اسلام آباد (جیوڈیسک) صدر مملکت ممنون حسین کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ جمہوریت کشیدگی اور محاذ آرائی کا نام نہیں بلکہ تحمل، بُردباری اور برداشت کا نام ہے۔
جمہوریت کو وطن عزیز میں نئی جہت ملی ہے۔ جمہوریت کے فروغ اور تسلسل میں پارلیمنٹ کا اہم کردار ہے۔ قوم کو پارلیمنٹ سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار بھی کلیدی ہوتا ہے۔ اپوزیشن نے ہر معاملے پر حکومت کی رہنمائی کی ہے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی حوصلہ افزاء ہے۔
ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر اقتصادی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کا ہماری اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد ہماری کامیابیوں کا مظہر ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ حکومت درست سمت کی طرف گامزن ہے۔
ہمارے اقتصادی اشاریے مضبوط ہو رہے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کیلئے منصوبوں پر کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور معاشی استحکام کے بغیر پاکستان میں ترقی ممکن نہیں ہے۔ ترقی کیلئے دہشتگردی، فرقہ واریت اور لسانیت کو مل کر ختم کرنا ہوگا۔
صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ کوئی کام راتوں رات اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ کامیابی خود بخود جھولی میں آکر نہیں گرتی۔ ہمیں شانے سے شانہ ملا کر ہمیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے باہمی احترام کا رشتہ چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کے دورہ بھارت کو پوری دنیا میں تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔
واضع رہے کہ آئین کی دفعہ 56 تین کے تحت صدر مملکت ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں اور پالیسی گائیڈ لائن دیتے ہیں۔ صدر مملکت ممنون حسین کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے یہ پہلا خطاب تھا۔ جس سے موجودہ قومی اسمبلی کے دوسرے پارلیمانی سال کا آغاز ہو گیا ہے۔
پارلمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ، سپیکرز، گورنرز، چاروں وزرائے اعلیٰ، آزاد جموں وکشمیر کے صدر اور وزیراعظم، تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور سفارتکاروں نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم کی سینیٹ سے غیر حاضری پر اپوزیشن نے صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔