کراچی (جیوڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مزدوروں کی جائز تحریک کا ساتھ دیں گے‘ حکومت کو منافع بخش ادارے بیچنے نہیں دیں گے۔ نوازشریف حکومت مزید آف شور کمپنیاں کھولنے کیلئے منافع بخش ادارے بیچ رہی ہے۔
پورٹ قاسم پر احتجاج کرنے والے مزدوروں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مزدوروں کی جائز تحریک کا ساتھ دیں گے۔ حکومت کو منافع بخش ادارے بیچنے نہیں دیں گے۔ پیپلز پارٹی نواز حکومت کی حرکتوں کو مزید برداشت نہیں کریگی۔ مزدوروں کی جائز تحریکوں کا ساتھ دیں گے۔ قومی اداروں کو ایک ہاتھ سے فروخت کرکے دوسرے ہاتھ سے خریدا جا رہا ہے۔ ہم پورٹ قاسم کی کسی پرتھ کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔
منافع بخش اداروں کو حکومت اپنی پارٹی کی بزنس برانچز کو فروخت کر رہی ہے۔ دریں اثنا قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت ٹی او آرز اپوزیشن کیساتھ ملکر طے کرے۔ کمشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر اپوزیشن سے مشاورت کی جائے۔ سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے خود ٹی او آرز بنائے تو ہم نہیں مانیں گے۔ چیف جسٹس کو لکھے خط سے متعلق ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
حکومت اپوزیشن کو کمزور نہ سمجھے‘ کمزور بھی کبھی طاقتور بن جاتا ہے۔خورشید شاہ نے کہا کہ ٹرمز آف ریفرنس پر اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس بلائیں گے جس میں وزیراعظم کے خط پر مشاورت کی جائیگی۔ خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ہم نے حکومت سے کمیشن کے قیام کیلئے سپریم کو رٹ کو خط لکھنے کیلئے ضرور کہا تھا مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ٹی آر اوز حکومت اور اپوزیشن ملکر بنائیں گے۔ اس کی پہلی شرط انٹرنیشنل فرانزک آڈٹ کرانا ہو گی۔
ہم ٹی آر اوز میں حکومت سے کوئی آسمانی چیز نہیں مانگیں گے جو بھی بات کریں گے قانون کے مطابق کریں گے۔ حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی آر اوز نہیں بنا ئے تو ہم کمیشن کے کسی فیصلے کو بھی قبول نہیں کریں گے انٹرنیشنل فرانزک آڈٹ ضروری ہے جس کے بغیر مسئلہ کا حل نہیں ہوگا کیونکہ یہ مسئلہ ہم نے نہیں بلکہ خود وزیر اعظم کے بیٹوں نے اٹھایا ہے۔
وزیر اعظم پر بھی لال دائرہ لگ چکا ہے اگر حکومت نے مل کر ٹی آر اوز بنائے تو عمران خان یا کسی اور تحریک کی ضرورت بنہیں پڑے گی اگر ہما ری بات نہ مانی تو عمران خان صحیح ہونگے پانامہ لیکس کا معاملہ عالمی سطح پر حل ہونا چاہیئے اگر حکومت نے اس پر کوئی اور راستہ اختیارکرنے کی کوشش کی تو ہم بھی کوئی اور طریقہ اختیار کریں گے ہم کسی اور طریقہ کار ماننے کو تیار ہی نہیں ہو نگے گیڈر بھبھبکیاں شیر کو نہیں ڈرا سکتیں۔ ہم اتنا بھی کمزور نہیں ہیں شیخ رشید ایسی باتیں کر جاتے ہیں جن پر لوگ تبصرہ کر سکیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر سعید غنی نے کہا ہے کہ نواز شریف کو چاہیے تھا کہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے مگر نواز شریف ایسا کرنے میں ناکام رہے کیونکہ انہوں نے پارلیمنٹ کے اختیارات کا سودا کر لیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کو بااختیار بنایا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ سب پارلیمنٹ کے سامنے سر جھکائیں۔
نواز شریف ہمیشہ سید یوسف رضا گیلانی کو استعفیٰ دینے کا مشورہ دیتے تھے حالانکہ سید یوسف رضا گیلانی 1973ء کے آئین اور پارلیمنٹ کے اختیارات کا دفاع کر رہے تھے۔ اب نواز شریف ماضی میں اپنے دئیے ہوئے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ نواز شریف نے سابق آمر جنرل مشرف سے سازباز کرکے قانون کا مذاق اڑایا جو شخص عدالتوں کو مطلوب تھا اور عدالتیں انہیں بار بار پیش ہونے کا حکم دیتی رہیں اسے فرار کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی تقریر نے حسب سابق نئے باب کھول دئیے ہیں ان کی تقریر میں سوائے طعنوں تشنیع کے اپنے مخالفوں کو بُرا بھلا کہنے کے اور اپنے خاندان کی مظلومیت کا رونا رو نے کو سوا کچھ نہ تھا اگر یہی بات کہ میں نے کمشن بنا نے کا فیصلہ کیا ہے‘ پریس ریلیز ہونی چاہئے اس پر تقریر کر نے کی ضرورت نہیں تھی۔ وزیراعظم نے اپنی اس تقریر کے ذریعے بہت سارے دبے ہوئے سوالات پھر کھڑے کر دئیے ہیں۔ 1972ء میں ہما رے ساتھ نیشنلائزیشن کے دور میں بڑی زیادتی ہوئی جب ان کی صنعت قومیائی گئی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا 1977ء میں وہی فیکٹری انہیں ایک روپے، صرف ایک روپے کے عوض ملی تھی۔
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ نوازشریف کے خاندان کو ضیاء الحق کے دور میں کیا کیا مراعات ملیں‘ کتنے کتنے قرضے ملے اور کس طرح ان کی ایک فیکٹری سے ان کی سینکڑوں فیکٹریاں لگیں یہ نہیں بتایا کہ کس طرح سکریپ منگوا فیکٹری میں اس کی ڈیوٹی ادا کرنے اوراربوں رو پے سالانہ کمانے کہ یہ فوائد ان کو کیسے ملے یہ بھی نہیں بتایا انہوں نے یہ ضرور کہا یہ سوال کیوں نہیں پوچھا جاتا مجھے ایک وزیراعظم کو کیوں جیل میں رکھا گیا۔
ایک وزیراعظم کو کیوں باہر بھیج دیا گیا پہلی بات یہ ہے کہ کسی نے جبری باہر نہیں بھیجا تھا وزیراعظم صاحب آپ خود اپنی چوائس سے با ہر گئے تھے معاہدہ کر کے گئے تھے آپ نے وہاں فیکٹریاں لگوائیں‘ آپ کے بیٹوں کے بقول ان فیکٹریوں کو بیچ کے ابھی بھی آپ کی سعودی عرب میں فیکٹریاں ہیں اور کچھ فیکٹریاں بیچ کہ آپ نے لندن میں کاروبار کر لئے وہاں پہ اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنا لیں اس طرح کی جلاوطنی تو اللہ کرے سارے ملک کو ہو جائے۔
پیپلزپارٹی کے رہنماء سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ وزیراعظم نوازشریف ڈیوڈ کیمرون کی طرح اپنے اثاثے پارلیمنٹ میں پیش کرکے اپوزیشن کو خاموش کرا دیں‘ معاملہ نواز شریف اور ان کے بچوں کا ہے تو احتساب پہلے ان کا ہونا چاہئے پھرسب کا پہلے جن سے سوال کیا گیا وہ جواب دیں نوازشریف نے جو اثاثے ظاہر کئے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ شریف خاندان کے اثاثوں کو جمع کرنے کیلئے کیلکولیٹر پر اتنے ہند سے نہیں۔