سانحات پر بھی سیاست

Allah

Allah

سیاست، صرف سیاست ۔۔۔ سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گھٹی میں پڑی سیاست ہمارے اکابرین کو ہر دَم بے کَل وبے چین رکھتی ہے اور وہ انتظار میں رہتے ہیں کہ اُنہیںکب ایسا موقع ملے جس پر وہ اپنی سیاست بگھار سکیں۔ زندہ قومیں ابتلاء میں مبتلاء اور وقفِ مصیبت ہوتی لیکن اپنے اتحاد و یگانگت اور عزمِ صمیم کی بدولت مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے کامران بھی ہوتی ہیں۔ جنگِ عظیم دوم کے جرمنی اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ قومیں صدیوں تک بھی اُبھر سکیں گی لیکن آج وہ ایک دفعہ پھر دُنیا پہ چھائی ہوئی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا نام ہی سیاست ہے۔ رجوع اللہ کی طرف بھی نہیں کہ ہم نے تو کئی چھوٹے چھوٹے خُدا بنا رکھے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا ”اے مالک ! ہم پر سخت حکم نہ بھیج، جو ہم سے پہلے لوگوں پر بھیجے گئے۔ اے پروردگار! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہم برداشت نہ کر سکیں۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے دَر گزر فرما، ہم پر رحم فرما، تُو ہی ہمارا رمولا ہے۔ سبھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جنوں میں مبتلاء ہیں۔

اسلام آباد کچہری پر خود کُش حملہ اور فائرنگ ہوئی۔ ایک سیشن جج، خاتون وکیل سمیت پانچ وکلاء اور اوپن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر سمیت گیارہ افراد لُقمۂ اجل بنے۔ لواحقین کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی اور ہمیں اپنی سیاست کو صیقل کرنے کا موقع ۔جب سے یہ مَوجِ خوں سَروں سے گزری ہے، الیکٹرانک میڈیا سمیت چہار سُو حکمرانوں کو نشانۂ تضحیک و تنقید بنایا جا رہا ہے اور حکمرانوں کے بھی وہی گھِسے پِٹے جملے کہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی، چوبیس گھنٹے میں رپورٹ طلب کر لی گئی، ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ سیاست دانوںکے ”با جماعت” مذمتی بیانات جنہیں سُن سُن کر کان پَک چکے ہیں۔ ایسا ہم عشروں سے سُنتے چلے آ رہے ہیں اور تا دَمِ زیست سُنتے ہی رہیں گے لیکن”اے بَسا آرزو کہ خاک شُدی”، دہشت گردوں کو نشانِ عبرت بننے کی آرزو کے انتظار میں آنکھیں پتھرا جائیں گی۔

یہ ہم اِس لیے کہہ رہے ہیں کہ صرف کہنے کی حد تک تو قوم ایک صفحے پر ہے لیکن میدانِ عمل میں بکھری ہوئی۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور جنگ بھی ایسی کہ جس میں مقابلہ کھُلے نہیں چھُپے بُزدل دشمن سے ہے جو کہیں بھی اور کسی کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ اِس ادراک کے باوجود بھی طنز کے تیر اور تنقید کے نشتر۔ الیکٹرانک میڈیا کی چاندی ہو گئی، ریٹنگ آسمانوں کو چھونے لگی اور مرد و خواتین اینکر ز اپنی دوکانیں سجا کر بیٹھ رہے ۔پارلیمنٹ میں وہ بھی بول اُٹھے جنہیں بولنے کا ڈھنگ ہے نہ سلیقہ ۔نشانہ صرف حکومت اور حکومتی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد۔سبھی کی ایک ہی رَٹ کہ وزیرِ داخلہ نے چند روز پہلے اپنی پریس کانفرنس میں یہ کیوں کہا کہ اسلام آباد مکمل طور پر محفوظ ہے، ریپڈ ایکشن فورس کہاں گئی؟ اور 26 انٹیلی جنس ایجنسیاں کِس مرض کی دوا ہیں؟۔ چوہدری صاحب کا بھی گھڑا گھڑایا جواب کہ سابقہ ادوار میں اِس سے بھی زیادہ خوفناک سانحے ہوتے رہے ہیں لیکن وہ ایک لفظ نہیں بولے اور اب بھی اُنہوں نے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ہونے والے سانحات پر صوبائی حکومتوں پر تنقید نہیں کی۔گویا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب اُنہوں نے تنقید نہیں کی تو اُن پر نَشترزنی کیوں ؟۔

Bomb Blast

Bomb Blast

اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حکومت دہشت گردوں کا آخری سانس تک تعاقب جاری رکھے گی اور پوری قوم بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کے سامنے سینہ سَپر رہے گی۔ عرض ہے کہ قوم تو عشروں سے دہشت گردوں کے خلاف سینہ سپر ہے ہی، یہی وجہ ہے کہ بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے باوجود قوم کے معمولاتِ زندگی میں رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نہیں آیا۔ سب کچھ ویسا ہی ہے، وہی میلے ٹھیلے اور وہی شاہد آفریدی کے دو چھَکوں پر ساری رات ڈھول ڈھمکے اور جشن لیکن حکمران ابھی تک گو مگو کی کیفیت سے باہر نہیں نکلے اور اب تو اپوزیشن کو بھی یہ کہنے کا موقع ہاتھ آ گیا ہے کہ حکمران بُزدلی دکھا رہے ہیں۔

اسلام آباد میں دہشت گردی کے خوفناک واقعے کے بعد ہمارے حکمران بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کہیں یہ سب کچھ طالبان کا ہی تو کیا دھرا نہیں؟۔اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ”احرار الہند” نامی گروہ بھی طالبان ہی کا حصّہ ہو ؟۔وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ اُنہیں طالبان کے اعلانِ لا تعلقی پر یقین نہیں اور یہ بات سو فیصدی تسلیم شُدہ ہے کہ اسلام آباد پر حملے کے حوالے سے طالبان کو علم ہو گا کہ یہ کِس گروہ نے کیا ہے کیونکہ اِن سب کا ”مین حَب” شمالی وزیرستان ہے۔ اِس لیے طالبان نہ صرف حملے کی مذمت کریں بلکہ اِس گروہ کی نشاندہی بھی کریں۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسے حملے بند نہیں ہوتے تو حکومت کے پاس آپریشن کا آپشن موجود ہے۔

چوہدری نثار احمد نے بھی پارلیمنٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے فرمایا ”طالبان کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات سے اعلانِ لاتعلقی کافی نہیں۔ اُنہیں ایسے لوگوں کی مذمت بھی کرنی ہو گی اور نشاندہی بھی ”۔جبکہ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے صاف کہہ دیا کہ پسِ پردہ ہاتھوں کو تلاش کرنا ہمارا کام نہیں اور اگر جنگ بندی کے اعلان کے دوران کوئی بھی پُر تشدد واقعہ رونما ہوا تو اُن کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہو گا ۔حکومتی وسوسوں (جنہیں وسوسے کہنا شاید اِس لیے مناسب نہ ہو گا کہ حکومتیں ہمیشہ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اطلاعات کی بنیاد پر ہی کوئی بیان جاری کرتی ہیں) اور طالبان کے کھَرے جواب نے مذاکرات کی کامیابی کو مشکوک بنا دیا ہے اور ایک دفعہ پھر یہ اندیشے سَر اُبھارنے لگے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ طالبان نے اپنی صفیں درست کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت حاصل کرنے کا ڈرامہ رچایا ہو۔

مجھے نواز لیگ سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ میں حاکمانِ وقت کی مدح سرائی کی لعنت میں گرفتار ہوں۔ میں نے تو ہمیشہ ”ہلکے پھُلکے” کالم لکھنے کو تر جیح دی ہے کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ اِس دَورِ ابتلاء میں اگر میرے کالم کسی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مُسکان کا سبب بھی بَن سکیں تو یہ عین عبادت ہو گی لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کَرب کی لہریں پورے وجود کا گھیراؤ کرکے سارامزاح ہوا میں اُڑا دیتی ہیں۔ سانحات اور بھی بہت سے گزرے لیکن ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اب نہ جانے کیوں مجھے خاک و خون میں لَت پَت فضہ نامی وہ تیئیس سالہ معصوم بچی گھیرے کھڑی ہے جو بیرونی ملک سے تازہ تازہ لاء کی ڈگری لے کر لوٹی اور اسلام آباد کجہری میں درندوں کی وحشت کا نشانہ بَن گئی ۔

احرار الہند نامی گروہ کے خون آشام وحشی درندے جو تحقیق کہ یزیدیت کے علمبردار ہیں، کِس نفاذِ شریعت کی بات کرتے ہیں ؟۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت میں تو صرف پیار ہی پیار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِل تو جانوروں اور پرندوں پر ظلم ہوتے دیکھ کر بھی تڑپ اُٹھتا تھا۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ لعین گروہ شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علمبردار ہے البتہ یہ ضرور کہ لازمۂ انسانیت سے تہی ابلیس مَردود کے یہ ساتھی انسانیت کے کھلے دشمن ہیں جن کو نیست و نابود کرنا اور ارضِ وطن کو اُن کے غلیظ وجود سے پاک کرنا ہر مسلمان کا فرضِ عین ہے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم سب سیاست تیاگ کر بِلا امتیاز دھرتی ماںکا حق ادا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔کہے دیتی ہوں کہ وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں جو قومی سلامتی کے معاملات پر بھی سَر جوڑ کر نہیں بیٹھتیں۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر۔۔۔۔قلم درازیاں