حکومت غربت کے خاتمے میں ناکام، دیگر شعبوں میں کارکردگی بہتر

Poverty

Poverty

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی( پلڈاٹ) نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے پہلے سال کی کارکردگی کے معیار کو قدرے بہتر قرار دیا ہے۔

پلڈاٹ نے 4 جون 2013 سے 5 جون 2014 کے دوران حکومتی نظم ونسق کے معاملے میں مسلم لیگ ن کو 44 فیصد اسکور دیا ہے ۔یہ اسکور وفاقی حکومت کی جانب سے25 اہم اشاریوں کے حوالے سے فراہم کیے گئے اعدادوشمارکی بنیاد پر دیا گیا۔پلڈاٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی کارکردگی تھوڑی بہتر ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی زیادہ توجہ قومی دفاع،اندرونی سلامتی اور توانائی کے شعبہ پر تھی۔

تاہم ان 25 اشاریوں میں سے مسلم لیگ ن کی حکومت نے صرف 3 میں 60 فیصد یا اس سے زیادہ سکورحاصل کیا ۔ان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کیلیے تیاری کی مد میں 62 فیصد،میرٹ کی بنیاد پرتعیناتیوں اورترقیو میں61 فیصداورخارجہ پالیسی کے امور میں 60 فیصد اسکور رہا ۔مسلم لیگ کی حکومت نے غربت کے خاتمے میں سب سے کم22 فیصد اور شفافیت میں صرف 27 فیصد اسکور حاصل کیا ۔ نواز حکومت کا سرکاری شعبے کی ترقی، بدعنوانی سے نمٹنے کیلیے کوششوں،امن واستحکام یقینی بنانے،سرمایہ کاردوست ماحول بنانے اورقومی دفاع کے معاملات پر 50 فیصد کے لگ بھگ اسکور ہے۔

بچوں کو بیماریوں سے بچائوکیلیے 44 فیصد جبکہ آبی وسائل کی منیجمنٹ کے حوالے سے اسکور 42 فیصد رہا۔پلڈاٹ نے رپورٹ میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے قومی اندرونی سلامتی پالیسی متعارف کرانے اورنیکٹا کے تحت انٹرنل سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے قیام کوبھی سراہا ہے ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کیلیے خارجہ پالیسی کو بھی مضبوط بنایا گیا ہے۔

سرمایہ کاری اوردوطرفہ سمجھوتوں میں زیادہ زورتوانائی کے شعبے پر تھا۔۔مقامی سرمایہ کاری میں 8 فیصد اضافہ ہوا ۔رپورٹ کے مطابق خواندگی سمیت سماجی اوراقتصادی شعبے میں بھی بہتری آئی ہے۔

نواز حکومت کے پہلے سال کے منفی پہلوئوں میں غربت کے خاتمے میں ناکامی اور اقوام متحدہ کے ملینیئم ترقیاتی اہداف حاصل نہ کرنا شامل ہے ۔ 2014 کی انسانی ترقی کی رپورٹ کے مطابق ملک کی تقریباً نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ اقتصادی سروے کے مطابق بے روزگاری کی شرح 6فیصد سے کم ہے۔

حکومت کے اقتدار کے پہلے سال میں قانون سازی کا شعبہ بھی کمزوری کا شکار رہا اور قومی اسمبلی میں11 بل پیش کئے گئے جن میں سے فنانس بل کے علاوہ ایک بل سینٹ سے منظوری کے بعد قانون بن سکا۔