بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی کو برسراقتدار آئے تین ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہندوستان کے چند ماہ میں ہی زبردست معاشی قوت بننے اور دودھ و شہد کی نہریں بہانے کے زبردست دعوے کئے جار ہے تھے مگر ابھی تک سوائے مسلم کش فسادات کے پروان چڑھنے اور مساجدومدارس پر حملوںکے کسی چیز نے نمایاں انداز میں ترقی نہیں کی۔
مودی سرکار کی آمد کے بعد ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانوں کے خلاف کھل کھیلنے کے مواقع مل گئے ہیں۔وشواہندو پریشد اور بی جے پی لیڈر ایک دوسرے سے بڑھ کر مسلم مخالف بیانات دے کر بھگوا دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ کوئی مسلمانوں کو مظفر نگر فسادات یاد رکھنے کی دھمکیاں دیتا ہے تو کوئی باچھیں پھیلا کر یہ کہہ رہا ہے کہ انگلینڈ میں رہنے والے انگریز ، جرمنی میں رہنے والے جرمن، امریکہ میں رہنے والے امریکی ہیں تو پھر ہندوستان میں بسنے والے سب لوگ ہندوکیوں نہیں ہو سکتے؟یہاں جس کسی کو رہنا ہے اسے ہندو ہی ہونا چاہیے۔ ہندو انتہا پسندوںنے آجکل ایک اور پروپیگنڈا بہت زیادہ شدت سے شروع کر رکھا ہے۔
وہ ہندو درندے جو چلتی بسوں، گاڑیوں اور ٹرینوں میں لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری کر رہے ہیں اور پورے بھارت میں یہ چلن فیشن بنتا جارہا ہے وہی بھگوا دہشت گردگھر گھر جاکر اپنی ہندو بہنوں کے بازوئوں پر راکھیاں باندھ رہے ہیں اور مسلم نوجوانوں سے ان کی عزتیں بچانے کیلئے نام نہاد مہم چلائی جارہی ہے۔ جوں جوں بھارتی ریاست اترپردیش اور مہاراشٹر میں ضمنی انتخابات قریب آرہے ہیں ہندو انتہاپسند تنظیموں آر ایس ایس، وشواہندو پریشد، بی جے پی، سناتھن سنستھا اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے ہندو لڑکیوں اور عورتوں کی عزتوں کے مسلمانوں سے لاحق خطرات کا جھوٹا واویلا مچایا جارہا ہے اور اسے ”لو جہاد”کا نام دیا گیا ہے۔
ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محبت کے جال میں پھانستے ہیں ‘ان سے شادی کر کے بچے پیدا کرتے ہیں اور پھر ان بچوں کو ہندوئوں کے خلاف تربیت دی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں بھارت کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کیا جاسکے۔ان دنوں یوٹیوب پر اس حوالہ سے ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جسے آن کیاجائے تو عجیب و غریب آواز سنائی دیتی ہے کہ صاحب! آپ کا ذرا سا وقت لیا جائے گا’ ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذریعہ کسی کی زندگی بچ جائے۔ پھر کچھ دیر کے بعد کہا جاتا ہے کہ مسلمان لڑکے معصوم اور بھولی بھالی ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر اپنے عشق کے جال میں پھانستے ہیں اورپھر شادی کے بعد ان کا ذہنی و جسمانی استحصال کرتے ہوئے ان سے بچے پیدا کر کے چھوڑ دیاجاتا ہے۔
مسلمانوں کا مقصد ہندو لڑکیوں سے شادیاں کر کے انہیںجہا دکی ٹریننگ دے کر ہندوئوں کے خلاف کرنا ہے۔ اس لئے ان کی غیر ت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آس پاس پیدا ہونی والی ایسی کسی بھی صورتحال سے ہوشیار رہیں اور اگر کسی مسلم لڑکے کو کسی ہندو لڑکی سے ملتا ہوا دیکھیں تو فورا پولیس کو آگاہ کر کے بھارت ماتا کے ایک سچے شہری ہونے کا ثبو ت دیں۔مذکورہ ویڈیو کے حوالہ سے بھارتی شہریوں نے جب یوٹیوب انتظامیہ سے رابطہ کیا توانہوںنے صاف طور پر کہہ دیا کہ ہم اس ویڈیو کو نہیں ہٹا سکتے کیونکہ ایک عرصہ سے شیو سینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور دوسری ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر انہوںنے ان کی سرگرمیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو اس پر پابندی لگوا دی جائے گی’اس لئے ہم مجبور ہیں۔
بہرحال فیس بک اور یو ٹیوب پر شرپسندی پھیلانے کے علاوہ پوسٹرز، اسٹیکرز، کتابچوں اور دیگر ذرائع کے ذریعہ بھی یہ گند پھیلا یا جارہا ہے۔ اسی طرح ٹی وی چینلز اور اخبارات کو بھی اس مذموم عمل کیلئے استعمال کیاجارہا ہے اور عام لوگوںکو گمراہ کرنے کیلئے بعض خواتین کو برقعے پہنا کر اپنی مرضی کی باتیں کہلوا کر سوشل میڈیا پر پھیلایاجارہا ہے۔ بھارت میں ”لو جہاد” کے نام سے ایک انتہائی قابل اعتراض اور نفرت انگیز کتاب بھی شائع کی گئی ہے جس کے ذریعہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ، عیسائی ، پارسی اور دیگر طبقات کو بھی مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک آر ایس ایس جیسی تنظیمیں باقاعدہ طور پر ہندو نوجوانوں کو تربیت دیکر مخلوط تعلیمی اداروںمیں بھیجتی تھیں کہ وہ مسلمان لڑکیوں سے دوستی کریںاوران سے شادیوں کی کوشش کریں۔ اس دوران اگر وہ ہندو مذہب قبول کر لیں تو ٹھیک وگرنہ ایسے ہی ان کے ساتھ تعلقات قائم کر کے شادی شدہ زندگی گزاریں۔
Muslims
اس عمل کو پروان چڑھانے کیلئے سرکاری سرپرستی میں منصوبہ بندی کے تحت ایسی فلمیں بنائی گئیں جن میں فرضی کردار وں کے ذریعہ دکھایاجاتا رہا کہ کسی برقعہ پوش لڑکی نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کر لی اور پھر گھر سے بھاگ کر نامعلوم مقام پر شادی شدہ بن کر زندگی گزارتی رہی لیکن اب الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلمانوں پر یہ الزامات لگا کر اترپردیش اور مہاراشٹر میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے رہی ہیں جو کہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کا میڈیا اس بے بنیاد پروپیگنڈا کی بنیاد پر مسلم کش فسادات پھیلانے کیلئے پورا زور لگا رہا ہے۔
وشوا ہندو پریشد نے تو اس سلسلہ میں ”درگا واہنی” کے نام سے (وی ایچ پی خواتین سیل) بھی قائم کر رکھا ہے جس کی اراکین ہندوئوں کے گھروںمیں جاکر عوامی رابطہ مہم کے بہانے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ وشوا ہندو پریشد کے جنرل سیکرٹری دیش پانڈے نے دعویٰ کیا ہے کہ وی ایچ پی نے چند برسوںمیں ”لو جہاد” کی شکار سینکڑوں ہندو لڑکیوں کی ”اصلاح ” کر کے انہیں دوبارہ ہندو بنایا ہے۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس پروپیگنڈا کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو گئی ہے۔
وشوا ہندو پریشد کے زیر اہتمام 21 سے 23 نومبر تک بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ”ورلڈ ہندو کانگریس” کے عنوان سے ایک میٹنگ بھی بلائی گئی ہے جس میں دس ہزار غیر ملکیوں سمیت پچیس ہزار سے زائدسیاستدان،صنعت کار، صحافی اور تعلیمی ماہرین شریک ہوں گے۔اس میٹنگ کا بنیادی ایجنڈابھی ”لو جہاد” پر غوروفکر بتایاجارہا ہے۔ بی جے پی کی پوری کوشش ہے کہ اس غلیظ پروپیگنڈے کو سرکاری ایجنڈے میں شامل کیا جائے لیکن کانگریس اور دوسری سیاسی تنظیموں کی جانب سے اسے ہندو مسلم فسادات بھڑکانے کی سازش قرار دیکر شدید احتجاج کئے جانے کی وجہ سے وہ اپنے اس ایجنڈے میںکامیاب نہیں ہو سکی۔ بھارت میں تعلیم و صحت سمیت ہر میدان میں مسلمان بہت پیچھے ہیں مگر جیلوںمیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اب تک جتنے بھی بم دھماکے ہوئے ہیں ہر مرتبہ ان کے الزامات مسلمانوں پر لگائے گئے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو خاص طور پر جیلوںمیں ٹھونساجاتا رہا لیکن ہر بار تحقیقات کے بعد مسلم نوجوان بے گناہ نکلے اور سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد اور مالیگائوں بم دھماکوں جیسی دہشت گردی کی وارداتوںمیں انہی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے اہلکار ہمیشہ ملوث پائے جاتے رہے۔ ” لو جہاد” اور ” لو گرو” نامی تنظیموں کے شوشے تو چھوڑے جارہے ہیں مگر کوئی ہندو انتہاپسند تنظیم یہ بتانے کیلئے تیار نہیں کہ ان مبینہ تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر کہاں ہیں اور کون انہیں چلارہا ہے؟اور جب بھارت میں ہی ہندو لڑکے مسلمان لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں تو اس وقت شور کیوںنہیں مچایا جاتا؟
مظفر نگر میں بدترین فسادات اسی بنیاد پر ہوئے اور اب گذشتہ ہفتے میرٹھ میں بھی یہی افواہ پھیلائی گئی کہ ایک مسلم نوجوان نے زبردستی ایک ہندو لڑکی کو اغواء کر لیا ہے مگر تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ مذکورہ لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اغواء کا ڈرامہ قطعی طور پر غلط تھا جس پر یہ کیس بند کر دیا گیا۔اترپردیش اور مہاراشٹر میں خاص طور پر ”لو جہاد” کا اتنا پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ فسادات پھیلنے کے ڈر سے ہر شخص خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ بعض بھارتی مسلمانوںنے بہت کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح وہ اپنے آپ کو سچا بھارتی ثابت کرسکیں۔ اس کیلئے نصیر الدین، عامر خاں، شاہ رخ، سیف علی خاں اور اب ایک موذن کے بیٹے کرکٹر عرفان پٹھان جیسے کھلاڑیوں اور اداکاروںنے ہندو لڑکیوں سے شادیاںکیں، اپنے گھروںمیںمندر بنائے اور اپنے بچوں کے نام ہندوئوں کے ناموں پر رکھے مگر ہندو بنیا پھر بھی انہیں دل سے بھارتی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور محض مسلمان ہونے کی بنا پر ممبئی جیسے شہروںمیں وہ اپنے لئے ایک فلیٹ تک نہیں خرید سکتے ۔ہندو انتہا پسند انہیں بھی” لو جہادی” قرار دیتے ہیں۔
Hindus
یہ صورتحال بھارتی مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ وہ ہندوئوں کو خوش کرنے کی بجائے اسلامی شریعت پر کسی طور کمپرومائز نہ کریں اور یہ بات یاد رکھیں کہ وہ جس قدرمرضی اپنی وفاداری کا یقین دلائیں ان کی بات ہندوکبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔اسی طرح ہندو انتہا پسند بھی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ ایسی مذموم اور گھنائونی حرکتیں کر کے جتنا زیادہ مسلم مخالف جذبات بھڑکارہے ہیں اسی قدر دو قومی نظریہ پروان چڑھے گا، بھارتی مسلمان متحد وبیدار ہوں گے اور پھر وہ وقت بھی آئے جب بھارت میں مزید پاکستان بننے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔