5 جو لائی 1977 میں پی پی پی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جزل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا ۔ گیارہ سالہ مارشل لائی دور چو نکہ میرا فی الحال سبجیکٹ نہیں سو اس بحث سے نظریں چراتے ہو ئے کہ اس دور میں پا کستان نے کیا پا یا اور کیا کھو یا ۔۔ بس اتنا کہوں گا کہ جزل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی سیاست میں ایک نئے دور میں داخل ہو ئی ۔ لسانی اور فروعی بنیادوں پر بننے والی مسلح اور نیم مسلح تنظیوں نے اپنی جگہ بنائی اور آ ہستہ آ ہستہ اتنی با اثر ہو ئیں کہ درو دیوار ان کے نعروں ک سے بھر گئے ، شہر کے بیشتر مکانوں پر ان لسا نی اور مذہبی فرقہ ورانہ تنظیوں کے جھنڈے لہراتے نظر آ نے لگے ۔ ان تنظیموں کے عہدیداران اتنا اثرو رسوخ پا گئے کہ سرکار ان کے آ گے ہاتھ با ندھے نظر آ تی ۔آئے روز فرقہ وارانہ بنیادوں پر تو تکار اور دھینگا مشتی کی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملنے لگیں ، کہتے ہیں کہ کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر بھی اسی جہاد افغا نستان کی دین ہے جو ہم امریکہ کی حمائت میں روس کے خلاف نبرد آ زما رہے خیر اس مو ضوع پر بات پھر کبھی اپنے مو ضوع پر بات پر بات کرتے ہیں کہ میرا لیہ جزل ضیاء الحق کے دور میں ہی ضلع بنا ۔ پورے ملک کی طرح لیہ میں بھی جہاد ، فرقہ وارانہ اور لسانی مو ضوعات کا جادو سر چڑھ کر بو لنے لگا ۔ اس زمانے میں جھنگ سے شروع ہو نے والی سپاہ صحابہ ایک معروف تنظیم تھی ۔ لیہ جھنگ کا ہمسایہ ضلع ہے اس لئے اس تنظیم نے لیہ میں بھی بہت کم عر صے میں لیہ میں اثر و رسوخ حاصل کیا ۔ اس کے مقا بلے میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بھی ایک منظم جماعت تھی ، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے لیہ شہر میں پہلا سنی شیعہ فرقہ وارانہ فساد سال 1986 میںہوا ۔ ان دنوں سید احمد حسین سلیم ڈپٹی کمشنر اور چو ہدری محمد شفیع سپرنٹنڈنٹ پو لیس تھے احمد حسین سلیم بڑے متحرک اور علم دوست بیورو کریٹ تھے لیہ پبلک سکول کا قیام انہی کے دور میں ممکن ہوا لیہ پبلک سکول کے قیام کی روداد میں شب و روز زند گی کی ایک گذ شتہ قسط میں تحریر کر چکا ہوں۔
اس زمانے میں سپاہ صحابہ بڑی سر گرم عمل تھی ، گو سپاہ صحابہ کے رد عمل میں شیعہ تنظیمیں بھی و جود میں آ ئیں لیکن سیاسی محاذ پر تحریک فقہ جعفریہ ایک منظم سیاسی اور مذہبی قوت تھی ، مجھے سال اور تاریخ تو یاد نہیں لیکن اس سال 1986 کے واقعہ سے قبل سپاہ صحابہ کے حق نواز جھنگوی لیہ آ ئے اور انہوں نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا اس جلسہ سے خطاب کر نے والوں لیہ کے مقامی سیاسی اور مذ ہبی رہنما بھی شا مل تھے کہتے ہیں کہ مو لا نا حق نواز جھنگوی پر لیہ میں دا خلہ پر پا بندی تھی لیکن وہ آ ئے اور انہوں نے جلسہ عام سے خطاب کیا وہ لیہ کیسے آ ئے اس بارے بہت سی روایات ہیں لیکن دروغ بر گردن راوی کہ مو لانا ایک دیگ میں چھپ کر جلسہ گاہ پہنچے ۔بہت سے لوگ اس روایت کو زیب داستاں قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح تحریک فقہ جعفریہ والوں نے بحی اپنا پاور شو کیا ، علامہ سا جد نقوی ایک بڑے استقبالی جلوس کے ساتھ لیہ آ ئے ۔۔
محرم خاص طور پر یوم عا شور کے دن مسجد کر نال والی ایک انتہائی حساس پوا ئنٹ ہو تا ہے ہے ، ضلعی انتظا میہ کے ذمہ داران اور ضلعی امن کمیٹی کے ارا کین اس حسا س پوائنٹ یعنی مسجد کر نال والی کے سا منے سے ما تمی جلوس مقررہ شیدول کے مطابق نکا لنے کے لئے بڑے کا نشش ہو تے ہیں یوم عا شور کو حسب روائت مرکزی امام بارگاہ حسنینیہ سے نکلنے والا مر کزی جلوس مسجد کرنال والی کے سا منے پہنچاتو وہاں مسجد اور جلوس کے منتظمین میں وقت کے معاملہ پر اختلاف رائے پیدا ہو گیا ۔ کہتے ہیں کہ دونوں فریقین کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف مختصر سی نعرے بازی اور اشارہ بازی بھی ہو ئی لیکن انتظا میہ اور امن کمیٹی کے ارا کین نے محرم کے مر کزی جلوس کو مسجد کے سا منے سے گذار لیا اور کو ئی نا خو شگوار واقعہ پیش نہیں آ یا افسوسناک واقعہ کی ابتدا سہہ پہر دو ڈھا ئی بجے اس وقت ہو ئی جب محلہ جعفریہ سے نکلنے والا جلوس حسب روایت چوک قصاباں میں پہنچا تووہاں حالات زیادہ خراب ہو ئے ہوا اس تصادم کی وجہ کیا بنی اور اس کی شروعات کیسے ہو ئی اس بارے مختلف رائے ہیں لیکن اس جلوس کو بھی گزار لیا گیا۔
اسی سہہ پہر جب یہ سب یہ جلوس کر بلا سے ہو کر واپس آ رہے تھے ما حول کی کشید گی کے سبب سب جلوس اکٹھے ہو گئے تھے ما حول میں خاصا تنائو تھا ضلعی انتظا میہ چا ہتی تھی کہ سب ما تمی جلوس ایک ساتھ واپس جا نے کی بجائے یکے بعد دیگرے واپس جا ئیں شا ید اسی سبب ضلعی انتظا میہ کی طرف سے سب جلو سوں کو صدر تھانہ سے پہلے روک لیا گیا انتظا میہ کا اصرار تھا کہ جلوس ایک ایک کر کے واپس جا ئیں گے لیکن انتظا میہ کی حکمت عملی نا کام ہو ئی اور جلوس جب دربار شاہ حبیب سے ہو تا ہوا محلہ گو جرانوالہ پہنچا تو ایک بار پھر تصادم کی شکل اختیار کر گیا ۔ اس زمانے میں محرم میں امن و امان قائم کر نے کے لئے پنجاب لیوی پو لیس کی معاونت کے لئے طلب کی جا تی تھی۔
یہ فرقہ وارانہ فساد لیہ کی تاریخ کا ایک بڑا اور نہ بھو لنے والا فرقہ وارانہ فساد بن گیا کئی لوگ زخمی ہو ئے ایس پی پو لیس چو ہدری شفیع بھی پتھر لگنے سے زخمی ہو گئے دروغ بر گردن راوی ہلا کتیں بھی ہو ئیں واللہ اعلم با لصواب سا بق ناظم تحصیل ملک منظور جو تہ کہتے ہیں کہ ہلا کتوں کے بارے ہم نے بھی سنا لیکن کسی بھی متا ثرہ خاندان کی طرف سے کلیم نہیں کیا گیا کہ ان کا کو ئی بندہ ہلاک ہوا ہے اور نہ ہی شہر میں کسی ایسے بندے کا جنازہ پڑھا گیا جو اس واقعہ میں ہلاک ہوا ہو ۔ لگتا ہے کہ یہ سب افوا ہیں تھیں البتہ لوگ زخمی ضرور ہو ئے تھے۔
اس وقت ایس پی پو لیس چو ہدری شفیع اسسٹنٹ کمشنر شمشیر حیات سیال ، علاقہ مجسٹریٹ جن کا نام غالبا ظفر تھا اور برکت نام کے ایس ایچ او ڈیوٹی پر تھے جب کہ امن کمیٹی کے اراکین میںغازی خان کھتران ، عثمان خان ، سینئر صحافی محمد اسحق رحمی ، اور مہر محمد اقبال سمرا بھی انتظا میہ کی معاونت کر رہے تھے ، میڈ یکل ڈیوٹی پر ڈاکٹر ظفر اقبال ملغانی اپنی میڈ یکل ٹیم کے ساتھ الرٹ تھے ۔ ڈاکٹر ظفر ملغانی بتاتے ہیں کہ جب ایس پی چو ہدری شفیع کے دائیں رخسار پر پتھر لگا تو انہیں تھانہ سٹی جو اس وقت صدر بازار میں تھا میں لا یا گیا اور ہم نے انہیں فسٹ ایڈ دی ۔اسی طرح امن کمیٹی کے رکن مہر اقبال سمرا کہتے ہیں کہ جب صبح کا جلوس مسجد کرنال والی پوائنٹ سے گذر گیا تو میں کھانا کھانے گھر آ گیا ، کھانے کے بعد میں واپس جانے کے لئے گھر سے نکلا تو میں نے پو لیس کے جوانوں کو تیزی سے چو بارہ روڈ پر شہر کی طرف جاتے دیکھا پتہ چلا کہ تصادم ہو گیا ہے اور شیلنگ ہو رہی ہے ۔ مہر سمرا کا کہنا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ انتظا میہ نے ٹریفک روکنے کے لئے چو بارہ روڈ پرریلوے کراسنگ پھا ٹک بند کر دیا تھا۔
جزل ضیا ء الحق کے دور میں مجلس شوری کے رکن رہنے والے سا بق چیئرمین ضلع کو نسل غلام فرید مرانی بتا تے ہیں کہ حالات کی سنگینی کے سبب اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے مجھے کہا کہ حالات کو ٹھنڈا کر نے میں اپنا کردار ادا کروں میں نے مسجد کر نال والی انتظا میہ سے بات کی تو ان کا ایک ہی مطا لبہ تھا کہ آ ئندہ اس روٹ سے جلوس گذر نے پر پا بندی عا ئد کی جا ئے میں نے حالات کی بہتری کے لئے ان سے کہاکہ میں ان کا مطا لبہ انتظا میہ کے نو ٹس میں لا ئوں گا ۔ جس پر میرے خلاف بے بنیاد پرا پیگنڈہ شروع کر دیا گیا ۔
محرم کے بعد جھنگ سے لیہ آنے والا سپاہ صحابہ کا وہ جلوس بھی مجھے یاد ہے جس کی قیادت سپاہ صحابہ کے علامہ فاروقی کر رہے ہیں ، مو لانا فاروقی کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا اس جلوس کو روکنے کے لئے چو بارہ میں پو لیس نے مزاحمت کی لیکن جلوس بڑا تھا اس لئے پو لیس جلوس کو نہ روک سکی پھر اڑتی خبر ملی کہ شرکاء جلوس لیہ سے واپسی پر اسسٹنٹ کمشنر چو بارہ کو اغوا کر کے لے گئے ۔ اس وقت ایک پو لیس آ فیسر پنجتن شاہ بھی چو بارہ پو لیس تھانہ میں تعینات تھے ۔ پنجتن شاہ اور ابا مرحوم چو ہدری عبد الرشید اکٹھے ٰ آلیس آ فیسر غلام پنجتن شاہ بھی چو بارہ میں تعینات تھے ۔ شاہ جی سے میری خاصی یاد اللہ ت اس وقت ایک محکمہ پو لیس میں کا نسٹیبل بھرتی ہو ئے ۔ با با جی ایک درویش آدمی تھے وہ اس خلاف فطرت ملازمت کا جبر برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے جلد ہی اپنے خاندانی محکمہ کی آ شا ئشوں کو چھوڑ کر محنت مزدوری سے دوستی کر لی ۔ جب کہ پنجتن شاہ تھا نیدار ریٹائر ہو ئے ۔
شاہ جی جب بھی ملتے کہتے تمہارے باپ نے بڑی غلطی کی ۔۔ رشید اگر پو لیس نہ چھوڑتا تو کم ازکم ڈی ایس پی ریٹائر ہو تا ۔ پو لیس کو میں نے اپنا خاندانی محکمہ کہا اس کا پس منظر بھی بتا تا چلوں کہ میرے دادا ابو علی حسن اور ان کے تین بھا ئی چو ہدری ظفرحسن ، چو ہدری فتح محمد اور چو ہدری محمد شریف قبل از تقسیم محکمہ پو لیس میں ملازم تھے اور یہ چاروں بھا ئی تھا نیدار بن کے ریٹائر ہو ئے ۔ چو ہدری محمد شریف کا گھر محلہ چا نڈیا نوالہ میں ظہیر خان آ رے والے کے سامنے تھا جب کہ چو ہدری فتح محمد کے بیٹے تایا محمد حسین نصیر پراچہ کی گلی میں رہتے تھے ۔ تا یا محمد حسین بھی محکمہ پو لیس سے ریٹائر ہو ئے ۔ چو ہدری ظفر حسن کا گھر با تش مارکیٹ سے ملحق تھا جہاں آ ج کل ورا ئٹی کلاتھ ہا ئوس بنا ہے ۔۔ لیہ میں فرقہ وارانہ فساد کا ایک اور افسوسناک واقعہ سال 1993 میں جھرکل کروڑ میں ہوا ۔ یہ واقعہ بھی بظا ہر فرقہ ورانہ فساد تھا اور اس واقعہ میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرتے ہو ئے سب انسپکٹر غلام محمد شہید ہوئے ۔ اس وقت نذر عباس ایس پی پو لیس لیہ تھے ۔
بس یارو ۔۔۔ انہیں مدو جزر کا نام ہے ۔۔ زند گی ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ۔۔ اک نیا صفحہ روز کھلتا ہے زند گی اک کتاب ہے پیا رے با قی اگلی قسط میں۔۔۔۔