لیجئے ۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے باضابطہ طور پر اپنا پہلا مہنگائی اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں سے بھرپور بجٹ 2019-2020پیش کر دیا ہے۔ جس پر حزبِ اختلاف کی جانب سے شدید تنقیدوں کے زہریلے نشتر چلائے جارہے ہیں۔ ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی جانب سے کئی دِنوں سے شورشرابے اور چیخ وپکار کا ایک نہ ختم ہونے والا مقابلہ جاری ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ کھینچاتانی اور ہنگامہ آرائی کے ماحول میں حکومت کا پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری کرانا ایک مشکل اور کسی بڑے چیلنج سے کم کام نہیں ہے۔ مگر پھر بھی حکومت پُرعزم ہے کہ یہی بجٹ واضح اکثریت سے پارلیمنٹ سے منظورکرالیاجائے گا اور اِس میں اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کی بھی بڑی تعداد شامل ہوگی ۔جو پی ٹی آئی کے پہلے بجٹ کو منظور کرانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
بہر کیف ،جیسا کہ پچھلے دِنوں وزیراعظم عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ ” کابینہ ارکان بجٹ منظوری کی ٹیشن سمیت اپوزیشن کی کسی بلیک میلنگ میں نہ آئیں،اینٹ کا جواب پتھر سے دیں،لوٹ مار میں ملوث عناصر پروڈکشن آرڈر کے مستحق نہیں ، کرپشن کیسز میں اندر ہونے والے سیاسی قیدی نہیں جرائم پیشہ افراد ہیں“ وغیرہ وغیرہ جس کے بعد سے پارلیمنٹ مچھلی بازار سے بھی بدتر صورت حال کا منظر پیش کررہاہے،جِسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے ابھی تک ہم 21ویں صدی میں تو کیا؟ 15ویں صدی میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں۔ جیسا آج ہمارے ایوانوں میں تہذیب وتمدن اور سیاسی تدبر اور بردباری کا شیرازہ حکومت او رحزبِ اختلاف کی جانب سے بکھیرا جارہاہے اور جمہوریت کا جنازہ دھوم دھام سے روزانہ نکالا جارہاہے۔ ایسا تو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا ہے۔مگر میرے دیس پاکستان میں سب چلتا ہے۔
جمہوری پنڈٹ جمہوریت کی بالادستی اور پاسداری کی آڑ میں جمہوریت کی عزت کو خود ہی تار تار کررہے ہیں ۔جِسے دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ جیسے آج جمہوریت بغیر لباس کے پارلیمنٹ میں اپنی عزت بچاتی پھر رہی ہے۔ مگر جمہوریت کے رکھوالے ہی تالیاں بجا بجا کر اِسے اپنی ذاتی اور سیاسی مفاداتی لڑائی میں بے پردہ کرکے اِس(جمہوریت) کی بے عزتی اور لاچارگی کا تماشہ بنتا دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔
اِس موقع پر راقم الحرف کو یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہورہی ہے کہ آج پارلیمنٹ میں جمہوریت کی بدنامی کا باعث جمہوریت کی مالا جپنے والے ہی اِس کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہورہے ہیں۔جورتجگے کرکے پارلیمنٹ میں گالم گلوچ کے لئے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ اور اگلے روز پارلیمنٹ کو مچھلی بازار بنا رہے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ آج جتنی رات دن کی محنت سے یہ سیاسی بازی گر ایوان میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے لئے ہوم ورک کرکے آتے ہیں۔ اگر اتنی توجہ اور محنت یہ لوگ عوامی مسائل کے حل کے لئے کرتے تو پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے پیش کئے گئے بجٹ 2019-2020پر خوشدلی سے بحث شروع ہوجاتی اور کوئی مثبت نتیجہ نکل چکاہوتا ؛مگر بڑے دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہاہے کہ آج نہ حکومت کو عوام سے کوئی دلچسپی ہے۔ اور نہ اپوزیشن عوامی مسائل کے حل کرنے کے لئے مخلص دِکھائی دیتی ہے۔ستر سال سے پرانے حکمرانوں اور سیاستدانوں(سابقہ حکومتوں) نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطر قومی خزانے سے جیسی لوٹ مار کی ہے یہ اِنہی کا کیا دھرا ہے کہ آج مُلک قرضوں کے بوجھ تلے دب کرچکنا چُور ہوگیاہے۔
آج جس کی آہو فغاں کوئی سُننے والا نہیں ہے۔ یہ سابق حکمرانوں اور سیاستدانوں اور اِن کے چیلے چانٹوں کی تیزاب گردی جیسی لوٹ مار ہے کہ جس کی وجہ سے مُلکی خُوبصورتی ، عوام کی خوشحالی اور معاشی استحکام سمیت ہر شعبے ہائے زندگی اور قومی اداروں کا چہرہ مسخ ہوکررہ گیاہے۔ قومی خرچے سے ایوان تک جانے والے ہمارے حکمران اور سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت کرکے ساتھ چلنے کو تیارہی نہیں ہیں، اپوزیشن جماعتوں کے اراکین مُلک اور عوام کی خیرخواہی کا نعرہ لگا کر اصل میں احتسابی مراحل سے گزرتے سیاستدانوں کو بچانے کے لئے مُلک میں انارکی پھیلانے سے لے کر ہر حد تک جانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جس کا مُلک موجودہ حالات میں متحمل نہیںہوسکتاہے۔
حالانکہ سب جانتے ہیں کہ آج جو قومی اداروں کی گرفت میں ہیں ؛ اور کڑے احتسابی عمل سے دوچار ہیں۔(یا جو آنے والے دِنوں، ہفتوں اور مہینوں میں احتسابی اداروں اور قانون نافذ کرنے والوں کے ہتھے مزیدآنے اورپکڑے جانے والے ہیں ) اِن کے ساتھ قومی احتسابی ادارے جو کچھ کررہے ہیں یا کریںگے؛ وہ سب سو فیصد درست ہوگا۔ مگر پھر بھی احتجاج کرنے والوں کی پارٹی پالیسی یہی ہے کہ قومی خزانہ بیدریغ لوٹ کھاکر بھی اپنے رہنماوں کی بے گناہی کا اتنا پرچار کیا جائے کہ ہمارے رہنماءاور کارکنان قومی چور ہو کر بھی اِنہیں کوئی چور نہ کہے ۔اِسے کہتے ہیں۔ چوری اُوپر سے سینہ زوری۔ معاف کیجئے گا،آج اگر جھوٹ بولنے ، قومی خزانہ لوٹ کھا کرڈکار یں لینے اور دنیا بھر میں کرپشن کا ریکارڈ توڑنے کا مقابلہ ہوتا؛تو سب سے زیادہ انعامات اور ایوارڈز ہماری اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قومی کرپٹ رہنماو ¿ں، سیاستدانوں ، کارکنان اور مُلک کے حکمرانوں اور اِن کی اولادوں کو ہی ملتے ۔
تاہم پاکستانی قوم خاطر جمع رکھے اور حکومت سے پُر اُمید رہے کہ وزیراعظم عمران خان خطروں اور خطرات سے کھیلنے کے کھلاڑی ہیں۔یہ تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکسوں کی بھرمار اور مُلک میں غریب عوام پر مہنگائی کا طوفان نازل کرنے والے حالیہ بجٹ کی منظوری کی آزما ئش اور کڑے امتحان والے مراحل سے بھی کامیابیوں سے نکل جا ئیں گے۔ کیوں کہ وزیراعظم عمران خان کا مصمم ارادہ ہے کہ یہ طاقتورترین قومی لٹیروں نواز و زرداری اور اِن کے چیلے چانٹوں اور حواریوں کو نہیں چھوڑیںگے۔اور وزیراعظم اپنے اِسی عزم و ہمت کے سہارے قومی لٹیروں کا کڑااحتساب کرنے اور اِن سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔جیسا کہ وزیراعظم تہیہ کرچکے ہیں کہ اَب یہ ستر سال سے باری باری آنے والے کرپٹ عناصر سے مُلک و عوام اور معیشت کوبچائیں گے اور اِن سے پہنچنے والے نقصانات کے باعث مُلکی خوبصورتی جو ماند پڑچکی ہے اور عوام کی خوشحالی پرجو گہن لگاہواہے اورجیسا مُلکی معیشت کا ماضی میں کرپٹ حکمرانوں نے بیڑاغرق کیااَب اِس مسخ شدہ مُلکی چہرے کی سرجری کرکے مُلک ،عوام اور معیشت کی خوبصورتی دوبارہ بحال کرنے کے لئے بہتر انداز سے کرپشن سے پاک پاکستان کے چہرے کی سرجری کی جائے تو ہمارا مُلک کرپشن کے داغ دھبوں سے پاک ایک نیا پاکستان بن جائے گا۔ (ختم شُد)