آج بھی کل کی طرح حکومت کے ہر فیصلے کے پیچھے

PTI Government

PTI Government

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

آج بھی کل کی طرح حکومت کے ہر فیصلے کے پیچھے شارپ مائنڈ شاطر افسر شاہی کی شیطانی چال کارفرماہے، جس کا یہی کام ہے کہ جس طرح اور جب چاہئے یہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کردے اور اِس کاجب جی چاہئے یہ آسانیاں لے کر حاضر ہوجائے،گو کہ حکمران تو بس ایسے ہی ہوتے ہیں، اصل میں حکمرانوں کو چلانے والے بیوروکریٹس اور اِنہی کی طرح کے چیلے چانٹے ہوتے ہیں۔ جو اقتدار میں آئے حکمرانوں کی گاڑی کو لے کر چلتے ہیں، بادلخواستہ ، اِن کے مشوروں سے کوئی ایک آدھا کبھی کام اچھا ہوجائے تو ہوجائے ورنہ ، اِن کے زیادہ تر حکمرانوں کو دیئے گئے مشورے ایوئیں ہوتے ہیں،بدقسمتی سے ستر سالوں میں وطن عزیز میں جتنی حکومتیں آئیں اور گئیں ہیں،اُن کی ناکامی کے ذمہ دارمیرٹ کا گلاگھونٹ کر افسر شاہی کی کرسی پرقابض ہونے والا خوشامدی ٹولہ ہی رہا ہے ،اگر کبھی کسی حکمران نے افسرشاہی کی قابلیت پرکھ لی ؛تو وہ حکمران سنبھل گیاہے۔ وہ اپنی صلاحتیں بروئے کار لایا؛ اورخود اپنی صلاحیت اور اپنی ٹیم کے صلاح مشوروں کے بل بوتے مُلک اور قوم کے لئے اچھے فیصلے کرگیا۔جس سے مُلک اور قوم میں بہتری آئی، مگر جو حکمران افسرشاہی اورنوکرشاہی کے ہی مرہونِ منت رہاہے؛ اِس کے سارے فیصلے حقیقت سے کوسوں دور کاغذ کے گھوڑے ثابت ہوئے ہیں۔

اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ آج پاکستان تحریک اِنصاف کی حکومت میں حج جیسے مقدس فریضہ کے لئے سبسڈی کے خاتمے کا مشورہ بھی چاپلوس افسرشاہی طبقے کا ہی دیاہوا ہے یعنی کہ اَب قوم یہ تسلیم کرلے کہ آج وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں عوام کے لئے جتنی بھی مشکلات اور پریشانیاں پیدا ہو ئی ہیں ،ہورہی ہیں یا آئندہ ہوں گیں ؛ یقینی طورپر تمام پریشانیوں اور مشکلات کو پیدا کرنے والے قومی اداروں میں جونک کی طر ح چمٹے رہنا والا نااہل افسرشاہی کاخوشامدی ٹولہ ہے۔ جس نے اپنے نمبر بڑھانے اور مارات لینے کے چکر میں اپنے فرسودہ و ناقص، پھٹے پرانے ناکارہ اور بے کار مشوروں سے نوزائیدہ رواں حکومت کو مشکلات میں دھکیل دیاہے، اور عوام میں حکومت کا بڑھتا ہواگراف گرادیاہے۔ حتی کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آج اِس سے نہ پارلیمنٹ چل پارہی ہے اور نہ ہی حکومت آگے بڑھ رہی ہے ۔افسرشاہی اور خدشہ یہ بھی ہے کہ نادیدہ قوتوں کے بے جا مشوروں پر عمل کرنے کے باعث حکومت قدم قدم پہ مسائل کے دلدل میں دھنستی جارہی ہے ابھی وقت ہے کہ سنبھل جائے ورنہ؟

اگرچہ ،جب مُلک میں پی ٹی آئی کے دھرنوں کا عروج تھا،ہر طرف تبدیلی کے نعروں اور نغموں کی گونج تھی،کئی کئی دِنوں ، ہفتوں اور مہینوں کے دھرنوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری تھا،مُلک کے طول ُ ارض میں نئے پاکستان اور تبدیلی کے چرچے تھے، نوجوانوں (لڑکے ، لڑکیوں )اور ہر عمرکے افراد کی بڑی تعداد پی ٹی آئی کے جلسوں، جلوسوں ، ریلیوں اور دھرنوں میں جوک درجوک نظر آتی تھی ، جب کہیں عمران خان کے جان نثاروں کا ہجوم اکٹھا ہوتاتوایک عجیب سماں بن جاتا تھا ،یہ دیکھ کر مخالفین کے کلیجہ میں حسد اور جلن کی آگ بھڑک اُٹھتی تھی ، سڑکوں، بازاروں، گلی محلوں اور شہر شہر گاو ¿ں گاو ¿ں رنگین برنگین جھنڈوں کی بہار آئی ہوئی تھی ،عمران خان کی قدآور تصاویر اور پارٹی لیٹروں کی تصویروں سے جلسہ گاہ بھرے ہوتے تھے ،لگتا تھا کہ جیسے پی ٹی آئی کی حکومت کے آتے ہی تبدیلیوں کا نہ رکنے والا دور شروع ہوجائے گا ،مُلک سے مہنگائی ، بھوک و افلاس اور کرپٹ عناصر اور کرپشن کاجڑ سے خاتمہ ہوجائے گا،(مگرآج سب خواب بن گیاہے) اِسی لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاوالے دھرنے والوں کی خبروں کے لئے بھنورے کی طرح منڈلاتے پھرتے تھے،اِس دوران برقی اور کاغذی صحافت سے وابستہ بہت سوں نے اپنی صحافت کی ہاو ¿س جاب دھرنوں میں ہی مکمل کی اور بڑے نام کمائے ۔غرض یہ کہ آج بھی بہت سے ہیں۔جو پی ٹی آئی کے نام پر کما رہے ہیں۔ اور میڈیاہاو ¿سز کے مالکان اپوزیشن والوں کی چٹکی کے اشاروں پر ناچ کر اپنا دال دالیہ چلارہے ہیں۔یقین جانیے کہ آج اگر پی ٹی آئی کی حکومت نہ ہوتی تومیڈیامالکان کی پانچوںانگلیاں گھی میں اور سرکڑاہی میں ہوتا،میڈیا مالکان نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر برسرِ اقتدار جماعت کو بدنام کرنے کے لئے صحافیوں کو بے روزگار کرنے کا ڈھنگ ڈھونڈ نکالا ہے ،ایسا یہ تب بھی کرتے؛ جب اِن کے چہیتوں(نواز شریف یا زرداری) کی حکومت آجاتی کیوں کہ اِنہیں ایسا ہی کرنا تھا ۔جیسا یہ آج اپنے میڈیا ورکرز کے ساتھ(اِنہیں بے روزگار) کرکے رہے ہیں ۔اگر آج یہ ایسا نہ کرتے توکب کے بہت سوںکے چولہے ٹھنڈے پڑچکے ہوتے ،مگر اِس کے باوجود بھی کئی ایسے ہیں۔جو آج بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف زہر اگل کر اِسے ناکام بنا نے کے لئے اپنی کاوشوں میں مگن ہیں۔

پاکستان تحریک اِنصاف کی قسمت میں اقتدار لکھا تھا؛ سو اِسے حکمرانی مل گئی ہے اور اللہ نے عمران خان کو سرزمین پاکستان کا وزیراعظم بنا نا تھا آج وہ اللہ کے حکم اور اِس کی مرضی سے وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوگئے ہیں،جن کاکل بھی مشن مُلک کو کرپشن اور کرپٹ عناصر سے پاک کرناتھا اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا، دُعا ہے کہ وزیراعظم عمران خان مُلک کو کرپشن اور کرپٹ عناصر سے پاک کرنے والے عزم پر قائم رہیں اورکامیاب ہوں آج ساری پاکستا نی قوم کی دُعائیں اِ ن کے ساتھ ہیں۔ابھی پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آئے چند ماہ ہی گزرے ہیں، جِسے اندازہ نہیں تھا کہ قومی خزانہ اِنتہاکا خالی ملے گا،پہلے والے مُلکی معیشت کو زمین بوس کرگئے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں مُلکی کرنسی کی بے توقیری تو پچھلی حکومت کے دور سے ہی شروع ہوگئی تھی۔

بس آج پی ٹی آئی کی حکومت اِس سلسلے کو تو دل پر پتھررکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی گناہ ِ صغیری ٰسمجھ کر اداکررہی ہے۔ تاکہ پچھلے والوں کو احساس ہوکہ یہ سب اُنہی کا کیا دھرا ہے کہ طاقتور ڈالر کے سامنے پاکستانی کرنسی کی حالت زخموں سے چُور کسی ادھ مرے جیسی ہو گئی ہے ،خاکم بدہن جو کسی بھی وقت سفرآخرت پرروانہ ہو نے کو ہے، مگر قوم حوصلہ رکھے اِسی حکومت میں مُلکی کرنسی میں ضرور استحکام آئے گا اور یہ عالمی منڈی میں پوری طاقت کے ساتھ نمودار ہوگی اوراپنے پیروں پر کھڑی ہوگی۔ آج ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کے بے قدری کی ذمہ دارسابقہ حکومت ہے جس نے جاتے ہوئے مُلکی کرنسی کی قدر اتنی گھٹادی کہ ابھی تک اِس میں استحکام نہیں آسکا ہے، جس کی بنیاد پر سیاسی عدم استحکام کا پیدا ہونالازمی قرار دیاجارہاہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی حکومت کے مقابلے میں اِس سال میں درآمدات کم برآمدات بڑھ گئیں ہیں ، رواں حکومت کی معاشی حکمتِ عملی دیرپاثابت ہورہی ہے اِسی طرح آئی ایم ایف نے بھی پاکستانی معیشت کو سہارادینے اور اِس میں استحکام لانے کے لئے پوزیشن بدل لی ہے یقینا جس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران اور اِن کی حکومت کو جاتا ہے ، جیسا کہ وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے بھی کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے قریب آگئے ہیں ، معیشت ڈینجرزون سے باہر آرہی ہے ٹیکس نہیں بڑھے گا، بجٹ میں ٹیکس نظام آسان بنا ئیںگے، سات ماہ میں تجارتی خسارہ دوارب ڈالرکم ہوا روپے کی بے قدری کا فائدہ آئندہ پانچ ماہ میں نظرآئے گا ، وزیراعظم عمران خان اور حکومتی وزراءلاکھ مُلک اور قوم کے لئے بہتر پالیساں بنالیں ۔مگر یہ افسرشاہی کے بے جا مشوروں سے اجتناب برتیں تو اچھا ہے ورنہ؟۔(ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com