفتری اوقات میں اپنا ذاتی کام کرتے ہیں۔ مہمان اساتذہ من پسند طلبہ یا سفارشی طلبہ کو نوازنا اپنا فرض منصبی جانتے ہیںجبکہ تعلیم و تربیت فراہم کرنے کی بجائے طلبہ کے ساتھ لہو لعب قسم کا مذاق کرکے ان کا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں یا پھر ان کو خبریں پڑھاتے ہیں یا طلبہ کو رٹا سسٹم سے متعارف کرواتے ہیں کہ جو ہم نے آپ کو نوٹس و لیکچر دیا من و عن اسی میں سے اور اسی طرح امتحان آئے گا اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی چنداں حاجت نہیںاور غیر تخلیقی اسائمنٹس دیکر طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتے ہیں۔ مستقل اساتذہ پرکوئی دست سوال کرنے کی ہمت نہیں کرسکتاوہ چاہیں تو لڑکوں کو پاس کریں ،وہ چاہیں تو لڑکوں کو فیل کریں ،وہ چاہیں تو کلاسز لیں وہ چاہیں تو کلاسز نہ لیں ،وہ چاہیں تو امتحانات کے پیپر طلبہ سے چیک کروائیں ،وہ چاہیں تویکمشت باصلاحیت طلبہ کو زیر کردیں اور چاہیں تو نکمے و نکٹھو اور وقت پاس کرنے والے کو اقبال پر پہنچائیں۔اور میٹنگ و معمولی مصروفیات کا بہانہ تو معمول ہے ہی۔
Pakistan Government
یہاں ایک اہم بات کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ ہمارے یہاں اساتذہ ایسے بھی ہیں جو چند ہزار کی خاطر خیانت علمی کا ارتکاب سے گریز نہیں کرتے۔ ہم حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسلامی یونیورسٹی میں جاری و ساری مندرجہ بالا علم دشمن سرگرمیوں کا ناصرف دیانت داری کے ساتھ جائزہ لے بلکہ ان عوامل و وقائع کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائے۔تمام انتظامی و تعلیمی عہدے باصلاحیت و ماہرین فن میں تقسیم کیے جائیں ۔اسلامی یونیورسٹی کو ہر قسم کی سیاسی و مذہبی ،لسانی و قومی عصبیتوں کو پاک کیا جائے،یونیورسٹی کے فنڈز کا جائزہ لیا جائے ،فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ایسے سازشی و ملک دشمن اور تعلیم دشمن عناصر کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا جائے یا پھر ان کے اصلاح احوال کو یقینی بنایاجائے۔طلبہ تنظیموں کے ذمہ داران و وابستگان کے منصب استاذ پر فائز ہونے پر پابندی عائد کی جائے۔ماہرین علم و فن ترکی اورعرب ممالک سے فی الفور طلب کیے جائیں ۔اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ و اساتذہ کی تذلیل و تحقیر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔سکالرشپس کی تقسیم کو من پسند افراد میں تقسیم کا نوٹس لیا جائے ۔تعلیمی بلاکس کی تعمیر،ہاسٹل کی تعمیر اور جامع مسجد کی تعمیر فورا اور ترجیحی بنیادوں پر عمل میں لائی جائے۔
آخر میں نہایت بنوائی کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کو مطلع کرتاہوں کہ میرا آپ سے اختلاف کرنا یا اس کو لکھنا قانونی طور پر نہیں بلکہ یہ صرف اخلاقی و ایمانی حمیت و غیرت کو جلادینے کی سعی ہے اس کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہتاہوں کہ مجھے آپ سے کوئی ذاتی منفعت یا فائدہ حاصل کرنا مطلوب و مقصود نہیں اور نہ ہی کسی فرد سے ذاتی بغض و عناد ہے کہ اس کے نتیجے میں آپ کے بارے میں قلم کوجنبش دوں بلکہ میں آپ سے صرف اس قدر مطالبہ کرتاہوں کہ اس یونیورسٹی کو ایک مسلم تعلیمی ادارہ رہنے دیں اس کو سیاسی مفادات و مصالح کے لیے ہر گز استعمال نہ کریںاور اس میں موجود خامیوں پر قابوپایاجائے یہاں انفرادی و جماعتی مفادات و مصالح سے بالاتر ہوکر صرف اسلامی سوچ و فکر اپنے اندر اجاگر کی جائے چونکہ تاابد مسلمانوں پر انبیا والا فریضہ اداکرنا مقرر فرمادیاگیا ہے۔ اگر آپ حضرات بدستور اپنی اس روش کو جاری رکھتے ہیں تو ہم آپ کے خلاف آواز حق بلند کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں یہ پاکستان اسلامی و جمہوری ملک ہے اس میں آمریت و بادشاہت کا تصور ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ہی سیکولر نظریات کو فروغ دینے کے خواہش مند حضرات کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے اور اسلامی یونیورسٹی اسلام کے نام پر قائم کی گئی اس کے اساسی و بنیادی اہداف کو ہدف تنقید بنانے ناصرف اسلام دشمنی کا ثبوت ہوگا بلکہ ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہوں گے کہ آپ خود اپنے اسلامی نظریہ پر وجود میں آنے والے یکتاملک کے بھی دشمن اور رقیب ہیں ایسے میں ہم لادینی تحریکوں کے خلاف بھی آواز حق اٹھانے میں حق بجانب ہیں۔آئندہ کسی تحریر میں یونیورسٹی کے ترجمان سید مزمل حسین شاہ کی جانب سے موصول شدہ تحریر و خط پر چند معروضات ضرور تحریر کروں گا۔
Atiq Rahman
تحریر: عتیق الرحمن atiqurrehman001@gmail.com 0313525617