حکومتی منصوبہ بندی اور ہماری تعلیم

The Education Issue

The Education Issue

تحریر: محمد ریاض پرنس
کسی بھی ملک کی ترقی اس ملک کے بہترین تعلیمی نظام پر منحصر ہو تی ہے ۔دنیا میں اگر کسی ملک نے ترقی کی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس ملک کا تعلیمی نظام ہے ۔اگر تعلیمی ڈھانچہ اچھا ہو گا تو اس ملک کی تعلیمی ترقی ہو گی اور اگر تعلیمی ڈھانچہ اچھا نہ ہو گا تو پھر حال ہمارے ملک جیسا ہی ہو گا۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم ہے ۔ہمارے ملک میں ہر روز تعلیم کی شرح کو بڑھانے کے لئے پالیسیاں تو بنتی ہیں مگر ان پر چند دن کام ہونے کے بعد پتہ نہیں وہ لوگ کہاں گم ہو جاتے ہیں جو یہ پالیسیاں بناتے ہیں اور جو ان پر کام کرواتے ہیں ۔

چند دن پہلے مجھے معلوم ہوا کہ تعلیم کے معیار اور شرح کو بڑھانے کے اب حکومت نچلی سطح پر بھی کام کر رہی ہے مجھے بہت خوشی ہے کہ اب میاں صاحب کو غریبوں اور مزدوروں کے بچے بھی یاد آ گئے ہیں ۔معلوم یہ ہوا ہے کہ نئی پالیسی بھٹہ چائلڈ لیبر کے لئے بنائی گئی ہے ۔ جس کا مقصد بھٹہ پر موجود لیبر کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔ اور ان کو اپنے والدین کے ساتھ کام نہیں کرنے دیاجائے گا۔وہ بچے جن کی عمر چار سال سے زائد ہے ان کو سکول میں فری داخلہ دیا جائے گا ۔ اور ان سے کام نہیں کروایا جائے گا۔مگریہ پالیسی صرف پنجاب کے لئے ہی کیوں۔ بلکہ یہ پالیسی سارے پاکستان کے لئے ہونی چاہئے تاکہ اس پالیسی کے ذریعے تما م ملک کے بھٹہ چائلڈ لیبر کو فائدہ مل سکے ۔

future

future

میری میاں صاحب کو اس بارے میں ایک رائے ہے کہ بھٹہ مالکان کے خلاف کاروائی کرنے سے پہلے ایک ایسی ٹیم بنائی جائے جو بھٹہ پر جا کر بھٹہ مالکان اور بھٹہ چائلڈ لیبر کے والدین کو ان کے بچوں کے سحیح مستقبل کے بارے میں ہم آہنگی کرواسکیں ۔ تاکہ وہ والدین کام میں اپنے بچوں کو شامل نہ کریں اور ان کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے سکول بھیجیں ۔تب جا کر ممکن ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو سکے گا۔ اگر اس طرح رہا تو انہوںنے اپنے بچوں سے کام تو کروانا ہے پیٹ پالنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے ۔ کون سا کسی نے ان کو کھانے کے لئے کچھ دے دینا ہے ۔ اور کون سے ان کے بنیادی حقوق پورے کرنے ہیں۔ پیٹ بھرنے کے لئے مزدوری ،اور محنت تو کرنی پڑتی ہے۔ اس میں بھٹہ مالکان کا کیا قصور ان کو بلاوجہ تنگ کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف ایکشن ہو رہا ہے ۔

ان کے بھٹہ جات کو سیل کیا جا رہا ہے ۔ آخر ان کا اس میں کیاکردار۔ اگر حکومت ان کے حق میں یہ سب کچھ کرنا چاہتی ہے تو بہتر ہے جہاں پر بھٹہ جات کی تعداد زیادہ ہے وہاں پر حکومت ان کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے سکول بنا دے ۔ تاکہ ان کے بچے وہاں تعلیم حاصل کر سکیں ۔اور ان کے بچے بھی پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ہمارے ملک کا تقریباً 58فیصد حصہ ایجوکیٹرز پر مشتمل ہے ۔ اور باقی 42فیصد حصہ ناخواندگی کا شکار ہے۔ ہمارے ملک میں یہ نہیں کہ تعلیم کی سہولت میسر نہیں بلکہ لوگوں میں شعور نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کر وا سکیں ۔ پاکستان کا زیادہ تر حصہ دیہات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہمارا ملک تعلیم کے شعبہ میں دوسرے ممالک سے پیچھے ہے ۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر لو گ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو تعلیم حاصل کر کے کیاحاصل ہو گا۔

Children's future felt uncertain

Children’s future felt uncertain

بہتر ہے شروع سے ہی اپنی روزی کمانے کے لئے کچھ ہنر وغیر ہ سیکھ لیں ۔ کچھ حد تک ان کی یہ با ت درست بھی ہے ۔ کیونکہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات جو چل رہے ہیں ان کو اگر دیکھا جائے تو ہماری حکومت ایک طرف تو تعلیمی کی شرح کو بڑھانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے تو دوسری طرف جن کے پاس تعلیم ہے ان کے لئے وسائل موجود نہیں ہیں ۔ اگر کبھی کوئی اوپرچونٹی نکلتی بھی ہے۔تو اس پر سفارش اور امیر لوگوں کو فائز کر دیا جاتا ہے ۔اور غریبوں کے لئے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔ اس وقت جو تقریباً 25 سے 30 فیصدایسے لو گ ایجوکیٹرز ہیںجن کو وسائل میسر نہیں آرہے ۔ وہ روزگار کی تلاش میں بے راہ پروری کا شکار ہو رہے ہیں ۔ان کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر ان کو نوکری یا روزگار کی تلاش میں دردر کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں ۔اس ڈر اور خوف کی وجہ سے مزدور طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل نہ کروانے کے لئے قاصر ہیں ۔کیونکہ اس مہنگائی اور بے روزگاری کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ اپنے بچوں کا مستقبل تاریک کر دیتے ہیں ۔

کیونکہ اب حالات تو ایسے ہی ہیں ۔ جن کے پاس ڈگریاں ہیں انہوں نے اپنے ملک کی شرح کو تو بڑھا دیا مگر وہ خود بے روزگاری کا شکار ہو گئے ۔ اپنا اور اپنے والدین کا پیٹ پالنے کے لئے اب ڈگریاں والے بھی مزدور بننے پر مجبور ہیں ۔ایک طرف تو، ایم اے ۔ایم ایس سی ،ایم بی اے والے نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ۔اور دوسری طرف تعلیمی شرح کو بڑھانے کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ان کے مستقبل کا ذمہ دار کون ہو گا ۔جو انہوں نے خواب دیکھے ہیں ان کو کون تعبیر کروائے گا ۔ ان کے بوڑھے والدین کے سپنے کیسے پورے کیے جائیں گے ۔ ہماری حکومت ان نوجوانوں کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے ۔ان کو کب ان کے خوابوں کی تعبیر ملے گی ۔

ہماری اور ہماری حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم تعلیم کے ا صول کے لئے کچھ ایسی مہم کا آغاز کریں جس سے تمام ملک کے غریب لوگوں کے بچوں کویکساں فائدہ مل سکے ہمارے ملک میں سب سے بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ تعلیم دینے کے لئے بڑے بڑے ادارے تو بنائے جا رہے ہیں ۔ مگر معیاری تعلیم دینے کے لئے کوئی کچھ نہیں کر رہا ۔تعلیم دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے مگر رزلٹ صفر ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا نظام ہی درست نہیں ۔ جس ادارے کا جو دل چاہتا ہے وہ سلیبس پڑھا رہا ہے ۔

Policies

Policies

ہر ادارہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے اپنی ہی پالیسیوں پر عمل پہرہ ہے۔ہر طرف انگلش انگلش ،اردو عربی،اور اسلامیات کو ہم بھولتے جا رہے ہیں ۔دنیا وی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہم دینوی علوم سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینوی تعلیم بھی بہت ضروری ہے ہمیں اس پر بھی زور ر دینے کی ضرورت ہے ۔ اس میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نظر نہیں آتی ۔ اور نہ ہی کوئی حکومتی پالیسی نظر آتی ہے ۔ اگران حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو تعلیم کی شرح کو بڑھانے اور اچھی اور معیاری تعلیم کے لئے سب کے لئے ایک ہی سلیبس لاگو کرنا ہو گا ۔اگر ایسا نہ ہوا کبھی بھی ملک تعلیمی ترقی نہیں کر سکے ۔

ملک کے ہر فرد کو تعلیمی شرح کو بہتر بنانے کے حکومت کے ساتھ تعاون اور اپنے علاقوں میں لوگوں کو شعور دینے کی ضرورت ہیں۔کیون کہ علم ایک ایسی لازوال دولت جس کو چور چوری نہیں کر سکتا ۔ اور نہ کسی کے ساتھ اس کو بانٹا جا سکتا ہے ۔ ہمیں بس اپنے اردگرد کے بچوں کو سکول جانے کے لئے ترغیب دینی چاہئے تاکہ وہ بچے سکول جا سکیں ۔ اور علم حاصل کر کے اپنے والدین اور اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں ۔

Riaz Prince

Riaz Prince

تحریر: محمد ریاض پرنس
03456975786