ہر زمانے کے حکمران اپنی رعایا کو اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں، جو رعایا کو صحیح طرح جینے بھی نہیں دیتے اور مرنے بھی نہیں دیتے ہیں،جن کی کوشش ہوتی ہے کہ عوامی مسائل اور پریشانیوں کے حل کے دعوے اور وعدے تو بہت کئے جا ئیں۔ مگر کام ایک فیصد کیا جائے۔اِسی لئے حکمران رعایاکو مہنگائی، ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا، بھوک، عدم تحفظ، دہشت گردی، لوٹ مار ، غیر یقینی پن اور نااِنصافی کا شکار کئے رکھتے ہیں۔حکمران نہ کل عوام سے مخلص تھے نہ آج ہیں۔ اور نہ ہی آئندہ ہوں گے۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر عوام کے سارے مسئلے مسائل اور ساری پریشانیاں حل ہوگئیں؛ تو پھر یہ اپناسیاسی چورن کیسے بیچیں گے؟ اِن کی کون چوتیاں سیدھی کرے گا؟ سیاستدان کس کے پیچھے مہنگائی کا بم باندھیں گے؟ کون اِن کے لئے زندہ باد اور مخالف کے لئے مردہ باد کے نعرے لگائے گا؟ سوچیں، جب حکمران سارے عوامی مسائل حل کردیں گے؛ تو پھر کیا اِن کے ہاتھ ” گھنٹہ“ اور ’ کدو“ آئے گا ؟آج اِسی لئے تو حکمران عوام کی پریشانیاں اور مسائل حل نہیں کرتے ہیں ۔سو فیصد یقین ہے کہ حکمران چاہتے ہیں کہ عوام مسائل اور پریشانیوں میں ہی جکڑے رہیں۔ تاکہ ان کی حکمرانی اور سیاست کی دال دلیہ چلتی رہے۔ ہمارے دیس پاکستان میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کا یہ طریقہ ہے کہ اپنا پیٹ پہلے بھرو بھلے سے عوام بھوک و افلاس سے مرتے ہیں؛تو مرتے رہیں۔ مگر اپنی توندیں بڑی رکھ کر حکمرانی کئے جاو ¿۔
مُلک میں مہنگائی اور تنخواہ دار طبقے پر نئے ٹیکسوں کا طوفان لئے اگلا بجٹ 2019-2020آنے کو ہے،مگراِس سے قبل آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پیٹرول 14.37روپے ، ڈیزل 4.89روپے ،مٹی کا تیل 7.46روپے اور لائٹ ڈیزل 6.40روپے بڑھانے اور مہنگی کرنے کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کی ۔تاہم پیٹرولیم ڈویژن نے انتہائی غور و خوض کے بعدحکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا۔اَب عوامی کم مگر حکومتی مفادات کا خاص خیال رکھتے ہوئے، پیٹرولیم ڈویژن نے کچھ دِنوں تک پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا پروگرام موخر کردیا ہے ،ورنہ بجٹ سے پہلے مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والا تباہ کن طوفان مُلک میں برپاہوگیاہوتا۔
جبکہ اُدھرحکومت کے نہ ، نہ کرنے کے باوجود بھی پاکستان ، آئی ایم ایف میں چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام پر مذاکرات شروع ہیں،تو وہیں لگے ہاتھوں حکومت کوآئی ایم ایف نے چار ارب کے نئے ٹیکس لگانے کا مشورہ بھی دے دیاہے۔جس پر حکومت نے تُرنت من وعن عمل کرنے اور اِسے عملی جامہ پہنانے کا آئی ایم ایف سے وعدہ کرلیاہے۔کیا پہلے ہی پاکستانی قوم پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا عذاب کچھ کم ہے ؟جسے پھرمزید مہنگائی اور ٹیکسوں کے پہاڑکے بوجھ تلے دفن کرنے کے لئے آئی ایم ایف، حکومتِ پاکستان کو اضافی ٹیکسوں کا مشورہ دے رہاہے۔یقینا دس مئی سے حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین چھ ارب قرض کے لئے شروع ہونے والے مذاکرات پریشان حال پاکستانی عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہوں گے۔ایسا لگتاہے کہ جیسے پاکستان اور آئی ایم ایف میں چولی دامن کا ساتھ ہوگیاہے، اگرپاکستان، آئی ایم ایف کو یا کبھی آئی ایم ایف ،اِسے چھوڑنابھی چاہئے تو یہ دونوں کے لئے مشکل ترین عمل ہوگا،کیوں کہ آئی ایم ایف ، پاکستان کی مجبوری اور آئی ایم ایف کے کاروبار کے لئے پاکستان بڑی منڈی اور مارکیٹ کی حیثیت اختیارکرگیاہے۔
اگرچہ، حکومت کے دعوے اور وعدے تو بہت ہیں کہ اگلے بجٹ میں عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دِلانے کے اقداما ت ترجیحات میں شامل ہیں،اِس کے ساتھ ہی ایک حکومتی توقع اوردعوی یہ بھی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان آزادتجارتی معاہدوں سے اگلے پانچ سال میں چین کے لئے پاکستانی برآمدات ساڑھے چھ ارب ڈالرتک بڑھ جائیں گی۔جس سے قوی اُمید ہے کہ پاکستان میں مالیاتی خسارہ اور زرمبادلہ کے ذخائر پربڑی حد تک دباو ¿ کم اور ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی اور مُلکی معیشت استحکام کی جانب گامزن ہوگی۔
چلیں ، مان لیتے ہیں کہ پاکستان اور چین سے کاروباری مراسم بڑی حد تک استحکام بخش ہورہے ہیں۔ اور اِس سے آنے والے دِنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں چین کے لئے پاکستانی برآمدات سے اربوں ڈالرآئیں گے۔جو کہ بیشک ، ہماری موجودہ بوسیدہ معیشت کو سہارا دینے کے لئے خوش آئند ہے۔ اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ حکومت دعویٰ کررہی ہے تو پھر پاکستان اورآئی ایم ایف کے مابین چھ ارب ڈالر کے تین سال کے قرضہ پیکچ کے لئے دس مئی سے مذاکرات کاآغاز کس سلسلے کی کڑی ہے؟کیا حکومت قوم کو دیدہ دانستہ آئی ایم ایف کا غلام بنا ئے رکھنا چاہتی ہے ؟حکومت آئی ایم ایف سے جان کیوں نہیں چھڑالیتی ہے ؟کیوں آئی ایم ایف ٹیم نے من پسند ہمارے نئے وزارتِ خزانہ،ایف بی آر حکام سے ملاقات میں، ٹیکس ہدف میں 6کھرب روپے اضافے کا عندیہ دیاہے؟گیس اور بجلی کی قیمتیںبڑھانے کا حکومت کو کس لئے کہا ہے ؟جس پر وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر حکام نے اگلے مالی سال کے دوران ٹیکس ہدف حاصل کرنے اور بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کی عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کو یقین دہانی بھی کرادی ہے۔
آج حکومت کشکول اُٹھا کر قرضوں کی بھیک مانگنا بھی چاہتی ہے؛ اور اپنی خودداری پر آنچ بھی نہیں آنے دینا چاہتی ہے ،سوچیں کہ بے شرمی اور غیرت کی دوکشتیوں پر سوار حکومت عوام کو کیسے آنے والے بجٹ میں نئے ٹیکسوں سے نجات دِلاسکتی ہے ؟جب کہ یہ عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے چھ ارب ڈالرکے تین سال کے قرضہ پیکچ کے لئے 6کھرب روپے اضافی ٹیکس کے ہدف حاصل کرنے کا وعدہ بھی کرچکی ہے۔ہاں البتہ، حکومت ایسا کرسکتی ہے کہ مہنگائی اور بے جا ٹیکسوں کا طوفان لئے جو اگلابجٹ آئے گا ؛ اِس کے بعد جب غریب عوام بھوک و افلاس کے ہاتھ آغوش قبر میں جا سوئیں گے۔ تو حکومت اگلے بجٹ میں ٹیکس کی مدد میں بیری کے پتے، چٹائی ، چکنی مٹی اور مردے کے کان اور ناک میں لگائی جانے والی روئی کو ٹیکس سے اسثنی قرارٰ دے دے تو یہ بھی حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا ورنہ ؟ آئی ایم ایف نے اِن پر بھی ٹیکس لگانے کا حکومت کو مشورہ دیاتو پھر یہ اشیابھی ٹیکس کے زمرے میں آجائیں گیں۔آج شاید میرے مُلک میں یہی اشیا ہیں۔ جن پر ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔مگرکب تک؟؟(ختم شُد)