تحریر : چوہدری غلام غوث معراج دین عرف ماجھا ایک کار پینٹر ہے اور حکومت کی مقرر کی گئی کم ازکم تنخواہ 14000 ہزار روپے ماہانہ وصول کرتا ہے کل میرے پاس آیا وہ بہت زیادہ خوش تھا خوشی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ آپ کو پتہ نہیں کہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بہترین وزیر خزانہ کا اعزاز دیا گیا ہے جو انہوں نے پاکستانیوں اور داتا گنج بخش علی ہجویری کے نام کر دیا ہے تب سے میں خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہا۔
ماجھا بولا کیا یہ اعزاز پاکستان کے لیے کم ہے جو داتا کی نگری کے عظیم سپوت نے اپنے نام کیا ہے کیا میں اس پر فخر محسوس نہ کروں میں شکرانے کے نوافل ادا نہ کروں قوموں کی تاریخ میں ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں جب انہیں اقوام عالم میںفخر سے سر اٹھا کر چلنے کا موقع ملتا ہے یہ کم ہے کہ اب ہم بھی اپنا سر فخر سے بلند کرکے سینہ تان کر اقوام عالم کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے قابل ہوگئے ہیں اس کے بعد اس نے عجیب سوال کر دیا کہ وزیر خزانہ کو یہ ایوارڈ کس نے دیا ہے ؟ میں گھبرا گیا کہ ماجھے کو کیسے بتائوں کہ عا لمی مالیاتی اداروں نے بہترین کارکردگی کی بنا پر رینکنگ کرکے یہ ایوارڈ دیا ہے ابھی میں بات کر ہی نہیں پا یا تھا کہ ما جھے نے جلدی سے دوسرا سوال داغ دیا کہ میں ان لوگوں سے مل سکتا ہوں جنہوں نے یہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے میں نے بات ٹالنے کے لیے کہا ماجھے تو ان سے کیوں ملے گا تیرا ان سے کہا واسطہ ماجھے نے سُرعت سے کہا بائو جی یہی تو بات ہے میں ان سے شرف ملاقات حاصل کرکے ان سے چند سوال پوچھنا چاہتا ہوں میں نے عرض کیا کہ پہلے تو یہ سوال مجھے بتا پھر میں تمہیں اگلی بات بتائوں گا۔
ماجھے نے ٹھنڈا سانس بھرا اور بولا سرکار میری تنخواہ 14000/- روپے ما ہا نہ ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ میں 14000/- ہزار روپے میں مکان کا کرایہ دوں، گھر کے لیے آٹا خریدوں، گھی، چینی اور سبزی کا بندوبست کروں بچوں کی سکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کی فیس دوں ، بیوی کے لیے دوائیں خریدوں، بجلی اور گیس کا بل ادا کروں مجھے بتائیے میں کیا کروں ابھی میں ماجھے کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے پر تول رہا تھا تو اس نے مزید سوالوں کی بوچھاڑ کردی کہنے لگا مجھے انتہائی ایمانداری سے بتائیں کہ وزیر خزانہ کے اقدامات سے خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
Unemployment
کیا غریب اپنے بچوں کی یونیورسٹیوں کی لاکھوں روپے فیس دینے کے قامل ہو گئے ہیں کیا پرائیویٹ اور گورنمنٹ سیکٹر میں ملازمتوں کے مواقع عام ہو گئے ہیں اور کیا بے روزگاری کا سیلاب تھم گیا ہے، کیا اس ملک کا تھانہ کلچر، پٹواری کلچر تبدیل ہو گیا ہے اور مظلوم کی دادرسی شروع ہو چکی ہے، کیا سستے اور فوری انصاف نے اپنی فراہمی شروع کردی ہے، کیا اس ملک سے قبضہ گروپ اور بھتہ مافیا کا صفایا کردیا گیا ہے، کیا غیر ملکی اعداد و شمار کو چھوڑ کر حقیقی معنوں میں ملکی سطح پر غربت میں کمی آگئی ہے، کیا ریاست کے ہر شہری تک روٹی ، کپڑا ، مکان بہم پہنچانے کی ذمہ داری مکمل ہے،کیا توانائی کا بحران حل کر لیا گیا ہے، کیا بیرونی قرضوں کو اُتار دیا گیا ہے۔ کیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے شکنجوں سے جان چُھڑا لی گئی ہے ،کیا امن و امان ہر حالت میں برقرار ہے، کیا کرپشن میں نمایاںکمی آگئی ہے اور کیا سرکاری ادروں میں اقرباپروری کو جڑ سے اُکھاڑ دیا گیا ہے۔ کیا ہم مُلکی مفادات کی پالیسیاں بنانے میں مکمل خودمختار ہو چکے ہیں۔
ماجھا مسلسل بولے جا رہا تھا میں نے کہا کہ ماجھے ذرا توقف کر لو توکہنے لگا کہ میں شاید خوشی سے مر نہ جاؤں مجھے سارے سوال مکمل کرنے دو مجھے خوف لاحق ہوا میں نے چُپ سادھ لی ماجھا گویا ہوا کیا وزیرِ خزانہ کے اقدامات سے ٹیکس چوری رُک گئی ہے اور کیا ٹیکس دہندگان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے میرے مُلک میں ٹیکس کلچر فروغ پا گیا ہے ، کیا میرے مُلک کے کسانوں نے احتجاج ختم کر دیا ہے،کیامیرے ملک کی زراعت خوشحال ہو گئی ہے۔
کیا حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کے افراد نے اپنے بچوں کو اپنے ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھانا شروع کر دیا ہے کیا ہمارے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کے لوگوں نے اپنا اور اپنے پیاروں کا علاج اپنے مُلک کے ہسپتالوں میں کروانا شروع کر دیا ہے، کیا اُنہوں نے اپنے اربوں، کھربوں ڈالر باہر کے ملکوں سے منگوا کر اپنے ملک میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ ماجھا رُکااور جذباتی انداز میں کہا کہ اگر ان سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو یقیناہمارے ملک کے دانشور وزیرِ خزانہ کی صلاحیتوں کا عالمی سطح پر اعتراف کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں اور میں اس کی بھر پور داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔مگر مجھے افسوس ہے کہ ترقی پذیردنیا کے قابل ترین وزیر خزانہ کے اس ایوارڈ کو بھی متنازع بنا دیا گیا ہے۔
Inflation
یہ بیچاری غربت ،بے روزگاری، تعلیم کا حصول، صحت کی سہولتیں ، مہنگائی میں کمی، کرپشن کا خاتمہ، انصاف کی فراہمی، شہریوں کے معیارِ زندگی کی بُلندی یہ ہمارے اندرونی معاملات ہیں جن میںکسی کو مداخلت کا اختیار نہیں ان میں ہم خودکفیل ہیں یہ جوں کے توں بھی رہیں تو ہمیں کوئی مائی کا لال نہیں پوچھ سکتا کیونکہ اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک ہم ہیں ماجھا خاموش ہو گیا میں نے اُس کی خاموشی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سوال کر دیا کہ کتنے مقروض ملک ہیں جن کے وزرائے خزانہ کو بہترین وزیرِ خزانہ ہونے کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔
میں نے کہا کہ ماجھے اگر تمہارے تمام سوالوں کا جواب نفی میں آ جائے تو پھر؟ اُس نے فوراً کہا تو پھر سمجھ لینا کہ ہمارے وزیرِ خزانہ کو اعزاز دینا عالمی اداروں کی سازش ہے جس کی بُو مجھے آ رہی ہے تاکہ اس قوم کو خوش فہمی میں مبتلا کر کے اس کے بچے بچے کے بال بال کو قرض میں جکڑ دیا جائے اور ان کی خودی یکسر ختم کر دی جائے۔ میں ماجھے کی فہم و فراست اور دوراندیشی پر انگشتِ بدنداں رہ گیا۔