گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں مجلس مباحثہ کا آغاز

Terrorism

Terrorism

تحریر : رانا عبدالرب
نائن الیون کا حادثہ عصر حاضر کا سب سے بڑا سانحہ ہے جس نے دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا ہے مگراس واقعہ کے بعد وہ مذاہب جن کے پیروکاروں کے درمیان نفرت کی وسیع خلیج حائل ہو گئی تھی ان میں مکالمہ کی اشد ضرورت تھی مگر ہر دو نظریات کے دانشور حلقے اس ضرورت کو کماحقہ پورا کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے وہ چند چہرے جنھوں نے مذہب کا نقاب اوڑھ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے جہاں سماج میں امن کے چہرے کو مسخ کرنے کی سعی کی وہاں ہر دو مذاہب کے شدت پسند طبقات نے نفرت کی دیواریں اتنی اونچی کردیں جنھیں پھلانگنا ناممکن تھا۔اسی طرح کمیونزم کو بعض مذہبی شدت پسندوں نے غلط رنگ دیا حالاں کہ کمیونزم مساوات اور انسانیت کا سب سے بڑا منبع ہے۔ جو کمیونزم کے پرچارک تھے انہوں نے مکالمہ اور بحث و مباحثہ کے ذریعے اِس کی تشریح نہ کی اور آج دنیا کی نظر میں کمیونزم ایک مخصوص” علامت ”کے طور پر سمجھا اور جانا جاتا ہے۔

دہشت گردی کی جنگ میں ہم ڈیڑھ دہائی کا عرصہ گزار چکے ہیں مگر آج بھی ہمارے ہاں نہ تو کہیں مکالمہ کی سی کوئی فضا نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی بحث و مباحثہ ۔زندگی کے گرداب میں پھنساانسان بہت جلدی بہت کچھ حاصل کرنی کی ،سعی لاحاصل میں پڑا ہوا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ آنے والی نئی نسل کو کتنا پیچھے دھکیل رہا ہے کیوں کہ جس معاشرہ میں مکالمہ یا بحث ومباحثہ کی روایت دم توڑ جاتی ہے وہ معاشرہ آہستہ آہستہ سانس لینا چھوڑ دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ معاشرہ دم توڑ جاتا ہے۔

Dr. Iftkhar Beg Sb

Dr. Iftkhar Beg Sb

بلاشبہ مکالمہ کے فروغ سے ہی کسی معاشرہ میں شعوری ترقی کا جنم ہوتا ہے اوربحث و مباحثہ سے جہاں انسان ایک دوسرے کے خیالات سے ہم آہنگ ہوتا ہے وہاں تخلیق و تحقیق کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرہ کبھی جمود کا شکار نہیں رہا کرتا ۔کہیں نہ کہیں ،کوئی نہ کوئی ایسا ”کردار”ضرور معاشرے میں قائم جمود کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

ماضی میں سقراط،ارسطو،بیدل ،غالب،حالی،فیض احمد فیض،حبیب جالب،احسان دانش،ڈاکٹر خیال امروھوی ،نیلسن منڈیلاجیسے نامورلوگوں نے معاشرے میں ایک نئی روح پھونک کر سماج کو ایک ڈھب میں ڈھالا۔اس بار یہ بیڑا معروف شاعر،دانشور ومحقق ڈاکٹر افتخار بیگ نے معاشرے میں قائم جمود کو توڑنے کے لیے جہاں وعلم وآگہی کے دیپ جلائے وہاں طلبا و طالبات میں ”بحث و مباحثہ”کا آغاز کر کے ”سوال”اٹھانے سے ”جواب”کے ملنے تک کا جو سلسلہ شروع کیا وہ یقینا قابل تحسین ہے۔

گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں” مجلس مباحثہ ”کا آغاز 25 فروری 2016ء کو ہوا۔ اس کے اب تک 8اجلاس ہو چکے ہیں۔اس مجلس کے قیام میں کالج ہذا کے پرنسپل پروفیسرمہر اختر وہاب کی دلچسپی نے اہم کردار ادا کیا۔عہدیداران کا چنائو ڈاکٹر افتخار بیگ نے کیا ۔مجلس مباحثہ کے عہدیداران میںمجاہد اقبال(صدر)عبدالرحمان احمد(جنرل سیکرٹری)عارف حسین(نائب صدر) صدیق احمد (جوائنٹ سیکرٹری) ہیں۔

 Rana Abdul Rab

Rana Abdul Rab

مجلس مباحثہ کے اِن 8اجلاسوں میں جن جن طلبا نے حصہ لیا ان میں۔مجاہد اقبال(ایم۔اے اردو)عبدالرحمان(بی۔ایس سی )صدیق احمد(یم۔اے اردو)عارف حسین (ایم۔اے اردو)،عامر رضا(ایم۔اے اردو)سارہ اصغر(ایم۔اے اردو) مصباح نورین(ایم۔اے اردو)ثمینہ (ایم۔اے اردو)محمد اعظم (ایم۔اے اردو)سونیا کنول(ایم۔اے اردو)،مصباح ناز(ایم۔اے اردو) مزمل حسین (ایم۔اے اردو)،۔منزہ نذیر(ایم۔اے اردو)عرفات قیوم(ایم۔اے اردو) اقرارکنول(ایم۔اے اردو)شامل ہیں۔اگر دیکھا جائے تو اب تک کہ جو موضوعات اب تک زیر بحث لائے جا چکے ہیں وہ حالات ِ حاضرہ کے اہم موضاعات میں سے ہیں جیسا کہ ”اسلام میں رواداری”،حقوق نسواں”،”طلبا پڑھنا چاہتے ہیں ماحول میسرنہیں”،”اسلام معاشرتی رواداری کا درس دیتا ہے”،”کیا پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے”،”میں ٹیکس کیوں دوں”،تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان”شامل ہیں۔

بحث ومباحثہ سے جہاں مختلف موضوعات پر تعلیم یافتہ نئی نسل کو ہر دوفریقین سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا وہاں ایسی معلومات پر بھی تبادلہ خیال کیا جا سکے گا جو ہماری اذہان کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ گورنمنٹ ونجی تعلیمی اداروں میں مکالمہ اور بحث ومباحثہ کو لازمی قرار دے تاکہ ہمارا معاشرہ ”سوال”سے ”جواب”تک پہنچ کر معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکے۔

 Rana Abdul Rab Logo

Rana Abdul Rab Logo

تحریر : رانا عبدالرب
03456150150