یقین ااَب حکومت کی پریشانی اور اُلجھن میں قدرے کمی آگئی ہو گی۔ کیوں کہ آج دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو گیا ہے۔ ایسا اِس لئے ہواہے کہ پچھلے دِنوں ن لیگ اور پی پی پی کی اعلیٰ قیادت نے کھلم کھلا اپنی سیاسی بصیرت اور آگاہی کی بالغانہ حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ جمعیت علما ءاسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے 27 اکتوبر سے شروع ہونے والے حکومت مخالف آزادی مارچ سے نومبر یا بعد کے مہینے تک باضابطہ طور پر علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے۔جس سے پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا سیاسی شعور واضح ہوگیاہے اور عوام الناس میں اِن کا زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت اچھا امیج گیاہے۔جبکہ اِس پس منظر میں اہلیانِ دانش کا قوی خیال یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص ن لیگ اور پی پی پی کا رواں سال کسی بھی ایسے( بڑے یا چھوٹے) حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں یا تحاریک کا فائدہ صریحاََ حکومت ہوگا ۔کیوں کہ اِن دِنوں ایک طرف بھارت کا جنگی جنون اورمقبوضہ کشمیر کا مسئلہ گرم ہے۔
اِس صُورتِ حال میں مُلک کی اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کا ساتھ دینا چاہئے اوراپنے تمام ذاتی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کے شابہ بشانہ کھڑے ہوکر ایک پیچ پر آچاہئے اور حکومت کے بازومضبوط کرنے چاہئے۔ اِس لئے مُلک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی نے آزادی مارچ نومبر یااگلے مہینے تک موخر کر نے کی درخواست کی اور اپنی پوری کوشش کی کہ کسی بھی طرح سے مولانا مان جا ئیں۔ اورکسی بھی طرح آزادی مارچ اگلے سال تک ملتوی کردیں۔ مگر مولانا ہیں کہ جیسے اِن پر ضد سوار ہے۔ یا اِن کے دل و دماغ میں حکومت مخالف فوبیا گھر کرچکا ہے ۔یہ ایک پل بھی حکومت کو برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ اِس لئے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے ہاتھوں مجبور ہوکر اکیلے ہی مولانا فضل الرحمان 27اکتوبر کو اپنے حکومت مخالف بغض اور کینہ کے ساتھ آزادی مارچ کرنے کی تیاریوں میں مگن ہیں ۔یہاں عوام بس اِتنا ذہن میں رکھے کہ جب 27اکتوبر کو دُھوپ میں دینِ اسلام کا لبادہ اُڑھ کر سیاسی بہروپ عوام کے دوست بن کرنکلیں ،تو عوام اِن کے پیچھے چاندی یا سونا سمجھ کر نہ ہولے ۔کیوں کہ یہ وہ بہروپئے ہیں ۔جن کو صرف اپنا ذاتی اور سیاسی مفاد عزیز ہے۔ کسی بھی آزادی مارچ کے پیچھے خواہ کوئی بھی ہو سب کا مقصد عوام کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر اپنا الوسیدھا کرنا ہوتاہے بھلے سے عوام مریں تو مریں ،مگر مُلک میں انارگی پھیلا کر اِن کا مقصد حاصل ہوجائے۔
حالا ں کہ اِس سے بھی اِنکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ مولانا کے سیاسی اور ذاتی مفادات میں رنگا آزادی مارچ سوفیصد ناکامی سے دوچار ہوجائے گا ۔کیوں کہ مولانا کی سیاسی بصیرت اور آگاہی ن لیگ اور پی پی پی کی اعلی ٰ قیادت کے سیاسی معیار اور اپروچ کے مقابلے میں اتناقابل تحسین و پائیدار نہیں ہے۔ جتنا کہ مولانا اپنی خودی میں گھم رہتے ہیں۔یا لوگ اِنہیں چڑھا دیتے ہیں۔ سو یقین نہیں آتاہے۔ تو دیکھ لیں ۔بہت جلدخود لگ پتہ جائے گا کس کے سر پر کتنے بال ہیں ۔بس تھوڑا سا انتظار کیجئے۔سب کا سب کچھ کیا دھراسب کے سامنے آجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی مارچ سے ن لیگ اور پی پی پی کے علیحدہ ہوجانے سے لامحالہ مولانا فضل الرحمان اکیلے رہ گئے ہیں اوراِن کا احتجاج بے اثر اور خالی ڈھول ثابت ہوگا ۔جِسے بے سُرے ڈھول کو مولانا نے پیٹ پیٹ کر بجایاتو بہت مگرپھر بھی ساری محنت بے کارجائے گی۔تاہم بقول مولانا فضل الرحمان ہم اکیلے پندرہ لاکھ کا اجتماع آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد لاگ ڈاون کرنے کے لئے نکلیں گے۔“ اِس موقع پر کچھ دیر کے لئے سوچ لیں کہ مولانا جس مارچ اور دھرنے کو پُرامن قرار دے کر اسلام آباد میں دیر تک بیٹھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس میں پورے مُلک سے لوگ شامل ہوں گے۔ بھلا یہ پُرامن کیسے رہ سکتاہے؟
آج جیسا کہ محترم المقام عزت مآب حضرت قبلہ وکعبہ مولانا فضل الرحمان دعویٰ کررہے ہیں کہ اِن کا 27 اکتوبر کو اسلام آباد کی جانب شروع ہونے والا آزادی مارچ،جو حکومت کو گھر بھیجنے اور مہنگائی سے پریشان حال عوام کو حکومت سے نجات دلانے کے لئے ہے۔ یہ حکومت مخالف آزادی مارچ انتہائی پُرامن اور حکومت سے آزادی کے لئے ہوگا۔(تو کیا آنکھ بند کرکے یقین کرلیا جائے کہ اِن کے آزادی مارچ کے شرکا ءہاتھوں میں تسبیح اور مقدس کتب لئے ہوئے ہوں گے؟حسبِ روایت مولانا کے مدرسے کے بچوں اور سیدھے سادھے مولویوں پر مشتمل آزادی مارچ کے شرکا ءکے ہاتھ میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے لئے ڈنڈے نہیںلئے ہوں گے..!! ایسا تو ہو ہی نہیں سکتاہے مولانا کے حکم پر نکلنے والے احتجاجی مارچ کے شرکاءلاٹھی ، ڈنڈوں ، پتھروں اور آتشین اسلحہ سے پاک ہوں) مولانا اِس کی ضمانت لیں کہ اِن کے آزادی مارچ میں شامل افراد واقعی پُرامن اور پُرتشددکارروائیوں کے پاک جذبے سے سرشار ہوکرنہیں بلکہ اِنسان کے روپ میں فرشتے بن کا حکومت مخالف آزادی مارچ کو کامیاب بنا کرواپس لوٹیں گے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔
اگر سب کچھ اِس کے برعکس ہوگیاجیسا کہ ایسے موقع پر عموماََ ہوتا ہے۔ تو پھر یقینی طور پر جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ حکومت کے تابوت میں کیل ٹھونکنے کے بجائے اُلٹا اپنے ہی سیاسی کیرئیر اور اپنی سیاست کے تابوت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خود اپنے ہی ہاتھوں آخری کیل ٹھونک دیں گے، اور پھر اِدھر اُدھر بغلیں جھانکتے پھریں گے۔ اِس طرح اکیلے مولانا فضل الرحمان کا اپنی ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے نکالا جانے والا نام نہادآزادی مارچ مُلکی تاریخ میں ایک نئے سیاہ باب کا اضافہ کرجائے گا کہ جس میں جلی حروف سے لکھا ہوا ہوگا کہ”ایک زمانے میں ایک مولاناصاحب نے اپنی ذات اور سیاست چمکانے کے لئے برسراقتداروزیراعظم عمران خان کی حکومت سے چھٹکارہ پانے کے لئے دینِ اسلام کے نام پر پندرہ لاکھ افراد پرآزادی مارچ کا لیبل لگاکرعوام کو اسلام آباد لاگ ڈاون کرنے کے لئے ہانکا، کُھدیڑا(عوام کو نکالا اور اسلام آباد کی شاہراہوں پر بھاگایا)مگر پھر بھی اُنہیں اِس میں ناکامی ہوئی اور وہ سُبکی سے دوچار ہوئے۔ یوں اُنہوں نے اپنا جیسا تیسا بنابنایاسیاسی قد خود ہی زمین بوس کردیا۔ جس کا کریڈٹ حکومت کوگیااور اکیلے اسلام آباد لاگ ڈاون کرنے والے کے ہاتھ کچھ نہیں آیا“۔
لہذاوقت اور حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان بھی ن لیگ اور پی پی پی کی اعلی قیادت کی طرح اپنی اعلیٰ سیاسی بصیرت اور آگاہی کا ثبوت دیں۔ اور یہ آزادی مارچ کے چکر سے فی الحال باہر نکلیں، اور سارے اختلافات کو بھلا کر مقبوضہ کشمیرکے مسئلے کے حل اور بھارت کی خطے میں بدمعاشی اور چوہدراہٹ کے خاتمے کے لئے حکومت کا ساتھ دیں ۔اِسی میں سب کی بھلائی ہے۔ ورنہ حکومت مخالف تحاریک اور احتجاج کرنے والوں سے حکومت آئین اور قانون کے مطابق پوری قوت سے نمٹنے کا حق تو رکھتی ہی ہے۔ مگر پھر بھی کوئی باز نہ آیا۔تو پھر حکومت قومی لٹیروں اور کرپٹ عناصر سمیت اپنے ہر قسم کے مخالفین کو زمین سے دوہاتھ اُونچا اُٹھاکر ڈھائی ہاتھ نیچے کرنے سے متعلق بھی سوچنے پر مجبور ہو جائے گی۔ (ختم شُد)