میرے پھوپھا جان کہا کرتے تھے انسان ساری زندگی بچہ ہی رہتا ہے بس سر عام ناک نہیں پونچھتا، رفع حاجت مخفی طور پر کرتا ہے۔سچ پوچھیں تعلقات میں نرمی گرمی روٹھنا راضی ہو جانا بچپن کا ہی چلتا رہات ہے۔میرا اپنا خیال ہے جب تعلقات پرکھیں تو کوشش کریں اچھی باتیں یاد رکھی جائیں۔میں اپنے دوست اپنے سینئر ساتھی کے بارے مٰں یادیں تازہ کر رہا ہوں۔
گزشتہ روز سی پی این ای (کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز) کے میڈیا کنونشن میں جناب ضیاء شاہد کو تیسری بار لائف ٹائم ایوارڈ دیا گیا جو ان کے صاحبزادے امتنان شاہد نے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عارف الرحمن علوی نے دیا۔میں سب سے پہلے جناب ضیاء شاہد اور پوری فیملی کو اس اعزاز کی وصولی پر مبارک باد دیتا ہوں۔فون پر چیف صاحب سے بات بھی ہوئی۔سنا کرتے تھے اکھیاں والیو اکھیاں بڑی نعمت ہیں اس بات کا احساس تین ماہ پہلے ہوا جب شوگر کی زیادتی اور بلند فشار خون کی تیزی کے اشتراک سے ایک آنکھ کی دنیا پر حملہ کیا لوگوں کو دن میں تارے نظر آتے ہیں ہمیں اس وقت داہنی آنکھ سے یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ دن ہے کہ رات۔اس موضوع پر کبھی لکھوں گا کہ کس بدبخت اور رو سیاہ سے ملا اور کیا باتیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ہم اندھیر نگری میں چلے گئے ۔اسی وقت یہ احساس بھی ہوا کہ اللہ نے دو آنکھیں کیوں دیں اور دو گردے کس لئے دیے۔
ضیاء شاہد سے کوئی ربع صدی کا تعلق ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔اللہ پاک انہیں لمبی عمر دے۔خ،یدہ کمر اور بڑھاپے کی جانب مائل ضیاء شاہد کو جب میں نے دیکھا تو آتش جوان ہی نہیں سوپر ڈوپر جوان تھا ہم بھی شعلہ ء جوالہ تھے اور ضیاء صاحب بھی کمال کے گھبرو تھے۔جدہ میں ایک اردو اخبار جس کا تعلق لاہور سے تھا کے نمائندے کی اپنی ترجیحات تھیں ہم سوشل ورک میں کسی سے پیچھے نہ تھے لیکن نوے کی دہائی میں پرنٹ میڈیا ہمارا نہ تھا ۔ہم جتنی بھی سرگرمیاں کرتے وہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا والی بات ہوتی۔جدہ میں مقیم پاکستانیوں کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ صحافت ان لوگوں کے پاس رہی جو کسی نہ کسی حد تک کراچی کی ایک لسانیت پرست جماعت کے یاتو حمائتی یا آلہ کار۔پاکستانی سیاست کے وہ سال ذہن میں رکھئے جب بوری بند لاشون کے تحفے سمندری شہر سے پہاڑوں اور میدانوں کی جانب بھیجے جاتے تھے ۔لندن میں بیٹھا شخص تھوڑی مدت کے لئے جدہ میں بھی رہا۔کوئی خبر جو پاکستان دوست کی ہوتی اسے ایک گروہ گول مول کر جاتا۔یہ لوگ پاکستانی حکومت کے نمائندوں کو گھیر لیتے۔کراچی سے آئے ہوئے عبداللہ شاہ کو کلاسیک ریستورینٹ میں گھیر لیا گیا۔ایسے میں خبریں ہوا کا خوشگوار جھونکا تھا میں نے عبداللہ شاہ مرحوم کو ریاست کے اندر ریاست کے دشمنوں کے خلاف ایکشن لینے پر مبارک باد دی تو پورا گروہ ہی میرے خلاف ہو گیا کچھ اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ وہاں کے عرب نیوز سعودی گزٹ اور پاکستانی اخبارات کے نمائندے تھے بھلا ہو چودھری شہباز حسین کا جنہوں نے معاملہ دبا دیا۔
یہ لسانیت پرستوں اور پاکستان پرستوں کی لڑائی کا آغاز تھا جس میں میرا ساتھ دینے والوں میں ملک محی الدین سر فہرست رہے خبریں کو اٹھانے میں ریاض بخاری،عنائت جاڑا،ولیم کے ڈی۔فاروق جاوید کا بڑا ہاتھ تھا جدہ کے صحافیوں نے بڑے مزے کئے انہوں نے اپنی نالئق اولادوں کو نوکریاں دلوائیں حج کے ٹھیکے لئے اسکولوں کے نام پر کاروبار کئے۔یہ جھولی چکوں کا ایک گروہ تھا جس سے خبریں نے لڑائی لڑی اگر ضیاء شاہد جیسے لوگ کمیونٹی کا ساتھ نہ دیتے تو پاکستانی دب کے عہ جاتے۔قونصلیٹ پر چھاپے بھی خبریں ہی کا کام تھا۔بد دیانت صحافی کیا کچھ کر سکتا ہے اس کا تصور محال ہے۔وہاں ایک سیایس پارٹی کے لیڈر کے بیٹے نے ایک لڑکا قتل کر دیا اس خبر کو چھپا دیا گیا اس سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے۔حاجی لٹے رہے صحافی منہ بند کئے رہے لیکن جب خبریں میدان میں آیا تو مولانا عبدالستار نیازی سے شکائتیں کیں اور اس وقت کے ڈاریکٹر حج کی چھٹی ہوئی۔
خبریں نے ظلم کے خلاف جو لڑائی سعودی عرب سے لڑی اس نے بڑے نامیوں کی ہوا سرکائی۔یہی وجہ تھی کہ اخبار مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی بک جاتا۔سازشی عناصر کہاں خاموش رہتے انہوں نے وار چلائے۔لیکن اللہ کے کرم سے جو لڑائی لسانت پرست سنپولیوں کے خلاف خبریں جدہ نے شروع کی اسی کا علم عمران خان کے ہاتھ آیا جب عمران خان ١٢ مئی کے واقع پر میدان میں کودے تو میں اس وقت پاکستان آ گیا تھا۔یہ خبریں کے ضیاء شاہد کا تعاون اور سر پرستی تھی جس نے ہمیں آمریت سے ٹکرانے کی ہمت دی،مورچے ہارنے کے بعد میں ہمیں اللہ نے کامیابی تھی ظالم منہ چھپتا ہے اور اللہ مظلوم کو سرفراز دیتا ہے۔١٩٩٥ میں ہم نے اس اخبار کی نمائیندگی کا اعزاز تھاما۔ہمیں یہ بتایا گیا کہ ضیاء شاہد بلا کے مقرر اور کمال کے لکھاری ہیں جو جلدہ عمرے کی ادائیگی اور روضہ ء رسول پر حاضری کے لئے پہنچنے والے ہیں۔ہمیں بڑی خوشی ہوئی کے دو بڑے اخبارات میں ایک تیسرا اخبار سر نکال رہا ہے اور اس کا سر خیل ہمارا مہمان بننے والا ہے۔حلقہ ء یاران وطن جو ہماری تنظیم تھی ہم نے اس کے زیر اہتمام ایک تقریب کا اہتمام کرایا۔اللہ خوش رکھے فردوس ہوٹل جدہ کے لالہ سرفراز کا جو تنظیم کے ممبر تھے ان کے ہوٹل پر تقریب رکھ دی۔جناب ضیاء شاہد کو پہلی بار بولتے سنا۔اس تقریب کے اہتمام میں انجمن گجراں جدہ کے دوستوں شبیر گجر،صوفی منظور،خبریں ریڈرز فورم کے چودھری فاروق جاوید،برادر خورد سجاد چودھری شعر بہت سے ساتھیوں کا ساتھ ملا یہ تقریب اس شہر کے پاکستانی حلقوں کی یاد گار تقریب تھی۔
خبریں کے ضیائ شاہد اور پاکستان کے وزیر اعظم کی ایک لحاظ سے مماثلت ہے کہ خبریں نے بھی اس وقت کے دو اردو اخبارات کے درمیان سے سر نکالا جس وقت تصور کرنا نا ممکن تھا کہ لاہور اور کراچی سے نکلنے والے ان کثیر الاشاعت اخبارات کے ہوتے ہوئے کسی تیسرے اخبار کی گنھائش ہے۔بعین جناب قائد تحریک عمران خان نے جب پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی تو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری تھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بے نظیر اور نواز شریف کے ہوتے ہوئے کسی تیسرے بندے کی گنجائش ہے کہ وہ سر اٹھا سکے۔بائیس سالہ جدو جہد کا نتیجہ ہے کہ تحریک انصاف کامیابی کے پائیدانپر کھڑی ہے اور خبریں تو مدتوں پہلے یہ کامیابیاں طے کر چکی ہیں۔میرے نزدیک اپنی اپنی دنیائوں کا نمبر ون ہونا ہی سب سے بڑا چیلینج ہے۔خبریں جدہ نے دو بڑے اخبارات کو پچھاڑ ڈالا۔
حی البوادی کے نامانوس ایریا میں فردوس ہوٹل کی بالائی منزل بہت سے لوگوں کی میزبانی کا شرف حاصل کر چکی ہے۔مجھے لکھنے دیجئے کہ حلقہ ء یاران وطن اور خاص طور پر میرے ان مہانوں کی اولین فہرست میں جناب ضیاء شاہد تھے۔کیا وقت تھا شام ہوتے ہی عزیزیہ محلے کے کبابش ایریا کی دوکانوں پر خبریں دیکھنے پہنچ جاتا۔اپنی فیکس پر بھیجی گئی خبروں کو صفحہ ء اول کی زینت دیکھ کر دل خوشی سے نہیں سمتا اخبار تین ریال کا تھا خبر بھیجنے میں ایک صفحے کے آٹھ ریال لگتے تھے ۔اپنے دفتر کی فاکس سے خبریں بھیجتا اور مہینے کے آخر میں بل ادا کر دیتا جو بعض اوقات دو اڑھائی سو سے زیادہ تجاوز کر جاتا یاد رہے ان دنوں یہ بڑی رقم ہوتی تھی۔
افطار سے پہلے تقریب کا آغاز ہوا جناب غلام اکبر نیازی(اسلام آباد میڈیل کالج کے اونرجو بھارہ کہو میں ہے)وہ بھی مہمان مقرر تھے سٹیج پر جماعت اسلامی مدینہ کے جہانگیر خالد مغل،مسلم لیگ ن کے صدر ارشد خان مرحوم،پیپلز پارٹی کے صدر چودھری شہباز حسین(فواد چودھری کے انکل) بیٹھے ضیاء شاہد نے اپنے تفصیلی خطاب میں مسلم لیگ کے قبضہ گروپوں کو جھمجوڑا مجھے یاد ہے جب انہوں نے کہا کہ اگر ہم زرداریوں کی چھینا جھپٹی کے خلاف ہیں تو ہم مقصود بٹوں کے قبضوں پر کہاں خاموش رہ سکتے ہیں۔جہاں ظلم وہاں خبریں کے بینر تلے اس منعقدہ اس تقریب کو لوگوں نے برسوں یاد رکھا یہ خبریں جدہ کی کامیابی کی ابتداء تھی۔کسی بھی شخص ادارے کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے تعلق ہونا یہ نہ ہونا اپنی جگہ ہے لیکن احترام کا جو رشتہ جناب ضیاء شاہد اور ان کی فیملی کے ساتھ ہے وہ اپنی جگہ ہے۔میں نے تعلقات کبھی ٹوٹنے نہیں دئے ۔سیاسی سوچ اپنی جگہ لیکن زندگی میں جس سے تعلق رکھا اسے زندگی بھر رکھنے کی قسم کھائی یہی وجہتھی جب دلدار کی بارات لے کر فلیٹیز ہوٹل گیا تو بارات کے مہری لوگوں میں جناب ضیاء شاہد،مجیب الرحمن شامی،فرید پراچہ شامل تھے اور یہی لوگ میرے بڑے بھائی چودھری امتیاز کی جگہ میرا ساتھ دے رہے تھے۔
تیسری بار ایوارڈ ملنا اعزاز کی بات تو ہے ہی میں اپنی بیماری کی وجہ سے اس تقریب میں نہیں جا سکا لیکن ایوارڈ دینے والے اور وصول کرنے والے میرے اپنے تھے۔جن دنوں پی ٹی آئی رینگ رہی تھی سپر مارکیٹ اسلام آباد کے قریب دفتر میں سردیوں کی دوپہر کو کینو کھلانے والے انجیئر افتخار کے دھوپ سینکتے کرنل یونس رضا،علی زیدی اور عارف علوی میں ایک جناب عارف الرحمن علوی امتنان شاہد کو ایوارڈ دیتے ہوئے بہت اچھے لگے۔اللہ کبھی کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا کراچی کا ایک ڈینٹست اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ سی ای سی کی میٹینگ میں اراکین کو اس انہماک سے بریفینگ دیتا جس سے محسوس ہوتا اسے بھی تبدیلی کے سورج طلوع ہونے کا اتنا ہی یقین تھا جتنا میرے قائد عمران خان کو۔
کامیابی کے زینے طے کرنا مبارک ہو۔مجھے یہ علم ہے کہ پاکستان کے تین صدور نے جناب ضیاء شاہد کو یہ اعزازت دئے ان میں جنرل مشرف دوسرا جناب نواز شریف اور تیسرا ایواڈ بدست عارف علوی ملا ہے۔سی پی این ای نے اپنے اندر سے لوگوں کو نوازنے کی جو کاوش کی ہے یہ گراں قدر ہے۔اور قابل ستائش بھی اس کے لئے میں ہمالیہ ء صحافت حمید نظامی کے فرزند عارف نظامی کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔عارف صاحب کو جب بھی ملتا ہوں ایک احترام کی نظر سے اس لئے کہ وہ ایک عظیم شخص کے فرزند ہیں جو درویش لیڈر اور اپنے مقام سے محروم لیڈر چودھری رحمت علی کے پرستار تھے۔پاکستانی صحافت اور خاص طور پر پرنٹ میڈیا اس وقت الیکٹرانک میڈیا کی دہشت گردی کا شکار ہے جہاں وہ لوگ بھی صحافی بن کر بیٹھ گئے ہیں۔
جو کتابچہ کو کتا بچہ پڑھتے ہیں اور اردو کی ٹانگ ہی نہیں گردے فیل کر دیتے ہیں۔اس مطالبے کی تو بھرپور مدد کروں گا کہ بھارت کی طرح یہاں کاغذ بنانے کے کارخانے قائم کئے جائیں اس مسئلے کو اگر مناسانداز سے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس اہم کام کو انجام دے دے۔مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان میں کاغذ بنانے کے کارخانے جو کبھی مشرقی پاکستان میں تھے انہیں نئے سرے سے قائم کیا جائے۔کسی کو کرنا فلی پیپرز ملز کا علم ہو گا یہ متحدہ پاکستان کے ایک حصے جسے اب بنگلہ دیش کہا جاتا ہے وہاں یہ کارخانہ ملکی ضروریات بنانے کا کام کرتا تھا ۔اس سے جڑی ایک اور بات بھی بتا دوں کہ اسی کارخانے کی مشینری جب بنگلہ دیش بنا تو کلکتہ منتقل کر دی گئی۔بنگلہ دیش پھر نئے جذبے سے اٹھا اور اس نے ٹیکسٹائل اور پیپز انڈسٹری میں دنیا میں نام پید اکیا۔لہذہ سی پی این ای کا یہ مطالبہ جائز ہے۔
پرنٹ میڈیا کے چیلینجز انتہائی اہم ہیں پی ٹی آئی کی حکومت جمہوریت کے محاسن سے زیادہ اس کی قباحتوں کا شکار ہے اور ایسے میں اس کا کرپشن کے خلاف ایجینڈہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک پرنٹ میڈیا کی معاونت نہ کی جائے۔مجھے پورا یقین ہے کہ شام ہوتے ہی ککڑ لڑانے کی جو مشق الیکٹرانک میڈیا پر جاری ہے اور قوم کی شعوری کیفیت کو بیمار کر رہی ہے۔اگر پرنٹ میڈیا کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں حکومت ذہن سازی کا کام با آسانی اخبارات سے کرا لے گی۔سی پی این ای کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے جناب ضیاء شاہد کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔