آخر کار گیارہ دن سے جاری خوں ریز ی کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ ہو ا تو دوسری جانب یہودی حکومت نے منافقانہ چال چلتے ہوئے صرف دس بارہ گھنٹوں کے بعد مسجد اقصی کے باہر فلسطینیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے امن معاہدے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں ۔اسرائیلی فوج کے گرینیڈ دھماکوں کے ساتھ ہی فلسطینی مرد و خواتین اور معصوم بچے سراسیمگی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ظالم و غاصب اسرئیل فلسطینیوں پر حملہ کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتا، یہی وجہ ہے کہ سال بھرجنگ جاری رہتی ہے۔ جبکہ گزشتہ چند سالوں سے صیہونیوں کی وحشیانہ کارروائیاں تیز تر ہو گئی ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے پہلا حملہ ماہ رمضان اور وہ بھی شب قدر میں کیا گیا۔ نمازیوں میں دہشت پھیلائی گئی۔حرم پاک کے تقدس کو ماپال کیا گیا۔ اندرون مسجد اندھیرا کرکے ان پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں۔ رمضان سے اب تک سینکڑوں فلسطینی شہید اور ہزارہا زخمی ہو چکے ہیں۔
غزہ پراسرائیلی بربریت کے نتیجے میں 50 اسکولز، میڈیا ہائوسزجن میں الجزیرہ کا دفتر بھی شامل ہے،حماس کے عسکری ٹھکانے، فلسطینیوں کے سینکڑوں مکانات اور بلندو بالا عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ کوئی اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کو دیکھ کر رو رہا ہے۔ کوئی زخمیوں کو اٹھاکر ہسپتال کی طرف بھاگ رہا ہے۔ کوئی ملبے کے نیچے دبے معصوم بچوں اور عورتوں کی لاشوں کو نکال رہا ہے اور کوئی اپنوں کی لاشوں کو اٹھاکر اللہ کے دربار میں فریاد کررہا ہے۔ ایسے بھیانک مناظر دیکھنے کو ملیں ، اللہ ہی جانتا ہے کہ ان فلسطینیوں پر کیا بیتی ہوگی؟ نہ ان کو سر چھپانے کیلئے چھت میسرہے ، نہ پیٹ بھرنے کیلئے کھانا موجود ہے اور نہ زخمیوں کیلئے دوا دارو کا کوئی معقول انتظام۔ صدر فلسطین محمود عباس کے مطابق اسرائیل نے گھروں اور آبادیوں پر دانستہ حملہ کئے ۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کی ڈھٹائی ملاحظہ کیجئیے جس نے کہاکہ وہ صرف اپنے دشمن اورعسکری اہداف ہی کو نشانہ بنا رہا ہے اور عام شہریوں کو نقصان سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔فلسطینیوں پراسرائیلی ظلم و ستم کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ پچھلے 72 سالوں سے فلسطینیوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔
یہ فلسطینی فاتح خیبر حضرت علی، جنت کے نوجوانوں کے سردارحضرات حسنین اور صحابہ کرام کی اولاد ، اللہ پر یقین رکھنے والی قوم قبلہ اول اور ارض مقدس کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ان کاعزم و حوصلہ اور صبر و استقلال ہی ہے کہ یہ پتھروں سے صہیونی دہشت گرد فوج کے سامنے سینہ سپر ہیں۔یہ وہ قوم ہے جس کی مائیں اپنے بچوں کو میٹھی لوریاں اور فلمی نغمے نہیں سناتیں بلکہ طائف، احد، خیبر اورکربلاکی نظمیں سناتی ہیں۔ عمربن خطاب کی شہادت، صلاح الدین ایوبی کی شجاعت، اور محمد بن قاسم کی دلیری کے قصے بتاتی ہیں۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرکے بیٹھا ہواہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہٹلر کی فوجی کارروائی کے بعد بچے کچھے اسرائیلیوں نے برطانیہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ برطانیہ نے اپنے ملک میں پناہ دیکر ان کو بہت ساری سہولتوں سے نوازا اور اسی دوران انہوں نے فلسطین میں مستقل قیام کاایک ناپاک منصوبہ بنایا۔ برطانیہ حکومت نے بھی اپنے ملک کو ان کے چنگل سے بچانے کیلئے اس منصوبہ کو خوب سراہا اور یہودیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کیلئے قومی وطن کے قیام پر مشتمل ایک اعلامیہ جاری کیااور ایک سال کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطہ پر قبضہ کرتے ہوئے زمین کا ایک حصہ اسرائیلیوں کے حوالے کردیا۔ بعدازاں یہودیوں کے لئے فلسطین کی جانب ہجرت کے دروازے کھول دئے گئے۔ جبکہ معصوم فلسطینیوں نے بے سوچے سمجھے آنے والے مہمانوں کاخیر مقدم کیا۔ ان کو کاروبار سے لگایا،انہیں زمینیں دی، ان کی غریب لڑکیوں سے بیاہ کیا یہاں تک کہ اپنے گھروں بلکہ دلوں میں جگہ دی۔
انصار مدینہ نے جو کچھ مہاجرین کیلئے کیا فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کیلئے وہ سب کیا۔ادھربرطانیہ نے یہودیوں کو فلسطینی زمین پر جائز قبضہ دلانے کیلئے ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔پھر کیاتھا 1947 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی جس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک عربی ملک اور دوسرا یہودی ملک۔ یہودی کیلئے فلسطینی زمین کا ٤٥ فیصد حصہ اور عرب کیلئے ٥٤ فیصد حصہ، جبکہ القدس کیلئے ایک فیصدی حصہ مقرر کیا گیا۔ پھر 1948ء کو صیہونیوں نے ایک یہودی ریاست ”اسرائیل ” کا اعلان کردیا جو مسلم ممالک کے سینے میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے ۔یہی نہیں بلکہ1967 ء کو عرب اور اسرائیل جنگ کے بعد اصل باشندوں کو بے دخل کرکے فلسطین کے77 فیصد حصہ پر قبضہ جما کر اسرائیل اپنی جڑیں اور مضبوط کر چکا ہے۔
تاہم آج کوئی فلسطینیوں کی کی مدد کیلئے کوئی تیار نہیں،کوئی ان کے حق میں آواز اٹھانے والا نہیں ۔ یہاں تک کہ اپنے ہی ملک سے نکالے گئے فلسطینی در بدر ہیں۔اقوام متحدہ سمیت تمام دنیا پر سکوت طاری ہے ۔ اقوام متحدہ نے مظلوم فلسطینیوں کیلئے بہت ساری قرار دادیں منظورتو ہوئیں، لیکن صیہونی ریاست کے مسلسل انکار اور اقوام عالم کی غیر سنجیدگی کی بناء پر کسی بھی قرارداد عملی طورپر نافذ نہیں ہوسکی۔افسوس ہے مسلم امہ کی بے بسی پر ان کے نفاق کی بدولت قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے کیلئے کچھ نہ ہو سکا۔ حالانکہ ان کو اللہ تعالی نے بے پناہ طاقت بخشی ہے اور تیل کی دولت سمیت سے بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم ریاستیں اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں۔ مسلم تنظیموں او آئی سی ، عرب لیگ کا بھی خاطر خواہ فائدہ آج تک نہیں ہوا۔
جب بھی فلسطینیوں پر حملہ ہوتا ہے مسلم حکمران اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کے بیانات کا انتظار کرتے ہیں۔ اور وہ اسرائیل کو ایک جائز سلطنت کے طور پر ماننے کیلئے تیار ہو گئے۔ وہ حضرت عمر محمدبن قاسم اور صلاح الدین ایوبیکی تابندہ تاریخ کو فراموش کرچکے ہیں۔ جب بھی فلسطین پر ظلم وستم ہوتا ہے توعالم عرب کی طرف سے حرمین شریفین کے خطبوں میں امن و سلامتی کا پیغام دے کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اسلام امن کا علمبردار ہے۔ لیکن اقدام نہ سہی دفاع پر اسلام کا تصور پیش کرنے کی جرات تک نہیں کی جاتی۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور وہ اپنی فوج کی طاقت سے مسجد اقصی پر قبضہ کرچکا ہے اور 57مسلم ممالک مل کر بھی ایک یہودی مملکت اسرائیل کے ہاتھوں بیت المقدس کو آزاد نہیں کراسکے اور اہل فلسطین کو ان کے جائز حقوق نہیں دلا سکے۔ آج تقریبا ڈیڑھ ارب سے زائدمسلمان اور 57 مسلم ممالک کے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس بات کے انتظار میں ہیں کہ ابابیلیں آکر نوے لاکھ یہودیوں کا خاتمہ کریں گی؟۔