تحریر : سید توقیر زیدی وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں دو روپے فی لٹر تک اضافہ کر دیا جس کا گزشتہ روز اطلاق بھی ہوگیا۔ پٹرولیم مصنوعات کے یہ نرخ اس ماہ 31 جنوری تک برقرار رہیں گے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اسکے مطابق پٹرول کے نرخوں میں ایک روپیہ 77 پیسے اضافہ کیا گیا ہے اور اب پٹرول فی لٹر 68 روپے چار پیسے کا ہو گیا ہے۔ اسی طرح ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں دو روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے تاہم مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
وزیر خزانہ کے بقول اوگرا کی جانب سے پٹرول کے نرخوں میں ایک روپیہ 77 پیسے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں تین روپے 94 پیسے فی لٹر اضافہ کی سمری بھجوائی گئی تھی تاہم ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں دو روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح اوگرا کی مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کے نرخوں میں اضافہ کی سمری بھی منظور نہیں کی گئی اور انکے نرخ برقرار رکھے گئے ہیں۔ حکومتی اعلان کے مطابق عوام کو 31 دسمبر 2016ء کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ سے بچا کر انہیں نئے سال کا تحفہ دیا گیا تھا جبکہ اب نئے سال کے پہلے مہینے کے وسط میں ہی عوام پر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں نے حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کو ملک کی معاشی پالیسیاں تباہ اور عوام کو بدحال کرنے کے مترادف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آئیگا۔
اپوزیشن پارٹیوں نے اس حکومتی فیصلہ پر پارلیمنٹ میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا جبکہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے پنجاب اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع بھی کرا دی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ صرف ان مصنوعات کے نرخوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ اسکے اثرات دیگر مصنوعات بشمول اشیائے خوردونوش پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور تاجر برادری پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو جواز بنا کر اپنی اشیاء کے نرخ بھی بڑھا لیتی ہے جبکہ اس سے ٹرانسپورٹ’ ٹرینوں اور جہازوں کے کرایوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آنا فطری امر ہے جبکہ حکومت دوسری مصنوعات کے نرخوں میں ازخود کئے جانیوالے اضافہ پر کوئی کنٹرول بھی نہیں رکھتی چنانچہ صنعتکاروں’ تاجروں’ ذخیرہ اندوزوں اور خوانچہ فروشوں تک کی اشیاء کے نرخ بڑھانے کی من مانیوں نے پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے بے وسیلہ عوام کو عملاً زندہ درگور کردیا ہے جن کے پاس وسائل کی بھی کمی ہوتی ہے اور وہ بے روزگاری کے گرداب میں بھی پھنسے ہوتے ہیں۔
ان میں یوٹیلٹی بلوں میں آئے روز ہونیوالے اضافہ کو برداشت کرنے کی بھی تاب نہیں جبکہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے سے روزمرہ استعمال کی دوسری اشیائ کے نرخوں میں بھی اضافہ ہونے سے ان کیلئے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔عوام میں ایک عمومی سوچ یہ پیدا ہوئی تھی کہ سال 2017ء چونکہ سیاسی جماعتوں بشمول حکمران جماعتوں کیلئے انتخابات کی تیاریوں کا سال ہے اور اگلے سال انہوں نے اپنے اپنے پارٹی منشور کے ساتھ عوام میں جانا ہے اس لئے بالخصوص حکمران پارٹیوں کی جانب سے اس سال عوام کو چاہے حکومتی’ سرکاری’ ریاستی وسائل بروئے کار لا کر ہی سہی’ زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کی جائیگی تاکہ وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں اور ان کیلئے انتخابات کی منزل آسان ہوسکے مگر حکمران مسلم لیگ (ن) اسکے قطعی برعکس جس انداز میں عوام کے دکھوں میں اضافہ کا باعث بننے والی پالیسیاں وضع کررہی ہے’ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں میں یا تو خوداعتمادی حد سے زیادہ پیدا ہوگئی ہے چنانچہ انہیں اپنی ان پالیسیوں سے عوام میں پیدا ہونیوالے اضطراب اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس اضطراب کو حکومت مخالف مہم کیلئے استعمال کرنے کی پیدا ہونیوالی فضا کی کوئی پرواہ نہیں یا حکومت کو عوامی مسائل کا ادراک ہی نہیں اس لئے وہ عوامی مخالفانہ جذبات کا احساس کئے بغیر ان پر مہنگائی اور دوسرے مسائل کے پہاڑ لادنے میں مگن ہے۔
Petroleum Products
یہ طرفہ تماشا ہے کہ عوام پر ہر سال وفاقی اور صوبائی میزانیوں کے ذریعے بھی ٹیکسوں میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کی شکل میں بوجھ ڈالا جاتا ہے جس کی زد میں بالخصوص تنخواہ دار طبقہ آتا ہے جن کی تنخواہوں سے ہر ماہ جبراً ٹیکس کی مد میں کٹوتی کرلی جاتی ہے اور اسکے مقابل انکی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف کیا جاتا ہے جو کسی ایک اضافی ٹیکس سے پورا ہو جاتا ہے اور پھر اس پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا’ سال میں تین چار منی بجٹ بھی عوام پر مسلط کرنا حکومت نے اپنا معمول بنا رکھا ہے جبکہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی بیشی کے فارمولا کے برعکس ہمارے حکمرانوں نے ہر ماہ ان نرخوں میں ردوبدل کی پالیسی اختیار کی جس کے تحت زیادہ تر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کا جھٹکا ہی عوام کو لگا۔ جب عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم نرخ کمترین سطح 40 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئے تھے اس وقت بھی ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جاتے رہے۔ پھر عمران خان کی دھرنا تحریک سے حکمران نرخوں میں کمی پر مجبور ہوئے تو کم کئے گئے نرخ پٹرولیم مصنومات پر عائد جنرل سیلز ٹیکس میں دس فیصد اضافہ کرکے پورے کرلئے گئے جبکہ دو ماہ قبل تک پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے جس سے عوام کی عملاً چیخیں نکلتی رہیں۔
گزشتہ ماہ کے اختتام پر حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے عوام کو نوید سنائی کہ انہیں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ برقرار رکھ کر نئے سال کا تحفہ دیا جارہا ہے مگر اب صرف پندرہ دن کے وقفے سے عوام پر پٹرول بم چلا دیا گیا ہے جسے حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ قبل ازیں ایسی ہی عوام دشمن پالیسی ریگولیٹری اتھارٹیز سے بجلی’ گیس کے نرخوں کے تعین کا اختیار واپس لے کر اختیار کی گئی جس کے تحت پاور کمپنیوں اور سی این جی سٹیشن مالکان کو بجلی اور گیس کے نرخوں کا ازخود تعین کرنے کا اختیار دے دیا جو وقت کی قید میں بھی نہیں رکھا گیا چنانچہ اب پاور کمپنیاں اور سی این جی مالکان خودمختار ہیں کہ وہ جب اور جتنا چاہیں بجلی’ گیس کے نرخوں میں اضافہ عوام پر مسلط کر دیں۔ اب پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہر پندرہ روز بعد ردوبدل کی پالیسی طے کرکے ”مرے کو مارے شاہ مدار” بنے عوام پر مزید تازیانہ برسایا گیا ہے۔یہ عوام کی بدقسمتی ہے کہ حکومت مخالف اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کیخلاف عوام کی آواز بنتی نظر نہیں آتیں جنہوں نے حکومت مخالف سیاست کا اپنا مفاداتی ایجنڈا طے کر رکھا ہے اور اسکے ماتحت وہ حکومت پر دبائو بڑھا کر اس سے مراعات اور سہولتیں لیتی ہیں اور عوام کو خدا کے آسرے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
چنانچہ بے وسیلہ عوام کو اپنی بگڑی تقدیر بنانے کا کوئی وسیلہ نہیں مل رہا جبکہ گوناں گوں مسائل کے باعث اضطراب کا طوفان انکے دلوں میں منڈلا رہا ہے۔ اگر مفاداتی سیاست میں مگن حکومتی اور اپوزیشن قائدین نے اس کا ادراک نہ کیا تو یہ اضطراب لاوا بن کر پھوٹ سکتا ہے جو اس خونیں انقلاب کی تعبیر ہوگا جس سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف حکمران طبقات کو اکثر ڈرایا کرتے ہیں۔ اگر حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں اور اپوزیشن کی جانب سے ان پالیسیوں کو عملاً چیلنج نہ کرنے کے نتیجہ میں خونیں انقلاب کی نوبت آئی تو یہ بلاامتیاز سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیگا۔ اس سے بچنے کی بنیادی ذمہ داری یقیناً حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کیونکہ ریاست کی عوام کو بلاامتیاز روٹی روزگار’ ملازمتیں’ علاج معالجہ’ تعلیم اور اچھے ماحول کے لوازمات فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری حکومت نے ہی نبھانا ہوتی ہے۔ اگر حکومت ریاست کا یہ آئینی تقاضا نبھانے میں ناکام ہوتی ہے تو یہ ناکامی ریاست کی ناکامی سے تعبیر ہوتی ہے۔
اس تناظر میں تو حکومت کو فلاحی ریاست کا تصور مضبوط بنانا چاہیے’ چہ جائیکہ عوام کو زندہ درگور کردیا جائے۔ اب اپوزیشن قائدین حکومت کی عوام پر مہنگائی مسلط کرنیوالی پالیسیوں پر انگڑائی لیتے نظر آرہے ہیں جو آنیوالے انتخابات کے تناظر میں انکی ضرورت بھی ہے اس لئے حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اپنی حکومت کی وضع کی گئی عوام دشمن پالیسیوں کے ممکنہ مضر اثرات کا ادراک کرکے ان پر نظرثانی کرنی چاہیے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے اقدامات اٹھانا چاہئیں’ بصورت دیگر آنیوالے انتخابات میں عوام موجودہ حکمرانوں کو بھی سابقہ حکمران پیپلزپارٹی کے انجام سے دوچار کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گے۔ حکومت کو بہرصورت خود کو عوامی غیض و غضب سے بچانا چاہیے۔