تحریر : عبدالرزاق بعض اوقات انسان کے دماغ میں کوئی الجھن یوں ڈیرہ جما کے بیٹھ جاتی ہے کہ بصیرت کی تمام کھڑکیاں اور دروازے وا کرنے پر بھی اس گتھی کا سلجھنا محال دکھائی دیتا ہے ۔میرے ذہن میں بھی اسی قسم کے اک پیچیدہ سوال نے ایسا بسیرا کیا کہ اک مدت تک اس سوال کا مناسب جواب سجھائی نہ دیا۔لیکن پھر اچانک پے در پے چند ایسے واقعات دیکھنے کو ملے جس کے نتیجے میں سوچ نے کچھ یوں اڑان بھری کہ برس ہا برس سے ذہن میں راسخ پیچیدہ سوال کا کسی حد تک منطقی جواب مل گیا۔سوال کی نوعیت کچھ یوں تھی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے تعلقات پاک فوج کے ساتھ اپنے اقتدار کے تینوں ادوار میں سرد مہری کا شکار رہے حتیٰ کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل جو خود ان کی چوائس تھے ان سے بھی میاں صاحب خوشگوار اور مثالی تعلقات استوار کرنے میں ناکام رہے اور ان دنوں حکومت اور آرمی کے ایک پیج پر نہ ہونے کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں جبکہ گاہے گاہے حکومتی وزرا کی جانب سے اشاروں کنایوں میں پاک فوج پر تنقیدی جملے اس تاثر کو مذید تقویت بخش رہے ہیں ۔پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف جو بلامبالغہ ملکی تاریخ کے سب سے پاپولر آرمی چیف ہیں اور حقیقی معنوں میں ایک فرض شناس ،نڈر اور ذہین سپہ سالار ہیں ۔
ان کا دامن ہر قسم کی قباحت سے پاک ہے اور نہ ہی وہ اپنا کوئی سیاسی ایجنڈا رکھتے ہیں اس تناظر میں حکومت کا ایسے کمانڈر کی سربراہی میں بھی فوج سے مثالی تعلقات کا نہ ہونا کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے ۔پے در پے میاں نواز شریف کا قابل ذکر اور اہم ملکوں کے سربراہان کے سنگ گھریلو خوشیاں اکھٹے منانا ایسے واقعات تھے جن کی روشنی میں مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ آخر میاں نواز شریف اور پاک فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی سرد مہری کی وجوہات کیا ہیں اور ماضی میں بھی میاں صاحب کے تعلقات فوج سے کشیدہ کیوں رہے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف جو تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں جب بھی بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ غیر ملکی سربراہان مملکت سے ذاتی تعلقات استوار کیے جائیں اور وہ اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ۔غور طلب بات یہ ہے کہ جب کوئی سربراہ مملکت ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کی آبیاری میں مگن ہو جائے اور وہ خواہاں ہو کہ وہ اہم ممالک کے حکمرانوں سے ذاتی دوستی کی پینگ چڑھائے تو ملکی مفادات کو کہیں نہ کہیں ضرب لگنے کا خدشہ بہرحال موجود رہتا ہے ۔میاں صاحب اور واجپائی کی دوستی کا چرچا بھی خوب ہوا۔
Musharraf
دنیا بھر کے تجزیہ نگار ششدر رہ گئے کہ ایک کٹر ہندو جو پاک دشمنی میں کسی حد کو بھی چھونے کو تیار تھا میاں صاحب کی دوستی کا دم بھرنے لگا قطعی حیران کن امر تھا۔واجپائی نواز دوستی کی یہ کہانی بھی محض ذاتی تعلقات کی گرم جوشی تک محدود تھی جبکہ ریاستیں تب بھی ایک دوسرے کی دشمن تھیں اور یہ سلسلہ ہنوز قائم ہے ۔واجپائی نواز دوستی کا سلسلہ تب دم توڑ گیا جب فوج اور میاں صاحب کے درمیان تناو اور غلط فہمیوں نے جنم لیا اور میاں صاحب کے اقتدار کو نقب لگ گئی اور نتیجے کے طور پر اقتدار کی بھاگ ڈور مشرف کے ہاتھوں میں چلی گئی جسے فوج کی مکمل حمایت میسر تھی اور یوں دوستی کی یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے
میاں صاحب نے دوستی کے اس دور کو فراموش نہ کیا بلکہ جونہی وہ دوبارہ اقتدار کی مسند پر متمکن ہوے تو واجپائی کے عکس نریندر مودی سے دوستی کا سلسلہ وہیں سے جوڑ لیا جہاں سے یہ سلسلہ منقطع ہوا تھا۔میاں صاحب نے نریندر مودی سے دوستی کو اس قدر اہمیت دی کہ ملک کے اہم ترین شہروں سے پاک دشمن سرگرمیوں میں ملوث بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں کی دھڑ ادھڑ گرفتاری اور بھارتی لابی کی جانب سے امریکی ایف سولہ طیاروں کی پاکستان کو فراہمی پر کھلم کھلا مخالفت کے ثبوت ملنے پر بھی میاں صاحب نے لب کشائی سے پرہیز کیا ۔
ان حالات میں میاں صاحب تو مصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموش رہے لیکن پاک فوج جو پاکستان کے تحفظ کی ذمہ دار ہے اور ان گنت قربانیاں اس کے گلے کا ہار اور ماتھے کا جھومر ہیں وہ کس طرح آنکھیں بند کر کے ملک دشمن عناصر کی مذموم کاروائیوں کو برداشت کر سکتی تھی ۔فوج بغور جائزہ لے رہی تھی کہ میاں صاحب سے بظاہر دوستی کا دم بھرنے والا نریندر مودی منہ سے رام رام اور بغل میں چھری دبائے ملک ملک گھوم رہا ہے اور ہر دستیاب عالمی فورم پر پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور ایف سولہ طیاروں کی فراہمی پر بھی اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔لہٰذا ان حالات کے تناظر میں فوج حکومت وقت سے توقع رکھتی تھی کہ وہ بھارت کو محبت بھری آنکھ سے نہ دیکھے بلکہ اسے باور کروائے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا لیکن میاں صاحب کی خاموشی پر فوج کی صفوں میں تشویش کا جنم لینا فطری عمل ہے ۔
SHARIF BROTHERS
علاوہ ازیں میاں صاحبان کے چائنا ،امریکہ،برطانیہ،سعودیہ اور ترکی کے دوروں کو بھی بصیرت بھری اور تجزیاتی نگاہ سے دیکھاجائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بیشتر دوروں پر میاں صاحب نے اپنے خاندان کے افراد کو ہمراہ رکھا جس سے قوم میں یہ تاثر واضح طور پر دیکھنے کو ملا کہ میاں صاحب ذاتی تعلقات کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں۔میاں صاحب کے سعودی عرب سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے یہ راز کوئی ڈھکا چھپا نہیں عام و خواص کی نگاہوں کے سامنے عیاں ہے حتیٰ کہ پاناما لیکس کا شور برپا ہونے پر اور میاں صاحب کے بچوں کا نام آف شور کمپنیز کے حوالے سے منظر عام پر آنے کے بعد میاں صاحب کی جانب سے یہ موقف بھی سامنے آ رہا ہے
ناگفتہ بہ معاشی حالات میں کسی سعودی فرماں روا نے انہیں رقم فراہم کی تھی یا قرض کے حصول میں معاونت کی تھی ۔اگر میاں صاحب کا مذکورہ موقف درست تسلیم کر لیا جائے توذاتی تعلقات کے حوالے سے یہ ایک عظیم مثال ہے۔اس کے علاوہ بھی میاں صاحب کی ذاتی تعلقات کے حوالے سے چند مذید مثالیں پیش خدمت ہیں۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی میاں صاحب کی نواسی کی شادی پر رائے ونڈ آمد اور ترکی کے اہم رہنما طیب اردگان کی بیٹی کے نکاح کے موقع پر نواز شریف کا بطور گواہ بننا اعلیٰ درجہ کے تعلقات کا غماز ہے ۔یاد رہے جب حکمران ملکی مفادات کی طرف پیٹھ کر کے ذاتی مفادات اور تعلقات کے گھوڑے پر سوار ہوں تو ایسی قوموں کی ہر میدان میں ترقی و خوشحالی اور خود کفالت اک خواب کا درجہ اختیار کر لیتی ہے ۔
یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اس سے اچھے تعلقات ناگزیر بھی ہیں لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ وہ پاکستان کے حالات خراب کرنے کا ذمہ دار بھی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ میاں صاحب کو کسی بھی سلطنت کے سربراہ سے ذاتی تعلقات استوار کرتے وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ان کے اس عمل سے پاکستان کی سلامتی اور پاک فوج کے کردار پر کوئی آنچ نہ آئے ۔ ہندوستان میں یہ تاثر عام ہے کہ نواز شریف تو ہندوستان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن پاک فوج ان کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے عملی طور پر سنجیدہ کوشش کریں تا کہ ہندوستانی میڈیا یہ بات اچھال نہ سکے کہ فوج اور نواز حکومت ایک پیج پر نہیں ہے ۔