تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 30،نومبر 2014، کے اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے جلسے اور گذشتہ ناکامیوں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ دھرنے یہ جلسے اور ان کے ساتھ ہر قسم کی بد اخلاقی اور بد زبانی کا کسی پر بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا ہے۔اور نہ ہی ان دھرنوں کے ثمرات عمران خان اور ان کی پارٹی کو ملے ہیں اور نہ ملنے کی امید کی جا سکتی ہے۔البتہ ملک و قوم معاشی طور پر خاصے پیچھے چلے گئے ہیں۔عمران خان صاحب کی اس خوش فہمی کے چرچے ایشیا کیا یورپ تک میں پھیل چکے ہیں۔عمران خان کو ایسی زبان بول بول کر تھکنے کے سوائے کیا حاصل ہوا ہے؟اور بد کلامی کی بد نامی الگ سر بندھی ہے۔اس صورت حال میں عمران خان خالی ہاتھ دکھائی دیتے ہیں۔کئی لوگ تو اس پرانے کھلاڑی کو سیاست دان ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔بعض لوگ انہیں نو مولود سیاست دان کہتے ہیں۔مگر آج لوگ ان کی اس بات کے بھی معترف ہیں کہ وہ چاہے جو زبان استعمال کر رہے ہوں اور جیسے سیاست دان ہوں، مگر یہ حقیقت ہے کہ سیاسی اشرافیہ کی بے ایمانیوں کا بار بار ذکر کر کے ان لوگوں کو اپنے رﺅیوں پر سوچنے پر تو مجبور ضرورکر دیا ہے۔
ان پر یہ الزام بھی عام ہے کہ وہ فوجی اشرافیہ سے کوئی نہ کوئی سمبند تو ضرور رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بار بار ایمپائر کی انگلی اُٹھنے کا وہ ورد بھی کرتے ہی رہتے ہیںاور اکثر ریٹا ئرڈ جنرلز ان کو مسلسل شہ بھی دے رہے ہیںآثار بتاتے ہیں کہ کئے تو اپنی نوکری کے دوران بھی عمران خان کے سیاسی گھوڑوں کی چارہ جوئی کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان اور الطاف حسین کی سوچ میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں ہے۔فرق ہے تو صرف یہ کہ الطاف حسین انہیں کھل کراقتدار پر قبضہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور عمران خان دبے لفظوں میں میں بار بار انہی کی دہائی دیتے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں عمران خان کی سودنوں کی جدوجہد کوئی خاطر خواہ رنگ نہیں لا سکی ہے۔مگر بعض سیاست دان نواز شریف کو خوفزدہ کرنے اور اپنی بات منوانے کی غرغ سے یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ ” نواز شریف مان جاﺅ ورنہ عمران آجائے گا“ جس کی وجہ سے بے چارے وزیر اعظم ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں نواز شریف کا پلہ ہلکا ہوا قائدِ حزب اختلاف بھی ا ن کو سبق پڑھانے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران کے آگے جھُک جانا چاہئے۔یہ بات ساری قوم کو پتہ ہے کہ ایک وقت وہ تھا جب عمران خان کو وزارت عظمیٰ ٹوکری میں پڑی ،ان کے مطابق ان کا انتظار کر رہی تھی۔مگر طاقت کے زعوم میں وہ کسی کو خاطر میں ہی نہیں لا رہے تھے۔مذاکرات کی میز کو لات مار کر وہ ریڈ زون کے علاقے میں داخل ہو گئے تھے اور چاہتے تھے کہ وزارت عظمیٰ غیر قانونی یتھکنڈوں سے حاصل کرلیں ۔مگر ایسا نہ ہوسکا اب یہ عالم ہے تو نہیں تیری آرزو ہی صحیح۔اب وہ کنیٹنر پر سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں ”نواز شریف آﺅ مذاکرات کرو، ہم مذکرات کےلئے بھی تیار ہیں“مگر ان کی باتوں سے یہ لگتا ہے کہ یہ مذاکرات کے لئے اب بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ یہ صرف عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کا بہانہ ہیں ۔کیونکہ مذاکرات کے نتیجے میں بھی ان کے ہاتھ کچھ لگتا ہوا انہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ان کی بد اعتمادی کا تو یہ عالم ہے کہ شائد کبھی کبھی وہ اپنے آپ کو بھی مشکوک سمجھنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر سچا اور نیک خو انسان جس پر یہ پہلے اعتماد کا اظہار کرتے ہیں بعد میں اسُی پرعدم اعتمادی کا اظہار کر دیتے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں اپنے سیاسی حلیف تک پر وہ بد اعتمادی کا ظہار کرچکنے کے بعد اس سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔جماعت اسلامی خلوص نیت سے جرگہ جرگہ کھیلتی رہی ہے۔ مگر اس کا کوئی فائد سیاست کے ایوانوں کو نہیں ہوا۔جس کی صریح وجہ بد اعتمادی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ حکومت کی گرفت ہر معاملے میں آج بہت ڈھیلی دکھائی دیتی ہے۔کہیں پر بھی کرپشن کی روک تھام کے کوئی معقول معاملات دیکھنے میں نہیں آرہے ہیں۔وی آئی پی کلچر آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیروں کے پیٹ قاضی کا حوض بن چکے ہیں، جو بھرنے میں ہی نہیں آرہے ہیں۔آج وزیر اعظم بڑے بڑے و فود کے ساتھ ساری دنیا کے ممالک کے دورے جاری رکھے ہوئے ہیں،جن پر اربوں کے اخراجات بھی ہو رہے ہیں۔حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے حکومتی کار کردگی پر بھر پور توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔پیٹرول کی قیمتیں چاہے دباﺅ کے تحت ہی صحیح ،دو مرتبہ کم ہوئیں مگر عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ مہنگائی آج بھی بامِ عروج پر ہے۔ مگر چیک اینڈ بیلنس ہر جگہ ناپید ہو کر رہ گیا ہے۔اگر حکومتی کار کردگی یہ ہی رہی تو عمران خان جیسے سیاست دانوں پر لوگ ٹرسٹ کرنا شروع کر دیں گے اور پھر برگر اقتدار کے راستے خود بخود ہموار ہوتے چلے جائیں گے۔
Election
عمران خان کنٹینر پر چڑھ کر مسلسل قوم کا وقت برباد کرتے رہے ہیں ۔ان کے دھرنوں سے ملک و قوم کا اربہا ارب کا نقصان ہو چکا ہے اور ان کےدھرنوں کے اخراجات بھی بے انتہا ہو رہے ہیں جس کا قوم کو رتی برابر بھی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ایک سال بعد اچانک ان کے پیٹ میں پیڑ ہوئی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ان کو اگر پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو غیر ملکی ایجنڈا سیمٹ کر پاکستان کے مفادات کی بات ،بجائے اپنے مفاد کے کریں ۔ورنہ ناچ گانے کی شوقین برگر فیملیز کے علاوہ کوئی بھی تمہارے ساتھ کھڑا نا ہوگا جو آج بھی تمہار ادم صرف برگر کلچر کے تحفظ کے لئے بھرہے ہیں۔اگر تمہارے اندر اقتدار کی ہوس کے علاوہ پاکستانیت کا درد آجائے تو سب سے پہلے ہر پاکستانی بغیر کس تعصب کے تمہارے شانہ بشاہ کھڑا ہوگا۔مگر شرط یہ ہی ہے کہ ہوس اقتدار کی بجائے خلوص نیت قوم کا مطالبہ ہے ،ہمیں دکھاوا نہیں سچا رہنما چاہئے۔ جس کی ابھی عمران خان صاحب کے اندر بے حد کمی ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے۔
عمران خان صاحب آپ کے قول و فعل کا تضاد جس وقت ختم ہوجائے گا قوم آپ کی بات بھی سنے گی اور آپ کا ساتھ بھی دگی۔اس قوم کو ذہنی طور پر آمر نہیں جمہوری رہنما چاہئے ۔آپ کی آمرانہ سوچ کے اندازے کے لئے آپ کی اس کنٹینر تحریک کے دوران کے رویئے ہی پرکھ لینے کافی ہیں۔30 ،نومبر کے جلسے میں آپ نے جو اعلانات کئے وہ کسی مشورے کے تحت نہیں کئے تھے جن کو اگلے دن شاہ محمود قریشی کو بدلنا پڑ گیا۔آپ کا کہنا تھا کہ ملک میں پہیہ جام کریں گے اور شاہ صاحب کہتے ہیں کہ نہیں نہیں شٹر ڈاﺅن اور پہیہ جام نہیں بلکہ احتجاج ہوگا وہ بھی ہر جگہ نہیں بلکہ بڑی سڑکوں پر۔پھر جو تاریخیںایجی ٹیشن کے لئے دی گئیں ان میں بھی ملک کی تاریخ اور حالات سے ناواقفیت آپ کی کھل کر قوم کے سامنے اس وقت آگئی جب شاہ محمود قریشی نے ان میں رد و بدل کا اعلان کیا۔
ایک جانب سیاست دان عمران خان کو مکمل سپورٹ دے رہے ہیں۔تو جانب حکومت بھی مست ہاتھی کی چال چل رہی ہے۔اس ڈیڈ لاک کی کیفیت میںخورشید شاہ نے مذاکرات کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت کو عمران خان سے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔بات چیت نہ ہوئی تو حکومت کے لئے ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان کے سارے پلان ،پلان ایف پر پہنچ کر فیل ہو جائیں گے۔دوسری جانب حکومت نے بھی مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ تو دیدیا ہے مگر دیکھتے ہیں مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ مذکرات شروع کئے جانے کے باوجود بھی عمران خان کی تشفی ہونا مشکل امر ہی دکھائی دے رہا ہے ۔مگر ہماری دعا ہے کہ اللہ ان مذاکرات کو کامیابی عطا فرمائے تاکہ ساری قوم ان دھرنوں کے عذاب سے تو چھُٹکارا حاصل کر سکے۔اور ملک ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہو سکے۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com