تحریر: میر افسر امان کالمسٹ محمد بن قاسم سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک مسلمانوں نے برصغیر پر ہزار سال تک حکومت کی۔ برصغیر کے کونے کونے میں مسلمان حکمرانوں کی حکومت کے نشانات پائے جاتے ہیں۔ اس میں سب سے نمائیں وہ دفاعی قلعے ہیں جو اب بھی اپنی شان و شوکت سے مسلمان حکمرانوں کی شاندار حکمرانی کی شہادت دے رہے ہیں۔ اب بھارت کے متعصب برہمن حکمرانوں کی خواہش ہے کہ وہ مسلمانوں پر ہزار سال حکومت کریں ۔اس کے لیے انہوں نے اپنی عوام کے سامنے اکھنڈ بھارت کا نظریہ پیش کیا ہے۔ یہ سبق وہ بڑے پیمانے پر بھارتی عوام میں پھیلاتے رہتے ہیں۔اپنی نصابی کتابوں میں بنگلہ دیش ،افغانستان ،پاکستان اور اردگرد کے ممالک کو اکھنڈ بھارت کے نقشے میں شامل کر کے اپنے بچوں کو سبق پڑھا رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی شاید یاد نہیں رہا کہ تجارت کے مکر سے برصغیر پرقبضہ کرنے والے انگریز بھی صرف ڈیڑھ سو سال حکومت کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور ان کی حکومت میں نہ ڈوبنے والے سورج کا پروپگنڈا کرنے والے انگریزواپس اپنے مسکن میں جا پہنچے جہاں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا اکثر بادل ہی رہتے ہیں۔
تاریخی طور پر برصغیر پر مسلمان حکمرانوں کو برتری حاصل رہی ہے۔ اللہ اللہ کر کے برصغیر آزاد ہوا۔ اگر بھارت کی آزادی کے پچھلے ٦٨ سال کا جائزہ لیا جائے تو ایک عبرت ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعدبھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ بھارت کے برہمن حکمرانوں اور عام ہندوئوں کے رویہ پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تاریخی عوامل ہیں۔ پہلی بات کہ اسلام ایک تازہ اور ہر دم تازہ رہنے والا دین ہے۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان صرف اللہ کی وحدانیت اور رسول ۖ کی رسالت کااقرار کر کے مسلمانوں کے دین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ اسلام میں صدقِ دل سے داخل ہونے والا انسان پاک اور صاف ہو جاتا ہے اُس کے سارے پرانے گناہ اللہ معاف کر دیتا ہے۔ اُس کے حقوق مسلمان کے برابر ہو جاتے ہیں۔ آئندہ زندگی اُسے اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنی ہوتی ہے اس حقانیت کو سمجھتے ہوئے بھارت کی کئی قومیں خاص کر اچھوت قوم کے ہندو مسلمان ہوئے ان میں سے کچھ پروفیسر بنے، مدینہ یونیورسٹی اور دنیا کی مسلم یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔
اسلام میں مذہبی آزادی، انسانوں کے حقوق ،ایک دوسرے کے حقوق، ماں باپ کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق حتہ کہ جانوروں تک کے حقوق تک کی تلقین کی جاتی ہے جبکہ ایسی واضع ہدایت کسی اور مذہب، خاص کر ہندو مذہب میں نہیں ہیں۔ آزادی کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لیے ان کے دل جیتنے تھے۔ ان کو مذہبی آزادی دینا تھی جبکہ گائے کے گوشت کا مسئلہ پیدا کر کے مسلمانوں کو بھارت میں جگہ جگہ قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے شراب اسلام میں حرام ہے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہے۔ کیا پاکستان میں شراب پینے والے ہندوئوں کو قتل کیا جاتا ہے؟ بھارت کے حکمران کو مسلمانوں سے پیار کرنا تھا۔ ان کو حکومت کے اندر آئینی طور پر مقرر کردہ کوٹہ کے مطابق نوکریاں دینی تھیں۔ جب نوکریاں نہیں دیں جاتیں تو انہوں نے کاروبار شروع کیا جب کاروبار میں کامیاب ہوئے تو ذبردستی بلوے کرا کر ان کے کاروبار نذر آتش کر دیا گئے۔ ان کی امیددوں کے باغ پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔
Kashmir
تقسیم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مسلم اکثریت کی ریاست کشمیر پر جبری قبضہ کرنے کے بجائے اس کو پاکستان میں شامل ہونے کی آزادی دی جانی چاہیے تھی مگر بڑے دل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور انہیں جبر سے آٹھ لاکھ فوج رکھ کر غلام بنا لیا گیا ہے۔بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کا رویہ رکھا گیا انہیں تکلیفیں دے دے کر کہا گیا پاکستان چلے جائو۔ جبکہ مسلمان کہتے ہیں کیوں پاکستان چلے جائیں یہ ہمارا اپنا ملک ہے ہم یہاں ہزار سال سے رہ رہے ہیں ۔ اس رویہ کی وجہ سے بھارت کے مسلمان اب سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ وہ بھارت میں دلتوں کو ملا کر ایک اور پاکستان کا مطالبہ کیوں نہ کریں۔ نظر آ رہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور نیچی ذات کی قوموں پر ظلم کی وجہ سے ایک اور پاکستان بن کے ہی رہے گا جس میں بھارت کی نیچی قوموں کے لوگ شامل ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں کہ حکومتیں کرنے والے حکمرانوں کے دل بڑے ہونے چاہییں۔
ان کی سوچ میں وسعت ہو۔ وہ عوام کے دکھ دردمیں شامل ہوں۔ وہ ظالم نہ ہوں۔ عوام کے جائزحقوق ادا کرنے والے ہوں ۔ حکومت کے اکثریتی عوام اقلیتی لوگوں سے محبت کرنے والے ہوںتو پھر کہا جاسکتا ہے کہ حکمران عوام پر دیر تک حکومت کر سکتے ہیں۔ برصغیر میں حکومت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کے متعلق اگر دیکھا جائے کہ ان کی عام عوام کے ساتھ کیا رویہ تھا تو سب سے پہلے حکمران محمد بن قاسم کو دیکھتے ہیں سندھ میں اب بھی لاکھوں لوگ اپنے بچوں کے نام قاسم کے نام پر رکھتے ہیں۔محمد بن قاسم کی نرم مزاجی کے متعلق ڈاکڑ ممتاز حسین پٹھان لکھتے ہیں ”رواداری کسی بھی فاتح کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے اس کے باوجود کہ وہ مخالف کو دبانے کی صلا حیت رکھتا ہو محمد بن قاسم نے سندھ کے باشندوں کے لیے مہربانی اور رواداری کا طریقہ اختیار کیا۔”
اکبر بادشاہ نے تو بیربل کو اپنا مشیر بنایاتھا اور رعایا کے ساتھ اتنا مل گیا تھا کہ اپنا مذہب بدل کر دین اکبری بنا کر ڈالا جس میں ہندوانہ رسمیں شامل تھیں۔جہانگیر بادشاہ نے محل کے باہر ایک گھنٹی لگا رکھی تھی کہ جس کو بھی تکلیف ہو وہ گھنٹی بجا کر بادشاہ کو اطلاع دے سکتا ہے تاکہ اس کی فریاد سن کر اسے انصاف دیا جائے ۔ موجودہ وزیر اعظم ہند انصاف کیا دے گا الٹا تو اپنی مسلمان رعایا کو اپنی پولیس کے ذریعے قتل کرواتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر جس نے ہندوستان پر پچاس سال حکومت کی عوام کے پیسے کو اڑاتا نہیں تھا بلکہ ٹوپیاں سی کر فروخت کرتا تھا اور اپنا خرچہ چلاتا تھا۔ برصغیر کے درویش مشن بزرگوں نے چپہ چپہ میں محبت اور شانتی کا درس دیا جس سے کروڑوں ہندو مسلمان ہوئے آج بھی پاکستان کے ہنددئوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ وہ فلاں درگا ہ کے مرید ہیں۔
India
کیا اب بھارت کے مذہبی پیشوا مسلمانوں سے ایسا محبت والا رویہ رکھتے ہیں یا منہ پر رام رام اور بغل میں چھری والا رویہ ہے؟ تاریخی بابری مسجد کو گرا دیا اس کے علاوہ ہزاروں مسجدوں کو گرا دیا گیا۔ بھارت کے سیاستدان پاکستان سے بات چیت کرنے کے روا دار نہیں پاکستان کے نمائندے کو واپس کر دیتے ہیں۔ اپنی رعایا دلتوں کو کتے سے تشبی دیتے ہیں۔ بھارت پاکستان کے کھیلوں کے سربراہ کو احتجاج کر کے واپس بھیج دیتا ہے بھارت کے غزل گلوکار جگجیت سنگھ کہتے ہیں میں تو پاکستان جا کر غزل نہیں گاتا غلام علی کیوں بھاگے بھاگے بھارت آتے ہیں۔قصوری کی کتاب کی رونمائی کے موقعے پر اپنے ہی ملک کے کلکرنی کے منہ پر سیاہی مل دیتے ہیں۔
ہندو دیودادہنی” کے صوبائی صدر سنیل سنگھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دہشت گردی کی نرسی قرار دے دیا ہے اور کہا کہ دہشت گردوں کو پاکستان جانا ہو گا یا اُنہیں قبرستان میں دفنا ناہو گا۔ہزار سال تک مسلمانوں پر حکومت کی خواہش رکھنے والے برہمن ہندو حکمرانوں کا مسلمانوں اوراچھوت قوموں سے رویہ پر غور کریں تو لگتا ہے بھارت میں مسلمان اور نیچی ذات کی قومیں مل کر ایک اور پاکستان بنانے کی طرف دکھیل دی گئیں ہیں جہاں امن و سکون سے رہ سکیں۔ بھارت میں ٢٧ علیحدگی کی تحریکیںچل رہی ہیں کہیںبھارت کے روس کی طرح کے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوجائیں۔مسلمانوں پر ہزار سال حکومت کرنے کی تو دور کی بات ہے۔ہم نے آپ پر ہزار حکومت کی آپ شاید سو سال بھی پورے نہ کر سکیں گے۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسر امان کالمسٹ کنوینر کالمسٹ کونسل آپ پاکستان اسلام آباد سی سی پی