تحریر : میر افسر امان دنیا میں پاناما آف شور کمپنیوں کے سامنے آنے پر نواز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں منی لانڈرنگ پانامہ کیس کا مقدمہ چل رہاہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مکمل تحقیق کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔ اس کام کے لیے ملک میں دستیاب امین ترین حکومتی اہل کاروں کو سپریم کورٹ نے مکمل اختیارات دے کر منتخب کیا کہ وہ مکمل تحقیق کر کے ساٹھ دنوں کے اند اندر کورٹ کو رپورٹ پیش کرے تاکی حتمی فیصلہ جاری کیا جائے۔جے آئی ٹی پاناما کیس کی کورٹ کی سرپرستی میں تیزی سے تحقیقات کر رہی ہے۔ اس دوران وزیر اعظم کے دونوں بیٹوں سے جے آئی ٹی نے کئی پیشیوں کے دوران تفتیش کی۔ اب جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کو بھی سوالات کے لیے نے طلب کیا ہے۔ پہلے تو حکومت نے جے آئی ٹی پر مکمل اعتماد کے اظہار کیا مگر جیسے جیسے تحقیقات آگے پڑھنے لگی تو حسین نواز صاحب نے جے آئی ٹی کے دو افراد پر اعتراض کیا جس کو کورٹ نے رد کر دیا۔
حکومتی اہل کاروں نے پریس میں واویلا کیا کہ حسین نواز کی قابل اعتراض تصویر کس نے پبلک کی جبکہ جے آئی ٹی کی کاروائی کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔حکومتی میڈیا سیل کے کارندوں نے تصویر کے معاملے کو پریس میں خوب اُچھالا اور اس کے خلاف طرح طرح کے نامناسب بیان جاری کیے جبکہ جے آئی ٹی کی کاروائی کو کنٹرول اور تحفظ کر نا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ پھر حکومت نے جے آئی ٹی پر دبھائوڈالنا شروع کیا۔ جے آئی ٹی نے اپنی کاروائی کی روٹین کی رپورٹ کے ساتھ یہ رپورٹ بھی کورٹ میں پیش کی کہ ان پر کچھ حکومتی حلقوں کی طرف سے دبھائو ڈالا جا رہاہے۔ کچھ حکومت اہل کار ریکارڈ بھی تبدیل کر رہے ہیں۔ایسے حالت میں ہم مقررہ وقت پر تحقیقات مکمل نہیں کر سکتے۔ صاحبو! عوام کواچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری پر کرپشن کے مقدمے قائم ہوئے تھے توحکومتی اہل کار نے لندن کے سرے محل کے ریکارڈ کو کیسے صندوقوںمیں بند کر کے منتقل کیا تھا۔اس کی وڈیو بھی عوام کے سامنے آئی تھی۔
حکومتی اہل کاروں نے ساراریکارڈ بھی غائب کر دیا گیا تھا۔ پھر نیپ نے بھی یہ کہہ کر آصف علی زرداری کا مقدمہ واپس داخل دفتر کر دیا کہ اصل ریکارڈ دستیاب نہیں اور ہم فوٹو اسٹیٹ ریکارڈ پر مقدمہ نہیں چلا سکتے۔کیا ریکارڈ غائب کرنے والوں پر بھی مقدمہ قائم نہیں کر سکتے؟۔صاحبو! جب پاناما کیس کا مقدمہ درج ہوا تھا تو ہم نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ مقتدر حلقوں کی کرپشن کوکون ختم کرے گا؟ کیونکہ سارے محکمے جو کرپشن کو پکڑنے کے ذمہ دار ہیں وہ حکومت کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور ان کی سربراہی کے لیے حکومت کے منظور نظر افراد کا تقرر کیاجاتا ۔ اسی کا رونا پاناما کیس کو مانیٹر کرنے والے سب سے بڑے روح رواں عمران خان صاحب بھی روتے رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کی پبلک کمیٹی نے بھی اس کا خدشہ ظاہر کیا ۔ مقدمے کی کاروائی کے دوران کورٹ کے جسٹس صاحبان نے بھی ایسے ہی ریکارکس دیے۔ ان حالات میں انصاف حاصل کرنے کے لیے عوام میں تشویش پیدا ہوئی تھی۔ اس کو ختم کرنے کے لیے اور عوام کو باخبر رکھنے کے لیے ہم نے اپنے طور پر کئی کالموں میں یہ لکھتے رہے ہیں کہ عوام کے خزانے کی لوٹے ہوئی دولت کو حکمرانوں سے واپس عوام کے خزانے میںجمع کرنے کا صرف ایک ہی ادارہ ہے اور وہ پاکستان کی سپریم کورٹ ہے۔ اب پاناما کا کیس سپریم کوٹ میں چل رہا ہے ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کرجلد از جلد اس کیس کا فیصلہ عوام کے سامنے آ جائے گا۔ سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی پر عوام اور سیاست دانوں نے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب تک یہ مقدمہ چل رہا ہے وزیر اعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے اور کسی بھی ن لیگ کے فرد کووقتی طور پر وزیر اعظم بنا دیاتے تاکہ اور حکومتی اہل کار غیرجانب داری سے سے کیس کی تفتیش کرتے۔ وزیر اعظم پر پاکستان کی عوام کااعتماد قائم ہوتا ۔کیس کا فیصلہ ان کے حق میں ہونے کے بعد پھر وزیر اعظم بن جاتے اور آنے والے قومی انتخابات میں ان کی جیت بھی یقینی ہو جاتی۔ مگر لگتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے ۔ اس لیے وزیر اعظم نوازشریف نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ حکومتی میڈیا سیل کی طرف سے جے آئی ٹی کو متنازہ بنانے کے لیے بے جا عتراضات اورزبردست مخالفانہ مہم اور جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ میں شکایت کہ حکومتی اہل دبھائو ڈال رہے ہیں۔
ان حالات میں عوام کو بھی محسوس ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ نواز شریف اور ان کی اولاد کے پاس لندن میں جائداد کی منی ٹرائل کا کوئی بھی ثبوت نہیں۔کیس کا سارا دارومدار قطری شہزادے کے خط پر ہے۔ جبکہ قطری شہزازدے نے بھی جے آئی ٹی کے بلانے اور سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ نواز شریف کے پاس ثبوت نہیں اب وہ کیس کا اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لیے جے آئی ٹی پر نامناسب اعتراضات، اس کے ممبران پر دبھائو اورریکارڈ تک تبدیل تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میںکچھ محب وطن حلقوں کی طرف سے اس پر تشویش پائی جاتی ہے کہ پہلے بھی نواز شریف نے سپریم کورٹ پر حملہ کروایا تھا اور اب بھی کہیں ویسا کھیل نہ ہو جائے۔ان حلقوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی حالت میںپاکستان کے آئین میں ایسی شکیں موجود ہیں جو سپریم کورٹ عوام کو انصاف بہم پہنچانے کی قانونی اور اخلاقیذمہ داری پوری کرے۔ عوام کو اس امر پر اطمینان رکھنا چاہیے کہ قانون میں سپریم کورٹ کی حفاظت پاکستان فوج کی آئینی ذمہ داری ہے جو وہ پوری کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔انشا اللہ اس کیس کے فیصلے سے نہ صرف موجودہ حکمرانوں سے لوٹا ہوا عوام کا خزانہ واپس ہو گا بلکہ اس سے قبل بھی جس جس نے عوام کا پیسہ لوٹا ہے اسے قانون کی گرفت میں لا کر اس سے بھی عوام کا لوٹا ہوا پیسہ وصول کیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کا سب سے بڑا کرپشن کا مسئلہ حل ہو۔ اور میرا پاکستان کرپشن فری ہو جائے گا انشا اللہ۔