تحریر : جاوید ملک مجھے کیوں نکالا کی گردان کرتے کرتے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر دیس سدھار گئے ہیں اور یہ ہماری سیاسی تاریخ کا شاید اچھوتا اور منفرد دور ہے کہ حکومت وقت سڑکوں پر ہے اور انصاف نظام کے کولہو میں پیلنے والے بے کس و بے بس عام لوگ نہیں مانگ رہے بلکہ اس بار بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ انصاف کے طلب گار خود حکمران ہیں ۔ ایک طرف تو عوامی سینٹر سمیت ہر اس جگہ آگ کے شعلے دکھائی دے رہے ہیں جہاں حکمرانوں کی من مانیوں کی کوئی داستان موجود ہے۔نندی پور پاور پروجیکٹ ، ایل ڈی اے ، میٹرو بس پروجیکٹ کے بعد اب سی پیک کا ریکارڈ بھی شعلے نگل گئے ہیں خادم اعلی پنجاب ایک بار پھر سینہ ڈھونک کر ڈیٹول سوپ سے دھلے ہوئے اپنے کارناموں کے اجلے پن کا ڈھنڈورا پیٹ سکتے ہیں ۔
اگر چہ بہ ظاہر شاہد خاقان عباسی حاکم وقت ہیں لیکن نظام پولیو زدہ دکھائی دے رہا ہے ۔ ہر محکمہ میں غفلت اور کوتاہی کی ایسی ایسی کہانیاں سانس لیتی دکھائی دے رہی ہیں کہ الامان و الحفیظ ۔ زرعی بارانی یونیورسٹی راولپنڈی میں عرصہ دراز سے وائس چانسلر کی سیٹ کیلئے دھینگا مشتی جاری ہے ۔
حکمران خاندان اپنے لاڈلوں پر نوازشات کے معاملہ میں کسی قاعدے قانون کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں جامعہ پنجاب کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران بھی کرسی سے چمٹ ہی گئے تھے اور چھوٹے میاں کی تھپکیوں کے بعد کس میں جرأت تھی کہ وہ ان کا بال بھی بیکا کرسکتا ان کی مدت ملازمت میں باربار انتہائی بے شرمی سے توسیع کی گئی فریادی آخر کار ہائی کورٹ پنجاب پہنچ گئے اور پھر ایک تاریخی فیصلے کے بعد مجاہد کامران کو بوریا بستر باندھنا پڑا ورنہ پنجاب حکومت تو انہیں تاحیات وائس چانسلر بنانے پر تلی بیٹھی تھی ۔ حد یہ ہے کہ زرعی بارانی یونیورسٹی میں بھی وہی تاریخ دوبارہ دہرائی گئی وائس چانسلر فیصل آباد اقرار خان کو ہائی کورٹ نے گھر بھیجا تو اصولاً وائس چانسلر راولپنڈی رائے نیاز کو باعزت طریقے سے چلا جانا چاہیے تھا کہ دونوں کا معاملہ یکساں تھا مگر وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنی نشت سے جڑے رہے حتیٰ کہ عدالت کو ایک بار پھر مداخلت کرکے انہیں سرخ جھنڈی دکھانی پڑی مگر وہ تاحال عہدہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں اور جواز یہ ہے کہ تحریری فیصلہ آنے تک وہ اپنے عہدے پر قائم دائم ہیں ۔ اصل کہانی یہ ہے کہ جس بااثر صوبائی وزیر کے وہ چہیتے ہیں اور جس کے دم پر انہوں نے چار سال یونیورسٹی میں لوٹ مار کا بازار گرم رکھا وہ اس کوشش میں ہیں کہ ان کو توسیع دلوادیں یا کم از کم ڈاکٹر ثروت نازمرزا جو ان کے بعد سینئر موسٹ ہیں کا پتہ کاٹ کر کوئی ایسا وائس پانسلر تعینات کیا جائے جو ان کے ماضی کے کارناموں کو شعلوں کا کفن دے سکے ۔
تعلیمی اداروں کو ذاتی مفادات کی سولی چڑھانا حکمرانوں کی پرانی عادت ہے ہر ادارہ اس معاملہ میں غفلت کو وطیرہ بنائے ہوئے ہے ۔ وفاقی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں کو مثالی بنانے کیلئے موجودہ حکومت نے فنڈز کی بھر مار کردی اور یہ ایک احسن قدم تھا پہلے منصوبے میں دو سو تعلیمی اداروں میں کام زور وشور سے جاری ہے اور مزید دوسو تعلیمی اداروں کو بھی اسی طرز پر مثالی ادارے بنانے کا منصوبہ زیر غور ہے لیکن درو دیوار پر پیسہ پانی کی طرح بہانے والے مناسب تعداد میں اساتذہ اور دیگر عملہ کی تعیناتی کے اہم معاملہ پر چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔ انتہائی ضروری سٹاف کی قلت پر جو نشستیں مشتہر ہوتی ہیں ان پر تعیناتی کیلئے موزوں امیدوار کے چناؤ کا عمل فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی نا اہلی کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے۔
ڈپٹی ہیڈ ماسٹر /ہیڈ مسٹریس کی خالی اُنتالیس آسامیوں کو مئی 2016ء میں مشتہر کیا گیا ۔ فروری 2017ء میں حتمی انٹرویو بھی لیئے گئے مگر تاحال حتمی نتیجہ جاری نہیں کیا گیا اگر خالی اسامیوں پر تعیناتی کیلئے فیڈرل پبلک سروس کمیشن سوا سال لگا دے تو تعلیمی انقلاب کے دعوؤں کی حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ان کارناموں پر ان سے پوچھ گچھ کس نے کرنی ہے مجھے معلوم نہیں کیونکہ کیونکہ حکومت وقت تو امور مملکت سے بے پرواہ ہو کر احتجاج پر ہے۔