گزشتہ دِنوں لاہور کے مقامی ہوٹل میں آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کی جانب سے اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر پیٹرولیم وقدرتی وسائل شاہ دخاقان عباسی نے ایک ایسا اعلان کیاجس سے عوام کی پریشانیوں میںاضافہ کوگیاہے اور عوام حکومت کے اِس عوام دُشمن اقدام پر حیران ہے کہ اپنے مفادات کے خاطر حکومت نے یہ اعلان کرکے اپنی رہی سہی ساکھ بھی خراب کرڈالی ہے، وفاقی وزیرقدرتی وسائل شاہد خاقان عباس نے اعلان کیا کہ یکم اپریل سے تجرباتی بنیادوں پر سی این جی سیکٹرکو روزانہ 6گھنٹے( صبح 10بجے سے شام 4بجے تک)گیس فراہم کی جائے گی جبکہ اتوارکو صبح 6سے رات 12بجے تک سی این جی ملے گی اِن کا ساتھ ہی یہ بھی کہناتھاکہ اگریہ تجربہ کامیاب رہااور گیس کا پریشر گھریلوسیکٹرکے لئے کم نہ ہواتواِسی طرح سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی کی جائے گی اطلاع ہے کہ اِس موقع پر چئیرمین اوگرا سعدخان، ایم ڈی سوئی ناردرن عاف حمید، سی این جی ایسوسی ایشن کے مرکزی سربراہ غیاث پراچہ سی این جی پنجاب کے صدر راجہ شجاع انورسمیت دیگربھی موجود تھے ۔
یقینا یہ پاکستان کی ہردلعزیزن لیگ کی حکومت کا ایک ایسااقدام ہے جو سراسر عوام دُشمنی کے مترادف ہے کیوں کہ ایسے عوام دُشمن منصوبے متعارف کرانے کا طرہ امتیازصرف ن لیگ کی ہردلعزیزحکومت کا ہی رہاہے یہ جب بھی اقتدار میں آئی ہے اِس نے سب سے ایسے عوام دُشمن اقدامات کرکے پہلے اپنے عوام کے ہی گلوں پر چھرے چلائے ہیں،یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ وفاقی وزیرپیٹرولیم وقدرتی وسائل شاہدخاقان عباسی نے عوام کے مفادات اور تحفظات کا خیال رکھے بغیرکتنی آسانی سے یہ اعلان کردیاکہ ”سی این جی سیکٹرکو روزانہ 6گھنٹے صبح 10سے شام 4بجے تک اوراتوارکو صبح 6سے رات 12بجے تک سی این جی ملے گی”کیا یہ اعلان کرتے ہوئے اِنہیں یہ احساس نہیں ہواکہ صبح 7سے 8بجے تک اسکول وکالجز اور یونیورسٹیز جانے والے طالبعلموں اور اِن کے حکومت اُمورکو چلانے والے دفاترمیں کام کرنے والے افراداورمُلکی ترقی اور خوشحالی کے خاطر کارخانوں اور صنعتوں میں لگی چمنیوں کو جلانے والے مزدورصبح جلدی اپنے اپنے مقامات پر کیسے پہنچ پائیںگے اور جب صبح دس بجے سے شام چاربجے تک سی این جی ملے گی تو سوچیں کہ مُلک کیا خاک ترقی کرے گا…؟
یقینااِس کا تو بیٹراغرق ہوجائے گا،وفاقی وزیر قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کے اِس اعلان کے بعد کیا عوام اپنے کام کاج چھوڑ کر یا اپنی ڈیوٹی پلیس سے بھاگ کر صبح دس بجے سے شام چار بجے تک سی این جی اسٹیشنوں پر گاڑیوں کی لگی لمبی لمبی قطاروں میں سی این جی کے حصول کے لئے کھڑے رہیںگے یا اپنی ڈیوٹیاں دیں گے…؟یقینااِس حکومتی اعلان واقدام سے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالبعلموں کی غیر حاضری ہوگی ، اور اِسی طرح جب دفاتر و کارخانوں اور صنعتوں میں کام کرنے والے نہیں پہنچ پائیں گے تو مُلک کا ساراکام ٹھپ ہوکررہ جائے گا وفاقی وزیرکا کیا ہے…اِن سمیت اِن کی فیملی کے استعمال میں آنے والی گاڑیوں کاپیٹرول کا کوٹہ تو حکومت دیتی ہے اور اگر حکومت نہ بھی دے تو یہ اتنے ارب پتی لوگ ہیں کہ یہ اپنی گاڑیوں کا پیٹرول کا خرچ خود بھی برداشت کرسکتے ہیں مگر مُلک کے وہ عوام کیاکریں جو اپنی سواریوں میں پیٹرول کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے آج اِن کا گزربسربس سی این جی پر ہے اِ ن کے لئے تو شاہدخاقان عباسی نے پریشانی میں اضافہ کردیاہے وفاقی وزیر صاحب …!آپ کا اور آپ کی حکومت کا یہ اقدام سراسر عوام دُشمنی اور عوام کا ٹھیک طرح سے بیٹراغر ق کردینے کے مترداف ہے
CNG Supply
آپ کے اِس اقدام سے یہ تو لگ پتہ گیا ہے کہ آپ کی حکومت نہ عوام کے ساتھ مخلص ہے اور نہ ہی مُلک کے ساتھ …آپ کو تو بس اپنے مفادات ہی عزیزہیں بھلے سے مُلک اور قوم بھاڑ میں جائیںاور تو… اور یہاں افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ جب شاہد خاقان عباسی ایساعوام دُشمن اعلان کرچکے تووہاں پر تقریب میں موجود سی این جی ایسوسی ایشن کے مرکزی سربراہ غیاث پراچہ سی این جی پنجاب کے صدر راجہ شجاع انورسمیت دیگر بھی کیوں خاموش رہے ..؟کیا اِنہیں اِس حکومتی اعلان اور اقدام کے خلاف اپنی آواز بلند نہیں کرنی چاہئے تھی..؟اوروفاقی وزیر شاہدخاقان عباسی کو یہ نہیں بتانا چاہئے تھاکہ آپ نے جو اعلان کیا ہے ہم اِسے مستردکرتے ہیں یہ عوام کے ساتھ ظلم ہے کیونکہ جن اوقات میں سی این جی کی سپلائی جارہی رہے گی اِن اوقات میں مُلک کے ایسے کڑوڑوں ملازمین جوآفسزمیں کام کرتے ہیںاِن کے لئے اپنی ڈیوٹیوں سے نکل کر سی این جی کا حصول مشکل ہوجائے گااور وہ روزانہ سی این جی کے حصول سے محروم رہ جائیں گے۔
آج اگرٹھیک ہے حکومت کو ایک مخصوص ٹائم ہی میں سی این جی سیکٹرزکو گیس کی فراہمی یقینی بنانے کا کوئی منصوبہ ہے بھی تو بہتریہ ہے کہ اِس کے اوقاتِ کار کو تبدیل کیاجائے اور یہ صبح 10بجے سے شام 4بجے کے بجائے اسے فی الفورتبدیل کرکے یوں کردیاجائے کہ سی این جی سیکٹرزکو روزانہ شام 4:30سے رات 11:30بجے تک گیس فراہم کی جائے گی اِس طرح کے حکومتی اعلان سے کسی کو کوئی تکلیف بھی نہیں ہوگی اور اِن اوقات میں عوام کو سی این جی کا حصول بھی ممکن ہوسکے گااور حکومت اپنی ساکھ بھی برقراررکھ سکے گی اور اگرحکومت نے ایسانہ کیا تو پھر گیس عوام کے دماغ پر چڑھ جائے گی اور وہ ممکن ہے کہ سڑکوں پر نکل کر دمادم مست قلندرکرناشروع کردے۔
لہذاآج ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت عوامی مشکلات اور پریشانیوں کو سمجھے اور اِس کے بروقت ازالے کے لئے ایسے اقدامات کرے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور اگر اِس کے باوجود بھی کوئی نہ سمجھے تو بھی اپنا خود ذمہ دار ہو۔
بہر حال ..!١شایدحکمران اکثروبیشتریہ بھول جاتے ہیں کہ عوام زیادہ سمجھ رکھتے ہیں، طاقت رکھتے ہیں اور ہرکام کرگزرنے کی ہمت اورعزم وحوصلہ بھی رکھتے ہیں اور اِن کے ایسے جذبات کے بارے میں کیا کہنا…؟؟؟جِسے کرنے سے متعلق یہ سوچ لے توپھر کرہی گزرتے ہیں ..ایسے میں اِنہیں طاقت کے استعمال سے روکاجائے تو پھر انقلابی صورتحال پیداہونالازمی امرہوجاتی ہے،آج دنیاکی تاریخ کے صفحات ایسے حالات ووقعات سے بھرے پڑے ہیںجن میں موجودہے کہ عوام اپنے حقوق کے خاطرجب نکلے ہیںتوپھر نہ گولی کام آئی ہے اور نہ توپوںکے گولے چل سکے ہیں،پھر گولیاں چلانے والے گولیاں چلانابھول گئے اور توپوں کے گولوں کی گھن گرج خاموش ہوگئیں بس ایسا سب کچھ عوامی طاقت اور عزم وہمت سے ہی ممکن ہوسکاہے آج یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوام کا ایسی طاقت ہے
جو سمندروں کا بھی سینہ چیڑکراِس کا رُخ موڑدیتی ہے… آج مگر پھر بھی ناجانے کیوں حکمراںعوام کو ناسمجھ، بدعقل، الّواور کمزورسمجھتے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ بس عقلِ کُل تو یہی (حکمران وسیاستدان اور بیوروکریٹس)ہیں اور پھر عوام کے ہی ووٹ کی قوت سے مسندِ اقتدارپر قدم رنجافرمانے والے زمین پر وہ کچھ کرگزرتے ہیںکہ اِنسانیت بھی کانوں کو ہاتھ لگادیتی ہے،بالخصوص آج تک سرزمینِ پاکستان میں جتنے بھی سول اور آمر حکمران آئے بدقسمتی سے سب نے ہی مُلک و قوم کے مفادات کو ایک طرف رکھااور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاکر اپنااور اپنے اُن آقاؤںکے مفادات کا خیال رکھاجنہوں نے یہ مقام اور مرتبہ دلایا…یہاں مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی عارمحسوس نہیں ہورہی ہے کہ آج بھی میرے مُلک پر کچھ ایسے ہی مفادپرستوں کا ٹولہ حکمرانی کی شکل میں قابض ہے جِسے بس اپنے ہی ذاتی اور بعدازحکومت اپنے کاروباری مفادات عزیزہیں،اِس سے قطع نظرکہ یہ طبقہ بعدمیں(یعنی آئندہ کے پانچ سالوں تک) اورکیا کیا گل کھلائے گا..؟مگراِس کے لچھن توابھی سے ہی یہ دِکھائی دے رہے ہیںکہ یہ بھی اپنے پیش روکی طرح (یا اُس سے بھی دوچارہاتھ آگے ہی جائے گااور)مُلک اور قوم کاا تناکچھ ستیاناس کرجائے گاکہ بعدمیں آنے والاسرپر ہاتھ رکھ کرروئے گااور گلی گلی خاک چھانتا پھیرے گا۔
اگرچہ آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نودس ماہ کی ہماری حکومت کا یہ عجیب وغریب کارنامہ ہے کہ اِس نے اِس عرصے میں ہر کام اُلٹ پلٹ کررکھ دیاہے، ڈالرکی قدرگرنے کا معاملہ ہویا روپے کوآسمانوں کی بلندی سے بھی اُونچالے جانے کا کوئی خواب ہویہ سب کے سب محض دل کے بہلاوے اور حسین خواب جیسے ہی معلوم دیتے ہیں، آج کسی شک وشبہ میں پڑے بغیریہ یقین کر لیا جائے کہ بزنس مائنڈ رکھنے والی ہماری موجودہ حکومت کا سارا زور قومی اداروں کی فروخت یا اِن کی نج کاری کرنے تک ہی محدود ہوکررہ گیاہے،اِسے تو اپنے اقتدار کے پہلے روزسے ہی قومی اداروں کی نج کاری کے سوا اور کوئی معاملہ سُجھائی ہی نہیں دے رہاہے ،موجودہ حالت میں حکومت کی حتیٰ الممکن کوشش بس یہی نظرآتی ہے کہ جس قدرجلدہوسکے کم سے کم وقت میں قومی اداروں خواہ وہ منافع بخش ہوں یا خسارے میں چلنے والے ہوں ،بس اِن کی نج کاری کردی جائے اور اَب حکمرانوں اور بعض حکومتی ہم خیال سیاستدانوں کا یہ کہنا ہے کہ قومی اداروں کی نج کاری سے جہاں معیشت میں استحکام پیداہوگاتو وہیںایساکرنا بعدازحکومت حکمرانوں کے بزنس کے لئے دیرپااور مستحکم حکمتِ عملی بھی ثابت ہوگی
یوںآج ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے تو یہ سمجھ رکھا ہے کہ قوم کی آنکھ میں دھول جھونک کر جتنے بھی مفادات حاصل کیے جاسکتے ہیں وہ لے لئے جائیں ،بھلے سے پھر حکومت رہے یا نہ رہے مگرایسے کام کر لئے جائیںبس جس کا صرف اِنہیں ہی فائدہ ہواور شائد یہی وہ کلیہء سیاست ہے آج جس پر ہمارے حکمران اور سیاستدان دیدہ ودانستہ کاربنددِکھائی دیتے ہیں۔
بہر کیف …!اَب آخرمیں چلتے چلتے میں دل کی یہ بات بھی عرض کرتاچلوں کہ وفاقی وزیرپیٹرولیم وقدرتی وسائل شاہدخاقان عباسی کے اِس اعلان واقدام کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچاہوں کہ آج ہمارے حکمرانوں نے عوام کو کیا دیاہے ..؟جو عوام کے صبرکا امتحان لے رہے ہیں،اَب حکمران عوام کو ” چ” بناناچھوڑدیں اور وہ کام کریں جواِنہیں کرناچاہئے اوراِنہیں جِسے کرنے کا عوام نے حق دیاہے،وہ نہ کریں جس کے کرنے سے اُلٹاعوام ہی اِنہیں ” چ ” سمجھنے لگیں۔