سرکاری ملازمین کے بے شمار مسائل کا حل مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے کیوں کہ 1973ء کے آئین کا آرٹیکل 25(1) تمام پاکستانیوں کو مساوی حقوق دیئے جانے کی وکالت کرتا ہے۔ آئین میں جیسا کہ درج ہے ”قانون کی نگاہ میں تمام شہری برابر ہیں اور مساوی قانونی تحفظ کے مستحق ہیں“ ہم ریٹائرڈ ملازمین کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ملکر اپنی درد بھری داستانیں سناتے رہتے ہیں۔ سرکاری ملازمین اپنی زندگی کا دو تہائی حصہ سرکاری ملازمت میں گزارنے کے بعد جب ریٹائرڈ ہوتے ہیں، تو اپنے واجبات کے منتظر رہتے ہیں۔ ان متاثرین سے غیرمساویانہ اور امتیازی سلوک کیا آئین کی توہین کے زمرے میں نہیں آتا؟ ریٹائرڈمنٹ، اور پنشن کے حصول کے لئے رل جاتے ہیں، اور ادارے ان لوگوں کو زندہ رہنے کا حق دینے سے بھی گریزاں ہیں، کیا یہ ظلم و زیادتی نہیں؟
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ان ملازمین کی حق تلفی کرنے والے کون لوگ ہیں۔؟ توجواب یہ ملتا ہے کہ جن حکمرانوں کو عوام کے اہم ترین مسائل کا علم ہی نہ ہو وہ کیا نیا پاکستان بنائیں گے۔ ہمارے محترم وزیر اعظم بار بار ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ریاست مدینہ کو تو چھوڑیے خلفائے راشدین کے بعد ایسے مسلم حکمران گزرے ہیں جو بھیس بدل کر راتوں کو عوام میں پہنچ جاتے تھے اور مسائل معلوم کرکے انھیں حل کرتے تھے۔
دوسری جانب کیا آج کا حکمران طبقہ ریاست مدینہ تو چھوڑیے بعض مسلم حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ آج کا دور میڈیا کا دور ہے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک میڈیا میں خبروں کا بہاؤ جاری رہتا ہے۔ اہم اور غیر اہم خبریں 24 گھنٹے نشر ہوتی رہتی ہیں،اخبارات اور ٹی وی چینل رات دن حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں لیکن مسائل کا جائزلیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے نئے حکمرانوں کو سیاسی جنگ، بیان بازی کے علاوہ غالباً عوامی مسائل کا سرے سے علم ہی نہیں۔
اگر بات کی جائے وزیر اعظم عمران خان صاحب کی تو وہ عوام کو نیا پاکستان بنانے کی ہر روز خوشخبریاں سناتے ہیں، پرانے لوگ حیرت سے نئے پاکستان کے تصور میں کھو جاتے ہیں لیکن ان کے سامنے وہی پرانا پاکستان آجاتا ہے جس میں جائز کام کے لیے بھی سفارشیں اور رشوت درکار ہوتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے عوام کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ اب سرکاری ملازمین سے اپنے جائزکام کروانے کے لیے نہ کسی سفارش کی ضرورت ہے نہ رشوت کی۔ کاش وزیر اعظم کا یہ ارشاد درست ہو لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس اور انتہائی مایوس کن ہے۔کیوں کہ وزیراعظم عمران خان کے علاوہ تمام سیاست دانوں کو اپنے اور پارٹی مفادات کے عزیز ہیں۔ہمارے ملک کے عوامی نمائندے اپنی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ کیلئے چند منٹوں میں قانون پاس کروا لیتے ہیں لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کے مالی تحفظ اور سروس پروٹیکشن کیلئے اسمبلیوں میں آواز بلند کیوں نہیں کرتے اور اس کیلئے اسمبلیاں اچھی اور پائیدار قانون سازی کیوں نہیں کرتیں؟ ان پارلیمینٹیرینز کوسرکاری،نجی اداروں کی جانب سے ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ روا رکھا گیا ظلم کیوں نظر نہیں آتا؟ہمارے ارباب اختیار مغربی تہذیب کے بڑے دلدادہ ہیں اور ان کی روایات پر بڑی بے تابی کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔
وہاں سینئر سٹیزن کے ساتھ جو برتاؤ و سلوک ہوتا ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے جو قانون رائج ہیں، کیا ہمارے یہ اربابِ اختیار اس سے باخبر ہیں؟ وہ کیوں اپنے سینئر شہریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے مغرب کی پیروی نہیں کرتے اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے مناسب قانون سازی نہیں کرتے؟۔ ریٹائرڈ ملازمین اس صورت حال پر انتہائی ذہنی اذیت کا شکارہیں۔ ان کی زندگی انتہائی بے کیف اور بے رنگ ہو چکیں ہیں جس کے باعث میں ہزاروں ملازمین انتہائی ڈپریشن اور فرسٹریشن کا مریض بن چکے ہیں۔
تاریخی گواہ ہے کہ ریاست مدینہ میں ضعیف اور کام کرنے سے قاصر عوام کے مسائل کو اولیت دی جاتی تھی اور ان کے لیے آرام سے زندگی گزارنے کے لیے ضرورت کے مطابق وظائف دیے جاتے تھے۔ امید ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نئی تہذیب یعنی ماڈرن کلچر سے پوری طرح واقف ہیں لیکن ان کے اندر کا مذہبی انسان انھیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ ماضی کے ساتھ جڑے رہیں ریاست مدینہ کا خواب ماضی کے ساتھ جڑے رہنے ہی کی خواہش کا ایک حصہ ہے۔ وزیر اعظم کو بے شمار اہم ترین مسائل کا سامنا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بزرگوں کی خواہش کا احترام بھی انھی بڑے کاموں کا ایک حصہ ہے۔
یہ بات بڑی حیرت کی ہے کہ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ ماڈرن تہذیب کے ساتھ گزارنے کے باوجود ہمارے وزیر اعظم ابھی تک ماضی سے جڑی ہوئے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کو اپنے ساتھیوں یعنی ریٹائرڈ ملازمین ہونے والوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا چاہئے تاکہ جن مسائل کا آپ ریٹائرڈ ملازمین شکار ہیں ان کا ازالہ بروقت ہوسکے۔حکومت وقت بھی ایسے مسائل پر فوری توجہ دیں تاکہ پریشان حال ریٹائرڈ ملازمین کو ان کا قانونی حق مل سکے۔