میرے سامنے تبصرے کے لیے جو کتاب ہے اس کا پہلا نام”کیا جماعت اسلامی حق پر ہے” جس کو مولانا عبدالرحیم اشرف نے ١٩٥٦ء کو فیصل آباد سے شائع کیا تھا۔ اسی نام سے اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٦٥ء میں، مکتبہ تجلی دیو بند بھارت سے مولانا عامرعثمانی نے شائع کیا تھا۔ مولانا عامر عثمانی بھتیجے ہیں، مولانا شبیر احمد عثمانی کے ،جو پاکستان کے بنانے میں بانیِ پاکستان قائد اعظم کے دست راس تھے۔ اسی کتاب کو” معیارحق کون ہے” کے نئے نام اور نئی ترتیب وحواشی کے ساتھ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ،میں فقہ کے پروفیسر اورہائر انسٹی ٹیوٹ آف فتویٰ اسٹڈیز کے ڈاریکٹر جناب ڈاکٹر عبدالحی ابڑو اور شکیل عثمانی صاحبان نے شائع کیا ہے۔ہم نہ عالم ہیں اور نہ کچھ اور صرف قرآن و حدیث کے طالب علم ہیں۔ عرصہ نصف صدی سے اسی کام پر لگے ہوئے ہیں۔قرآن حدیث کے متعلق افادہ عام کے لیے ہمارے مضمون ملک کے اخبارات اور رسائل میں ایک عرصے سے شائع ہو رہے ہیں۔ اللہ ہم سب کو قرآن اور حدیث کے علم سے واقفیت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریک آزادیِ پاکستان کی اُٹھان بانی پاکستان محمد علی جناح نے دو قومی نظریہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ کانگریس کے علماء جن میں دیو بند کے مولانا حسین احمد مدنی پیش پیش تھے، نے ہنددئوںکے مؤ قف کی تاہید میں ،قومیں وطن سے بنتی ہیں کی وکالت کی تھی۔وہ متحدہ قومیت کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ گو کہ اس مسئلہ کو شاعر اسلام علامہ اقبال نے اپنے اس ایک شعر میں واضع کیا تھا۔ علامہ فرماتے ہیں:۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومی رسولۖ عاشمی
تحریک آزادی ِ پاکستان کے دوران ،مسئلہ قومیت پرمولانا موددی نے مفکر پاکستان علامہ اقبال اور بانیِ پاکستان قائد اعظم کی فکر کی تائید کرتے ہوئے پے در پے مضمون لکھ کر اپنے رسالے ترجمان قرآن میں شائع کیے تھے۔جس سے قائد اعظم کے تحریک پاکستان کے دوران دوقومی نظریہ کو تقویت پہنچی تھی۔یہ مضمون ”تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان حصہ اول دوم” کتابی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔مسئلہ قومیت پر مولانا حسین احمد مدنی نے مفکر پاکستان علامہ اقبال،بانی پاکستان قائد عظم اور حکومت الہیہ کا تصور پیش کرنے والے مولانا موددیکے مخالف تھے۔ ان پر کفر کا فتوے جاری کیے تھے جس کے اثرات آج تک ان کے ماننے والوں میں محسوس کیے جاتے ہیں۔
مولانا موددی اپنی اصل فکر” حکومت الہیہ” کے قیام کے لیے بھی اپنے رسالے میں عام مسلمانوں کو دعوت دیتے رہے۔ پھر ١٩٤١ء میں لاہور میں جماعت اسلامی بنی۔ حکومت الہیہ یااسلامی نظام حکومت قائم کرنے کی جدو جہد کرنے والے کارکنوں کو جن اوصاف کی ضرورت ہیں اس کو جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں عقیدے کے طور پر لکھا تھا۔ وہ یہ ہے۔”اس عقیدے کے دوسرے جزیعنی رسولۖ اللہ کے رسولۖ اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رسولۖ اللہ کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے۔کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے۔ کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہر ایک کو خدا کے بتائے ہوئے معیار کامل پر جانچے اور پر کھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو، اُس کو اُسی درجے میں رکھے” جماعت اسلامی اسی بنیادی دستور پر اپنے کارکنوں کو عمل کرنے کی پابند بناتی ہے۔ گو کہ جماعت اسلامی کے دستور پر عمل کرتے ہوئے حکومت الہیہ کو قائم کرنے والی جماعت اسلامی اب تناور درخت بن چکی ہے۔ اس کے اثرات ساری دنیا میں موجود ہیں۔ پھر بھی عام حضرات کی معلومات کے لیے ”کتاب معیار حق” میں درج اس عقیدے پر ہم تبصرہ کرتے ہیں۔
کتاب کے مقدمہ میں مشہور معروف عالم دین جناب خلیل الرحمان چشتی نے صفحہ ٢١ تا ٤٣ تک قرآن اور حدیث سے ثابت کیا اور اس کی تاہید،شیخ الہند، مفتی محمد شفیع، حضرت تھانوی اور مفتی محمد تقی عثمانی نے کی کہ جماعت کے دستور میں درج یہ عقیدہ ہل سنت والجماعت کے عقیدے کے عین مطابق ہے۔جماعت اسلامی کے دستور میں درج معیار حق کتاب کے صفحہ ١٣ دیباچہ میں لکھا ہے کہ” ١٩٥٤ء جماعت اسلامی کی اس شق پر مولا نا حسین احمد مدنی، جماعت کو گمرہ اور اہل سنت سے خارج کرتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمہین کی توہین کی مرتکب ہے۔بانی ِجماعت اسلامی نے اس کاجواب صفحہ ١٧٠ پر اس طرح دیا کہ” تنقید کے معنی ایک جاہل آدمی تو سمجھ سکتامگر کسی صاحب علم آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس لفظ کا یہ مفہوم سمجھے گا۔تنقید کے معنی جانچنے اور پرکھنے کے ہیں۔ یہ مطلب آخر کیسے نکل آیا کہ ” صحابہ کرام کے محادو فضائل، کتاب اللہ اوراحدیث نبویہ میںمذکورہ ہیں، وہ واجب التسلیم نہیں ہیں’ ‘ تاب کے صفحہ ٩٦ میں امام ابو حنیفہ کا عقیدہ لکھا ہے” کہ جو بات ہم تک رسولۖ اللہ کی جانب سے آئے وہ سر آنکھوں پر اور جو بات صحابہ سے ہم تک پہنچے اُس میں ہم (بعض) کو پسند کریں گے” امام مالک فرماتے ہیں” رسولۖ اللہ کے سوا، ہر شخص کی بات پر تنقید کی جائے گی اور ضرورت پڑے تو اسے رد بھی کیاجا سکے گا”(حجة اللہ البالغہ) کتاب کی صفحہ ١٢٢ پر درج ہے کہ کسی صاحب نے دارلعلوم دیوبند سے مولانا موددی کے متعلق فتویٰ پوچھا۔جواب یہ ملا۔١:۔جو لوگ موددی کہلاتے ہیں ان کو معاذ اللہ کافر نہ کہنا چاہیے،ان سے کچھ اختلاف ہو سکتاہے،مگر ایسے اختلافات سے کسی کو کافر بتلانے والا گنا گار ہے۔٢:۔مودد ی کو کافر کہنا غلط ہے، ان کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔( محمود احمد صدیقی صاحب،مفتی دارالعلوم دیو بند، ٨رمضان ١٣٨٤ھ جنوری ١٩٦٥ئ)۔ ہمارے نذدیک یہ صحیح مؤقف ہے اور مولانا حسین احمد مدنی کا فتویٰ غلط ہے۔ کتاب کے صفحہ ١٢٦ تا١٣٧ تک معیار حق کے بارے میں علمائے عرب جن میں مفتی اعظم فلسطین السید الحسینی،الشیخ عبداللہ کنون مراکش۔ الشیخ عبدالعزیز بن باز النجدی حجاز،الشیخ حسنین محمد مخلوف مصر اور الشیخ علی الطنطاوی دمشق شامل ہیں، سب نے جماعت اسلامی کے دستور میں درج عقیدے کو صحیح قرار دیا۔
صفحہ ١٤٠ تا١٤٧ تک علمائے ہند جن میں مولانا محمد سعید ندوی،مفتی دارلعلوم ندوہ العلمای لکھنو،مولانا ابو العرفان، شیخ الحدیث، دارلعلوم ندوہ العلماء لکھنو،مولانا محمد ظہورر ندوی،مولانا عبدلحفیط۔ فاضل دیوبند،مولانا محمد علیم عطا،مولانا عبدلرحمان چشتی، سابق صدر مدرس دارلعلوم خیلیہ ٹونک، مولانا مفتی عبدلعادی، قاضی ریاست بھوپال،مولانا عبدلودود ندوی، مولانا عبیداللہ رحمانی محدث مبارک پوری،مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا معین الدین احمد ندوی نے بھی جماعت اسلامی کے عقیدہ کو صحیح کہا ہے۔صفحہ ١٤٩ سے١٦٢ تک پاکستان کے ٨ اور علمائے مشرقی پاکستان کے٥ نے بھی یہی تصدیق کی ہے۔ صفحہ ١٦٩ سے٢١٩ تک جماعت اسلامی کے بانی اور جماعت کا دستور مرتب کرنے والے ٨ علماء کی طرف سے وضاحت بھی پیش کر دی ہے کہ جماعت اسلامی کے دستور میں درج صحابہ کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا ہے۔جماعت اسلامی کا وہی عقیدہ ہے عرب و عجم کے علماء اور پوری امت کا ہے۔ اس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے مولانا حسین احمد مدنی کے فتویٰ کی تحریر جسے انہوں نے اپنے مکتوب گرامی میں جماعت اسلامی کے کفر تک پہنچانے والے عقیدے کے ثبوت کی حیثیت سے پیش کیا تھا، علمائے عرب و عجم کو پیش کیا۔ ان سب علماء نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اورجماعت اسلامی کے دستور میں درج عقیدے کو صحیح قرار دیا۔ کتاب کے آخر میں استدعا کی گئی ہے کہ اس تصریحات کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی دیانت دار اور خدا ترس اور عند اللہ مسٔولیت پر یقین رکھنے والے شخص کے لیے اس امر کا امکان باقی نہیں رہ جاتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے دستور کے وہ معنی بیان کرے جن سے انکار انبیاء اور توہین صحابہ کو کوئی پہلو نکلتا ہو۔
صاحبو!مولانا موددی نے پہلے حکومت الہیا کا تصور پیش کیا۔ پھر جماعت اسلامی بنائی جو آج تک اس کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ اقبال قائد اعظم اور موددی کے دوقومی نظریہ کی مخالفت کرنے والے مولاناحسین احمد مدنی علماء نے معیار حق کافتویٰ جاری کر دیا۔ اُس زمانے میں انگریز کی حکومت تھا اور علماء انحطاط میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ اسلام کے اس تصور کو دیوانے کی بڑ کہتے تھے۔جب مولانا موددی نے حکومت الہیا کا تصور دیا تو عام علماء نے یہ بھی فتویٰ جاری کہا تھا کہ یہ شخص امام مہدی بننا چاہتا ہے۔ آج اللہ کا شکرہے کہ مولانا موددیکے اعلان اور پھر اسلامی دستور کو پاکستان میں منظور کرنے پر پاکستان کی سب پارٹیاں اپنے منشور میں نظامِ اسلامی کی شق رکھتیں ہیں۔ علماء کو چاہیے کہ فتوے دینا بند کریں ۔ اللہ سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس انحطاط سے باہر نکالے اورہم سب مملکت اسلامیہ پاکستان جو ایک مثل مدینہ ریاست ہے، میں حکومت الہیا، نظام مصطفےٰ، مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی کوشش میں موجودہ حکومت کا ساتھ دیں۔”معیار حق ”پر وہی ہے جو ارکان ِاسلام کا پابند ہے اور اللہ او رسولۖ اللہ کے لائے ہوئے نظامِ اسلام کو اس ملک میں نافذ کر نا چاہتا ہے۔ یہ ہی اس کتاب” معیار کون ہے” کا پیغام ہے۔