اسلام آباد (جیوڈیسک) حکومت نے شمالی وزیرستان سے فوج ہٹا کر مذاکرات کیلئے پیس زون بنانے کا مطالبہ مسترد کر دیا ، طالبان سے بات چیت کے ایجنڈے پر تاحال اتفاق نہ ہو سکا۔
شمالی وزیرستان جانے والی کمیٹی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایجنڈا طے نہ کر سکی۔طالبان شوریٰ سے ملنے والی کمیٹی نے واضح کر دیا کہ فوج کی پوزیشنوں کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو گی۔فوج کی تعیناتی کا مذاکرات سے کوئی تعلق ہے اور نہ اسے ایجنڈے کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
طالبان کو بتا دیا گیا کہ وہ مذاکرات میں آباد کاری ، زر تلافی اور قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کر سکتے ہیں۔اس سے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویزرشید کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں ، وزیر اعظم خود تمام عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ مذاکرات کی میز پر آئیں گے ان سے بات ہو گی ، دوسروں سے نمٹنے کے راستے موجود ہیں۔
وزیر دفاع نے واضح کیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کی حراست میں بچے اور خواتین نہیں ، طالبان یا ان کی رابطہ کار کمیٹی ثبوت یا فہرست فراہم کرے ، حکومت اس کی تحقیقات کرے گی۔
دوسری طرف طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں دشمن کا ہاتھ ہو سکتا ہے ، طالبان کی جانب سے احرارالہند سے متعلق تحقیقات جاری ہیں ، طالبان رابطہ کار کمیٹی کے کوآرڈینیٹر مولانا یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے ٹھوس اقدامات ضروری ہیں۔