مری حادثے پر سیاست نہ کی جائے۔۔۔ واقعی ۔۔بھول گئے کیا
کہ یہ کام بھی اسی ہنڈسم اچھی انگریزی بولنے والے صاحب نے ہی قوم کو سکھایا یے کہ جو بھی غلط کام ہوتا ہے وہ حکومت ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ آج لوگوں کو ورغلا ورغلا کر مری میں آو نظارے تمہارے منتظر ہیں ریکارڈ توڑ دوخزانہ بھر دو گے۔۔۔ کی میڈیا پر خبریں چلا چلا کر نااہل انتظامیہ اور انتظامات کی سچائی کیوں نہیں بتائی۔ کسی غیرت مند ملک کا حکمران ہوتا تو اپنی اس مجرمانہ غفلت پر خودکشی کر چکا ہوتا ۔
لیکن کہاں جناب یہ خوشی غیرت مند قوموں کے مقدر میں ہوتی ہے ۔
مطلب مٹی پاو لاشوں پر سیاست دھرنوں سے ملکی معیشت کی تباہی
خود کو صادق اور امین کہہ کر توہین رسول کرنا اور بھی بہت کچھ انہیں صاحب کی سوغاتیں ہیں ۔ انکے سکھائے ہوئے انکے آگے آئے تو یہ سیاست ہو گئی کل تک تو یہ انقلاب اور درس تبدیلی نہیں تھا 🤔 پچھلے دو سال لوگوں نے مری والوں کے رویے کے خلاف ایسا ہی احتجاج کر رکھا تھا جب خواتین کو وہاں ہراساں کیئے جانے اور لوگوں کی بدتمیزویوں کے واقعات عروج پر پہنچ گئے تھے۔
حکومت نے میڈیا پر جعلی ایفیشنسی کے ڈھول بجا بجا کر لوگوں کو پھر وہاں جانے پر اکسایا۔ کیونکہ اصل میں ڈاکو راج برائے ہوٹلز، ریسٹورنٹس ، ریسٹ ہاوسز کسی عام آدمی کے تو ہیں نہیں۔ یہ کرپشن کے گڑھ صاحب اختیار لوگوں کی ہی ملکیت ہیں اور اس کا خسارہ حکومت کو کیسے منظور ہوسکتا ہے؟ آخر کو فی کمرہ ڈھائی سو روپے کا ٹیکس جو قومی خزانے میں بھرا جاتا ہے۔ لیکن بوقت ضرورت ہزاروں روپے فی کمرہ 50 سے 70 ہزار روپے تک غلطی سے مری جیسے علاقے میں آنے والوں کی جیبوں سے نچوڑا جاتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری نااہل حکومتوں کو اور ہمیں اگلے حادثے کے انضرورت نہ پڑے کہ انفراسٹرکچر کی کیا ضرورت ہوتی ہے ؟ پلوں اور سڑکوں سے ترقی نہیں ہوتی؟ میٹرو کی کیا ضرورت ہے؟ اور عمارتیں گلیاں نالیاں، نالے، نکاسی کے انتظام، کوڑا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کی ضرورت آخر ہے ہی کیوں ؟ مری میں ہزاروں لوگوں کی اموات وہاں انہیں چیزوں کے نہ ہونے اور مقامی لوگوں کی بے حسی اور موقع پرستی کے سبب ہوئی ۔ جسے بیس بائیس اموات کہہ کر اپنے قومی جرم کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کیا ایک سے ڈیڑھ لاکھ گاڑہوں میں ایک ایک فرد سوار تھا؟
پاکستانی سیاحوں کی اکثریت مڈل کلاس طبقے سے ہوتی ہے جو یا تو دوست یا فیملی مل کر کرائے کی گاڑی یا کسی کی مانگی ہوئی ادھار کی گاڑی میں ایسی سیر کا بندوبست کرتے ہیں اور اکثر پانچ سیٹوں پر سات آٹھ لوگ بھی ٹھس ٹھس کر بیٹھتے ہیں۔
اس حساب سے ان گاڑیوں میں سوار افراد کی تعداد کتنے لاکھ ہوئی؟ پھر مری کے پیسے کے عاشق مہربان مقامیوں نے کیا ان لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں میں مفتے میں پناہ دیدی۔ ۔۔۔ مطلب ایسا نہیں ہوا تھا اسی لیئے مجبورا ان معصوم لوگوں ( جیب میں آنے جانے کے حساب کی گنتی کی رقم لیکر چلنے والوں) کو اپنی گاڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اور سادہ سی حساب سے ہی سمجھ میں آ جائے گا کہ اموات سینکڑوں اور ہزاروں میں ہوئی ہونگی۔ یہی گاڑیاں انکی ٹھنڈی قبریں بن گئیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اب جو کہتے ہیں کہ حکومت خطرے سے الرٹ کر رہی تھی تو ان تاریخوں کی ٹوئیٹس اور خبریں سن پڑھ لیجیئے جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ
حکومت الرٹ نہیں کر رہی تھی گاڑیاں گن گن کر بغلیں بجا رہی تھی۔ وہ کہانی کار نے خوب لکھا تھا کہ لفنگوں نے مشٹنڈے کے کہنے پر ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ دیئے تھے۔