تحریر: محمداعظم عظیم اعظم آج اگرایک لمحے کو سوچا جائے تو یہ میرے مُلک کے سابقہ ا ور موجود ہ سِول اور آمر حکمرانوں کی ہی کارستانیاں ہیں کہ جن کے قرض لے کر مُلک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے دعوو ¿ں کی وجہ سے میرے دیس پاکستان کا ہر خاص و عام شہری ایک لاکھ پندرہ ہزار کا مقروض ہے یعنی یہ کہ آج میرے دیس کے 19اور20 کروڑ عوام اور آئندہ میرے مُلک میں جو بھی بچہ پیداہوگاوہ اپنے کاندھوں پر 1,15000/= کے قرضے کا بوجھ اُٹھائے دنیامیں آئے گا یہ قرض کی وہ ابتدائیہ رقم ہے جو گزشتہ 68سالوں کے دوران ہمارے سابقہ و موجودہ سول اور آمرحکمرانوں نے زبردستی مملکتِ خداداد پاکستان کے ہرشہری اور سرزمینِ پاک میں پیداہونے والے ہر معصوم بچے پر لاددی ہے اَب اِس طرح یہ بچہ اُس وقت تک اِس قرض کے بوجھ تلے دبارہے گا جب تک حکمران خود سے یہ قرض اُتار نہ چاہیں مگر چونکہ آج ہمارے موجودہ حکمران جس تیزی سے آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر مُلک اور قوم کو قرضوں کے پہاڑ تلے دبارہے ہیں اور مُلک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے دعوے کرتے نہیں تھک رہے ہیں اَب ایسے میں تو کم ازکم یہ ناممکن ہے کہ ہماراکوئی حکمران اِس بوجھ کو کم کرے اَب ایسے میں یقینی طور پر میری قوم کے ہر مقروض فرد کو تیار رہناچاہئے کہ قرض کے اِس بوجھ میں کمی کی کوئی اُمیدکہیں سے نظرنہیں آرہی ہے ہاں البتہ، اُلٹااِس میں اضافے اور قوم کو قروضوں کے مزیدبوجھ تلے دبائے جانے کے زیادہ امکانات روشن ہیں۔
موجودہ حکومت میں آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیئے جانے والے قرضوں کاتناسب حد سے اتنابڑھ چکاہے کہ اِس تناظر میں اِس سے انکار نہیں کہ مُلکِ پاکستان میں جتنے بھی جیسے تیسے سول اور آمر حکمران گزرے ہیںسب ہی نے مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے نام پر کسی نہ کسی طرح عالمی مالیاتی اداروں سے کئی گناسُودکی ادائیگیوں کے ساتھ کشکول و جھولیاں اور دامن اور چادریں پھیلاپھیلا کراپنے اللے تللے کے لئے قرضے لیئے اور قوم کو لاکھوں کا مقروض کرتے گئے ۔
Pakistan leaders
آج ایک عام آدمی جِسے روٹی کھانے اور اپنی روزمرہ کی ضروریات کو بھی پوراکرنااور بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگیاں کرنابھی مشکل ہوگیاہے وہ موجودہ حکمرانوں کی مُلک کو قرض لے کر چلانے اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے دعوو ¿ں اور حکمرانوں کی اِس حکمتِ عملی اور منصوبوں کو سمجھنے سے قاصر ہے اور وہ یہ سوچ سوچ کر پاگل ہورہاہے کہ جب حکمران آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں سے بے لگام اور بے تحاشہ قرضے لے رہے ہیں تو یہ سب کس کے لئے ہے ؟ یہ قرض کہاں لگ رہے ہیں؟ مُلک میں ترقی کہاں نظرآرہی ہے؟ قوم کے چہرے پر تو وہی اُداسی اور ویرانی ہے جو پہلے دن تھی ، آج بھی ایک عام غریب پاکستانی کے گھر کی دہلیز اور اِس کا آنگن تو خوشیوں سے محروم ہے ، مگر حکمران ہیں کہ وہ مُلک اور قوم کو ترقی اور خوشحالی کے نام پر قرضوں کے پہاڑتلے دبائے ہی چلے جارہے ہیں آخر حکمرانوں کا مُلک اور قوم کو ترقی و خوشحالی کے نام پر آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کا یہ گھناو ¿نا اور پریشان کُن عمل کہیں جاکر رکے گااور ختم بھی ہوگاکہ نہیں یا یہ سب کچھ یوں ہی چلتارہے گا؟؟ قوم کاہرفرد ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں اور اربوں کا مقروض ہوکرمرتارہے گا۔
اگرچہ گزشتہ دِنوں دبئی میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین سالہ توسیعی فنڈسہولت پروگرام کے تحت 10ویں معاشی جائزہ سے متعلق جو مذاکرات ہوئے تھے حکومتی حلقوں کے دعوو ¿ں کے مطابق وہ انتہائی خوش اسلوبی سے نہ صرف مکمل ہوئے بلکہ اِن کی توقعات سے بھی بڑھ کر انتہائی تُزک احتشام کے ساتھ کامیاب ہوئے تاہم حکومتی حلقوں نے آئی ایم ایف کی شرائط پر نئی اصطلاحات پورااُترنے کا دعویٰ بھی کیاہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہاہے کہ یہ دُبئی میں پاکستانی حکومت اورآئی ایم ایف کے درمیان کامیاب بات چیت کا ہی تو نتیجہ ہے کہ تُرنت آئی ایم ایف کے وفدنے 49کروڑ70لاکھ ڈالرکی دسویں قسط جاری کرنے کی سفارش کردی ہے اَب ایگزیکٹوبورڈ کی منظوری کے بعدیہ رقم پاکستان کو بہت جلدہی مل جائے گی، آج اِس طرح ایک طرف پہلے سے قرضوں کے بوجھ تلے دبی قوم کو مزیدمقروض بنادیاگیاہے تو دوسری طرف ہمارے انتہائی شارپ اور بزنس مائنڈوزیراعظم نوازشریف کا دوحامیں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران یہ دعویٰ ہے کہ ” ماضی کے حکمرانوں نے عوام کے ساتھ بہت ناانصافیاں کیں آج ہم اور ساری پاکستانی اُن کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں1999ءکے بعد مُلک کو پیچھے دھکیل دیاگیا“
Pakistan
اِسی کے ساتھ ہی وزیراعظم نوازشریف نے اپنے مخصوص انداز سے بڑے فخریہ لہجے کے ساتھ یہ بھی کہاکہ”پاکستان میں معاشی انقلاب برپاہوگا،بہت جلدایک نئے اور خوشحال پاکستان کی بنیادرکھیں گے،(اِس موقع پر قوم یہ سوال کرتی ہے کہ وزیراعظم محمدانوازشریف صاحب اَب آخرکب نئے اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھیں گے ؟؟68سالوں میں توکچھ نہیں ہوا؟؟اَب کیا ہوگا؟؟ بیچاری مختلف اقسام کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی رہنے کی وجہ سے پیداہونے والے مسائل اور بحرانوں سے پریشان حال پاکستانی قوم تو پچھلے 68سالوںسے اِسی نئے اور خوشحال پاکستان کی راہیں تک رہی ہے آج آپ جس کی بات کررہے ہیں پھر اگلے ہی لمحے قوم یہ سوچ کر خودکو مایوسیوں اور محرومیوں کے دلدل میںدھنسی ہوئی محسوس کرتی ہے کہ )بھلاکیاقرضوں کے بوجھ تلے دب کر بھی دنیامیں کسی مُلک اور قوم نے کبھی ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کیں ہیں وزیراعظم صاحب، آج آپ خودہی قوم کویہ بتا دیں کہ کیاوجہ ہے کہ مُلک میں اتنی تیزی سے توترقی اور خوشحالی نہیں ہورہی ہے جتنی تیزی سے قوم کو مقروض بنایاجارہاہے…؟؟
بہرکیف ،یہاں ایک نکتہ یہ بھی ہر خاص وعام پاکستانی کے ذہن میں ضرور جنم لے چکاہے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟؟ کہ آج ایک طرف توہمارے انتہائی شارپ بزنس مائنڈوزیراعظم نوازشریف پارلیمنٹ میں خطاب کرنے سے تو کنی کترانے ہیںمگر دنیابھر میں ایسے خطابات کرتے پھرتے ہیں کہ جیسے اِن کاخطاب( سِوائے اراکین پارلیمنٹ کے) ساری دنیاکے لوگ سُننے کے لئے بیتاب رہتے ہیں جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے موجودہ تیسرے دوراقتدارکے ڈھائی پونے تین سالوں میں شائد دوایک بار ہی پارلیمنٹ سے خطاب کیا ہے حالانکہ اِس دوران بہت سارے ایسے اندرونی اور بیرونی عالمی حالات اور واقعات رونماہوئے کہ اِنہیںپارلیمنٹ سے لازمی خطاب کرناچاہئے تھامگر پھر بھی وہ ایسانہ کرسکے اِنہیں جس کی قانون اجازت دیتاہے اُنہوں نے بہت سے مواقع پر سِوائے ایک ہلکاپھلکابیان جاری کرنے یا پھرچھوٹی موٹی کوئی پریس ریلیز جاری کرنے کے کچھ نہیں کیا۔
جبکہ وزیراعظم اِس سارے عرصے میں زیادہ تر بیرونِ ممالک کے دورے پر رہے اور وہاں پاکستانی کمیونٹی سے تو خوب لہک لہک کرخطابات کرتے رہے مگر افسوس کہ اِس سارے عرصے کے دوران وزیراعظم نوازشریف کو اپنی جس پارلیمنٹ سے خطاب کرناتھااُس کے درودیوار اور اراکین پارلیمنٹ کے کان بھی اپنے وزیراعظم نوازشریف کی زبان سے اداہونے والے پالیسی بیانات سُننے کو ترستے رہے ،آج قوم اپنے وزیراعظم نواز شریف سے یہ التماس ضرور کرتی ہے کہ اَب وزیراعظم قوم کو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کا سلسلہ بند کردیں اور زمینی حقائق اور موجودہ حالات اور واقعات کے پیشِ نظر اِن نازک لمحات میں اپنا زیادہ تر وقت مُلک میں گزاریں اور مُلک اور قوم کو ترپیش بحرانوں اور مسائل کے فوری حل کے لئے پارلیمنٹ میں آئیں اور اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ گھل مل کر مُلکی اور عوامی مسائل کاحل نکالیں تو وزیراعظم نوازشریف عوام پر اپنااعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ورنہ عوام کی نظرمیں وزیراعظم کی شخصیت اِن کے فرائضِ منصبی اور سیاسی کردار پر سوالیہ نشان ہی لگارہے گا اورجس کا عوامی ردِعمل 2018کے مُلک میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑاہولناک طریقے سے سامنے آگے گاتب یہ اور اِن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حالت آج کی پاکستان پیپلزپارٹی اور سابقہ صدرآصف علی زرداری سے کچھ مختلف نہیں ہوگی یعنی کہ سب گمنامی میںچلے جائیں گے توپھرسوچ لیں مُلک اور قوم کو قرض کے سہارے ہی چلاناہے یااپنے وسائل کا بھی استعمال کرکے اپنے مقروض مُلک اور قوم کو قرضوں سے نجات بھی دلانی ہے۔(ختم شُد)