خسارے کے بجٹ میں وعدہء فردا پہ واعظ نے ٹرخا دیا

Budget

Budget

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

گزشتہ دِنوں خود کو عوام کی مشکل کُشائی کا دَم بھرتی حکومت نے کرونا وبا اور ٹڈی دَل کے حملوں کے ساتھ بجٹِ بے ثمر کے موسم میں آئندہ مالی سال 2020-2021ءکا3437ارب روپے خسارے کے ساتھ 37 ارب روپے کا اپنا دوسرا بے ثمر کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔

جس پرایک طرف جہاں حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ بائیس سال بعد عوامی خواہشات پر اِن کی دادرسی کے لئے اقتدار میں آنے والی اپنی نوعیت کی ہر دل عزیز پی ٹی آئی کی حکومت ( کروناوبا اور ٹڈی ڈَل کے حملوں میں ) اِس سے بہتر اور اچھا بجٹ پیش نہیں کرسکتی تھی۔ جب کہ وہیں حکومت کا یہ بھی وعدہ اور دعویٰ ہے کہ اِس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایاگیا،وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بھی ایک پائی کا اضافہ نہیں کیا گیا؛ افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس موقع پر بجٹ پیش کرنے والے وزیر نے گردن تان کر اور سینہ پھُولا کر ڈھٹائی کے انتہائی درجے پر پہنچ کر یہ اعلان بھی کیا کہ سرکاری ملازم پرانی تنخواہ پر کام کریں گے، پنشن بھی نہیں بڑھے گی“ جناب عالی !بیچارے وفاقی تنخواہ اورپنشن دار طبقے کا دل توڑنے کے لئے اِتنا ہی کہہ دینا کافی تھا۔ مگر نہیں جناب ..!!جب اِس سے بھی بات نہیں بنی تو وزیرموصوف نے اپنے تعین فہم وفراست بھرے لہجے میں مزید یہ بھی کہہ دیا کہ ” آئندہ برس (وفاقی تنخواہ اور پنشن دار طبقے ) کے لئے اِس مدمیں کوئی رقم بھی مختص نہیں کی گئی ہے “ جب وفاقی وزیر لہک لہک کر بل کھاتے اوراِتراتے ہوئے یہ سب کہہ رہے تھے۔

تو ایسا لگ رہاتھاکہ جیسے حکومت نے یہ سب کہہ کر اپنے لبوں پر ایلفی ڈال کر اِنہیں ہمیشہ ہمیشہ (یا کم ازکم ایک سال تک )کے لئے توضرور اپنے لب اور کان میں روئی ٹھوس کر بند کرلئے ہیں۔(یہاں ہم نے لب سینے کی بات یوں نہیں کی ہے کیوں کہ لب سینے والامعاملہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں اپنے مخالف صحافیوں ،کالم نگاروں،تجزیہ کاروں کے لئے رکھ چھوڑا ہے)۔ آج یقین ہوگیا ہے کہ اِس بجٹ میں وفاقی تنخواہ اور پنشن دارطبقوں کو ناکارہ پرزہ اور ردی کی ٹوکری میں پڑے کاغذ کے ٹکرے جتنی بھی اہمیت نہیں دی گئی ہے۔جب کہ اٹل حقیقت یہ ہے حکومت کو ہاتھ پکڑ کر چلانے والا یہی وفاقی تنخواہ دار طبقہ ہی ہے۔آج تک جو حکومت کے بے جان لاشے میں آکسیجن بھر کر گھسیٹے جارہاہے۔ ورنہ اِس حکومت میں کہاں اِتنا دَم اور اِتنی صلاحیت ہے کہ یہ خود سے ایک قدم بھی چل سکے ۔

حالا ں کہ بجٹ سے قبل حکومت نے وفاقی تنخواہ اور پنشن دارطبقوں کو اگلے مالی سال کے میزانئےِ بے ثمر میں اِن کی تنخواہیں اور پنشن بڑھانے کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کئے تھے ۔مگر جب حماد اظہر نے بجٹِ بے ثمر پیش کیا ؛تو اِس میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا ۔بجٹ میں وفاقی سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی بے توقیری دیکھ کر شاعر کے یہ اشعار لب پر آئے بغیر نہیں رہ سکے بقول شاعر۔

نکہت گُل نے ہراِن کا چَمن مہکا دیا کاغذی پُھولوں سے قدرت نے ہمیں بہلادیا
اُنکو بخشی گئیں فردوس کی حوریں یہاں وعدہء فردَا پہ واعِظ نے ہمیں ٹرخا دِیا

اُن کا ساغر تھا پُر،خالی مِرا پیمانہ تھا ایسا میخانے میں ہوگا، یہ کبھی سوچا نہ تھا
”زندگی بھر ہم رہے خوش فہمیوں میں مبتلا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا

ہم نے دیکھی صبح جوخورشیدسے محروم تھی ہم نے دیکھی رات، جو تعبیر سے بیگانہ تھی
آخرشب تھے جہاں ہنگامے ہائے ہاوہو صبح دَم اُس بَزم میں خاکستر پروانہ تھی

حقیقت تو یہ ہے کہ بائیس سال تک مگر مچھ کے آنسو بہابہا کر خود کو سب سے بڑی عوامی ہمدرد ظاہر کرنے والی پی ٹی آئی کے عوام دُشمن قول و فعل اَب سامنے آرہے ہیں ۔اُف اِس جماعت نے ماضی سے لے کر آج تک عوام کو کس کس انداز سے کیسے بے وقوف بنایا اور کب تک مزید بناتی رہے گی۔؟آج ن لیگ اور پی پی پی کی حکومتوں پر نااہلی اور عوام دُشمنی کے تنقیدوں کے رہریلے نشتر چلاتی پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی اپنی ناتجربہ کاری اور نااہلی سے پونے سال میں ہی طرح طرح کے بحرانوں اور مہنگائی کی چکی میں پیس کر عوام کی ہڈیوں کا سرمہ بنا دیاہے۔
جب کہ اِس سے بھی اِنکار نہیں ہے کہ آج پاکستانی عوام اور خود پی ٹی آئی کے حامی بے روزگار نوجوانوں اور ووٹرز کو لگ پتہ گیاہے کہ پی ٹی آئی کے جن سیراب نمانعروں کے پیچھے بھاگ کراِن لوگوں نے اِس جماعت کو ووٹ دے کر یہاں تک پہنچایا ہے۔ دراصل عوام کے لئے خوشحالی اور نئے پاکستان کا خواب لئے ایڑیاں رگڑنے کے بعد اقتدار میں آنے والی پاکستان تحریک اِنصااف اوراِس کے سربراہ وززیراعظم عمران خان کی حکومت کانہ تو پچھلا ہی بجٹ عوامی امُنگوں پر پورا اُترسکاتھا اور نہ ہی حکومت کا یہ دوسرا بجٹ جِسے حکومت تاریخی خسارے کا ٹیکس فری بجٹ کہہ کر دھمال اور بھنگڑے ڈال رہی ہے یہ بجٹ اپنے بطن سے کئی منی بجٹوںکی پیداور کا سبب بنے گااور مُلک میں کئی نئے بحرانوں اور مہنگائی کے طوفانوں کو لائے گا۔ یقین جانئے اِس بجٹ میں بھی عوام کو سِوائے مہنگائی اور بحرانوں کے نئے طوفانوں کے خوشحالی نصیب نہیں ہوگی ۔

دراصل بات یہ ہے کہ ابھی مزید کئی سال تک پی ٹی آئی والوں کو اقتدار نہیں ملنا چاہئے تھا کیوں کہ یہ جماعت جنرل الیکشن تک اِس قابل نہیں ہوئی تھی کہ اِسے بائیس کروڑ عوام کی حکمرانی سونپ دی جاتی ،پتہ نہیں اِدھر اُدھر کی کن زمینی خفیہ طاقتوںنے گٹھ جوڑ کرکے پاکستان تحریک اِنصاف کومسندِ اقتدار کی ذمہ داری دے دی ۔آج جس نے عوام کا مہنگائی سے سرکچلاسوکچلا، مُلکی معیشت ، استحکام اور اداروں کا بھی ستیاناس کرنے کے درتک پہنچادیاگیاہے۔
تاہم سندھ حکومت جو اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق سے مدر پدر آزادی کا علم بلند کئے وفاق کے خلاف بھر پور طریقے سے جنگی بنیادوں پرجارحانہ اننگزکھیلنے میں مصروفِ عمل ہے ۔جس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ بس اِسے وفاق کی ایک نہیں سُنی ہے۔ بس سب کچھ وفاق کے حکم اور ڈکٹیشن کے خلاف اور اُلٹ ہی کرنا ہے۔

آج تک کرونا وباءپر لاک ڈاو ¿ن جیسے معاملے پر سندھ حکومت ، وزیراعلیٰ سندھ اور پی پی پی کے چیئر مین بلاول زرداری سمیت سندھ کے اداروں نے اپنی ہی مرضی چلائی ہے۔ جس پر وفاق پہلے ہی سیخ پا تھا کہ پچھلے دِنوں جب وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے بجٹ2020-2021ءکا 8ارب 37کروڑخسار ے کا 1241ارب 12کروڑروپے کا بجٹ پیش کیا تو وفاق اور تین صوبوں کے برعکس سندھ حکومت نے پنشنرزکے علاوہ گریڈایک سے16کے ملازمین کی تنخواہ میں 10فیصد17سے 21تک 5فیصداضافے کا اعلان کرکے نہ صرف حیران کردیا بلکہ کھلم کھلا طور پر وفاق کے ساتھ جیسے اعلان ضد بھی کردی ہے کہ ہم اپنے فیصلے کرنے میں خودمختار ہیں۔ ہمیں وفاق کے دباو ¿ اور حکم و ڈکٹیشن کے بغیر وہ سب کچھ کرناہے۔ جِسے ہم اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں۔بیشک ! اَب وفاق کو سوچنا ہوگا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کی کیا حیثیت رہ گئی ہے؟ وفاق کہاں کھڑاہے؟

ویسے رقم الحرف کی سوچنے اور سمجھنے کی سوئی اِس نقطے پر رک گئی ہے کہ آج اگر کرونا وباءکے معاملے پروفاق مُلک بھر میں سخت لاک ڈاو ¿ں کا حامی ہوتا؛ تو سندھ حکومت صوبے میں اسمارٹ لاک ڈاو ¿ن کرنے پر بضد ہوتی؛ یکدم ایسے ہی آج جب وفاق نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن بجٹ میں نہیں بڑھائی ہے۔ تو سندھ حکومت نے اپنے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ اونٹ کے منہ میں زیرہ اور آٹے میں نمک جتنی ہی بڑھادی ہے۔جب کہ ہمیشہ یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ سندھ حکومت کو وفاق سے شکوہ ہی رہتاہے کہ وفاق سندھ کے ساتھ اِسے رقم کی ادائیگی میں تعاون نہیں کررہاہے۔ اگر واقعی ایسا ہے جس کاہمیشہ رونا سندھ حکومت روتی رہتی ہے؛ تو پھراَب سندھ حکومت نے اپنے بجٹ 2020-2021میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیوں کیا ہے؟ اگر اِسے رقم کی تنگی تھی؛ تو سندھ حکومت بھی وفاق اور دیگر تین صوبوں کی طرح اپنے سرکاری ملازمین تنخواہ میں اضافہ نہیں کرتی…!!وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اورسندھ حکومت وعدہ کرے کہ آج اگر وفاق سے ضد کی بنیاد پر سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھاہی دی ہے۔ تو پھر سید مراد علی شاہ اور سندھ حکومت وفاق سے رقم کی ادائیگی کا کسی بیوہ عورت کی طرح بار بار اپنی بے بسی اور بے کسی و مجبوری کا رونا بھی نہیں روئے گی۔(ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com