تحریر : محمد ریاض پرنس اس وقت ہر والدین کی خواہش ہے کہ اس کے بچے اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کریں ۔پاکستان میں تقریباً 70فیصد والدین اس وقت اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم سے آراستہ کروانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ مگر وہ ناواقف ہیں کہ پرائیویٹ سکولوں کے اندر تعلیم کا معیار کیا ہے ۔آج وہی لوگ کامیاب ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں جو گورنمنٹ کے سکولوں سے پڑھ کر آگے نکلے ہیں ۔اس کی وجہ کیا ہے کہ اب والدین گورنمنٹ سکولوں کی بجائے پرائیویٹ سکولوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس کی اس وقت بڑی وجہ یہی ہے کہ گورنمنٹ سکولوں میں پرائمری حصہ تک تعلیم کا کوئی معیار نہیں اس لئے کہ جو نصاب پرائیویٹ سکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے وہ نصاب اور گورنمنٹ سکولوں کے نصاب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پاکستان بھر میں پرائیویٹ سکولوں کی بارش برس رہی ہے۔ ان سکولوں کا مہنگا ترین نصاب جو ہر بچے کے والدین کے بس کی بات نہیں۔مگر وہ والدین کریں تو کیا۔ پرائیویٹ اداروں نے اپنا ہی نصاب رائج کیا ہوا ہے ۔ جو ہر بچے کی پہنچ سے دور ہے ۔اس مہنگے ترین نصاب کے اندر وہ مواد بھی موجود نہیں جس سے بچے کی اچھی تعلیم مکمل ہو سکے۔ اس نصاب کے اندر اپنے ہی ادارے کی ایڈورٹائزمنٹ کو رواں دواں رکھا گیا ہے پرائیویٹ ادروں کے اندر وہ نصاب نہیں پڑھایا جا رہا جس کی اس وقت بچوں کو ضرورت ہے ۔ اس مہنگائی اور بے روزگاری کے دور میں بچوں کو تعلیم دلوانا نہایت ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پرائیویٹ سکولوں میں جو نصاب پڑھایا جا رہا اس سے ہم کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔ پرائیویٹ سکولوں میں ہم اپنی قومی زبان اردو کو بھول چکے ہیں بس انگلش انگلش ہو رہی ہے۔ جس زبان میں ہم کو ترقی کرنی چاہئے تھی اس کو ہم بھولتے جا رہے ہیں ۔گورنمنٹ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے کیا کچھ نہیں کر رہی مگر افسوس کے اس کے رزلٹ ابھی بھی صفر ہیں ۔گورنمنٹ کے سکولوں میں ابھی میٹرک پاس ٹیچروں کی بھرمار ہے ۔جو اس جدید دور کی تعلیم سے ناواقف ہیں ۔اس لئے تعلیم کا معیار گیر رہا ہے۔جب تک نظام تعلیم اور نصاب یکساں لاگو نہیں ہو سکتا اس وقت تک تعلیم کے میدان میں ہم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ چاہئے ہم کتنے اقدامات کرلین۔
Governemtn vs Private School
گورنمنٹ سکولوں کے اندر تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے جومنصوبہ بندی کی جارہی وہ اس قابل نہیں کہ اس معیار کو بہتر کر سکے ۔اس لئے حکومت کو چاہئے کہ اگر تعلیم میں ترقی کرنی ہے اور اس کے معیار کو بہتر بنانا ہے تو تمام ادروں میں نصاب کو یکساں طور پر لاگو کیا جائے ۔آخر حکومت کو نصاب یکساں لاگوں کرنے میں دقت کیا ہے ۔آپ سب جانتے ہیں کہ جہاں پر فری میں سب کچھ مل رہا ہو ۔ہم پاکستانیوں کی یہ عادت بن گئی ہے کہ ہم وہاں سے کچھ بھی نہیں لیں گے ۔اور جہاں سے لکھوں کا ٹیکہ لگ رہا ہووہاں سے ہم خوشی سب کچھ خرید لیں گے۔
گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں میں یہی فرق ہے کہ گورنمنٹ سکولوں میں سب کچھ فری اور پرائیویٹ سکولوں میں ہر ماہ ہزاروں کا ٹیکہ ۔اس لئے تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہم میں کوئی شعور نہیں رہ گیا ہم دیکھا دیکھی لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں ۔ کسی کا منہ لال دیکھ کر ہم اپنا منہ خود مار لال کر لیتے ہیں ۔دوسروں کے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں دیکھ ہم بھی یہی سوچ لیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بچوں کو یہاں ہی پڑھائیں ۔ہماری سوچ اس وقت کس طرف جا رہی ہے۔
ہر ماہ ہزاروںکی فیسیں ہم ادا کرتے ہیں ۔کبھی ہم نے پرائیویٹ سکولوں کی فیسیوں کے بارے میں احتجاج کیا ہے اگر پٹرول ایک روپیہ مہنگا ہو جائے تو اسمبلیوں میں اس کے خلاف بل پاس ہو جاتے ہیں ۔ کیا ہمارے سیاستدان ایوانوں میں بیٹھ کر یہ سب کچھ ہی کر رہے ۔ کبھی پرائیویٹ سکولوں اور ان کے مہنگے نصاب کے بارے میں بھی کوئی بل پاس ہو ا ہے۔
Petrol
پیٹرول مہنگا ہو جائے تو ہم ہٹرتال ،روڑ بندکر دیتے ہیں ۔ پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں ہر سال ہزاروں میں بڑھتی ہیں ان کے بارے میں کون کیا کر رہا ہے ۔اس کے بارے میں کسی کے اندر کوئی سوچ نہیں اس لئے کہ ایوانوں میں بیٹھے ہمارے سیاستدان بھی ان پرائیویٹ سکولوں کے حصہ دار ہیں اس لئے وہ سب یہ نہیں چاہتے حکومت کو چاہئے کہ پرائیویٹ سکولوں کی بڑھتی ہو ئی فیسوں کو عام آدمی کی پنچ تک لایا جائے ۔ اس لئے کہ ایک پلے گروپ کے بچے کی فیس دوہزار روپے سے اوپر ہے جو ادا کر نا ہر والدین کے بس کی بات نہیں۔
پرائیویٹ سکولوں کی رنگیاں ،روشنیاں اور فن فیئر پروگرام دیکھ کر کیا لگتا ہے کہ یہاں تعلیم کا معیار بہتر ہو گا کبھی بھی نہیں اس لئے کہ یہ اب لوگوں نے کاروبار بنا لیا ہے ۔ سکولوں کے اندر ہر روز نئے نئے پروگرام میوزیکل، فن فیئر ایکٹی ویٹیز کے ذریعے ہم بچوں کو کون سی تعلیم دے رہیں ۔جس تعلیم کی ہم کو اس وقت اشد ضرورت ہے اس تعلیم سے ہم دور ہوتے جا رہے ۔ ہمارے سکو لوں میں مذہبی تعلیم کے لئے کیا کیا جار ہا ہے ۔ کبھی کسی نے مذہبی تعلیم کے بارے میں سوچا ہے ۔بس سب دنیاوی تعلیم کے پیچھے پاگل ہوئے ہوئے ہیں ۔جس کا دنیا کے اندر بھی کچھ فائدہ نہیں اور آخرت میںبھی اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
حکومت نے اگر پرائیویٹ سکولوں اور گورنمنٹ سکولو ںمیں یکساں نصاب تعلیم لاگو نہ کیا تو ہم کبھی ایک اچھی قوم اور کبھی بھی اچھے معمار پیدا نہیں کر سکیں گے ۔اس لئے حکومت معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے ٹھوس اقدامات کرے ۔تاکہ ہم پاکستان کے مستقبل کے لئے ا چھے معمار پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔