تحریر : کامران غنی صبا سرکاری اسکول میں تقریباً چار برس کی ملازمت کے دوران مجھے یہاں کے تعلیمی نظام کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بالعموم قومی سطح پر اور بالخصوص ریاستی سطح پر تعلیمی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ہر چند کہ حکومت کی طرف سے ماہرین تعلیم کے مشوروں کی روشنی میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن یہ کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہو پاتیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت اور محکمہ تعلیم کی طرف سے جو منصوبے بنائے جاتے ہیں وہ کسی مخصوص خطے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی اسکیم پورے ملک یا کم سے کم ایک پوری ریاست میں نافذ ہوتی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر خطہ کے سماجی، تہذیبی اور جغرافیائی حالات کا جائزہ لینے کے بعد نظام و نصاب تعلیم بنایا جاتا۔ بہار کے تمام اضلاع کا نصاب تعلیم (درجہ اول تا انٹرمیڈیٹ) ایک ہے۔ کس مہینہ میں کون سا سبق پڑھانا ہے، یہ پہلے سے ہی طے ہوتا ہے۔ اس دوران کئی اضلاع میں سیلاب، شدید گرمی اور سرد لہر کی وجہ سے اسکول بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اسکول کھلنے کے بعد اساتذہ اپنے طور پر نئے سرے سے ”منصوبۂ اسباق” بناتے ہیں۔ایسی صورتوں میں گائڈ لائن نہیں ہونے کی وجہ سے درس و تدریس کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
پرائمری اور اپر پرائمری سطح کے اساتذہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایک ہی جماعت میں مختلف ذہنی سطح اور معیار کے بچوں کو پڑھانا ہے۔ حق تعلیم ایکٹ (Right to Education Act 2009) کے مطابق طلبہ کی ذہنی سطح چاہے جیسی بھی ہو اسے اس کی عمر کے مطابق ہی جماعت میں رکھنا ہے۔ اسے نہ تو فیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایک ہی جماعت میں ایک سال سے زیادہ روک کر رکھا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً طلبہ میں احساس ذمہ داری بیدار نہیں ہو پاتا۔ ASER-2012 کی رپورٹ کے مطابق بہار میں پانچویں جماعت کے پچاس فیصد سے زائد بچے دوسری جماعت کی نصابی کتابیں بھی نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بہار میں ہی درجہ پانچویں تک کے ساٹھ فیصد طلبہ دو ہندسے کا ضرب اور تقسیم بھی نہیں جانتے ہیں۔ ایسی حالت میں ایک استاد کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ آدھے گھنٹے کی کلاس میں وہ اُن بچوں پر توجہ دے جو نصاب کے مطابق پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا اُن بچوں پر اپنی توجہ مرکوز کرے جن کی ذہنی سطح کافی کمزور ہے اور جو اپنی جماعت کی کتابیں سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟؟ یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ سرکاری اسکولوں میں دفتری اور کاغذی کاموں کا بوجھ اس قدر ہوتا ہے کہ اساتذہ چاہ کر بھی پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ اپنا فرض منصبی ادا نہیں کر پاتے۔
سرکاری اسکولوں میں ایک بڑا مسئلہ اساتذہ کی تعداد ہے۔ یہ سچ ہے کہ نتیش حکومت میں بڑے پیمانے پر اساتذہ بحال کیے گئے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں اب بھی اساتذہ کا فقدان ہے۔وہاں اکثر اسکولوں میں اتنے بھی ٹیچر نہیں ہوتے کہ ہر جماعت میں ہمہ وقت ایک استاد موجود رہ سکے۔ نتیجتاً زیادہ تر اسکولوں میں دو دو، تین تین جماعت کے بچوں کو ایک ساتھ بیٹھا کر پڑھایا جاتا ہے۔
حق تعلیم ایکٹ(RTE) کے مطابق درجہ اول تا ہشتم کے سبھی طلبہ و طالبات کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ہی ریاستی حکومتیں درجہ اول تا ہشتم کے طلبہ و طالبات کو کتابیں اور یونیفارم فراہم کرتی ہیں لیکن اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ سیشن گزر جانے کے بعد بھی بچوں کو نہ تو کتابیں ہی دستیاب ہوتی ہیں اور نہ ہی یونیفارم۔اساتذہ کی طرف سے اگر کہیں کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو مقامی سطح کی ”اسکول کمیٹی” سے لے کر بلاک اور اعلیٰ سطح کے آفیسر تک متحرک ہو جاتے ہیں لیکن یونیفارم اور کتابوںکی عدم فراہمی، اساتذہ کی کمی، وقت پر تنخواہ نہ ملنا جیسے بے شمار مسائل جن کے لیے حکومت اور محکمہ تعلیم کے افسران ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔
سرکاری اسکولوں میں خاص طور پر پرائمری سطح کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی معقول نظم نہیں ہے۔ اکثر اسکولوں میں پرائمری سطح کے بچوں کی کلاس میں ڈسک اور بنچ تک نہیں ہوتے ہیں۔ بچوں کو زمین پر بیٹھا کر پڑھایا جاتا ہے۔ وہی بچے جب اپنے آس پاس کے ان بچوں کو دیکھتے ہیں جو پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، تو ان کے اندر احساس کمتری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ سرکاری اسکول کی کتابیں بھی پرائیوٹ اسکول کی کتابوں کی طرح رنگین اور جاذب نظر نہیں ہوتی ہیں۔پرائمری سطح کے بچوں کو پڑھانے کے لیے اساتذہ کی بھی وقتاً فوقتاً تربیت ہوتی رہنی چاہیے لیکن ان کی تربیت کا بھی کوئی نظم نہیں ہے۔
مرکزی اور ریاستی حکومتیں اگر واقعی تعلیمی نظام کو بہتر بنانا چاہتی ہیں تو انہیں ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل بنانا ہوگا لیکن افسوس کہ سرکاری اسکولوں کو اب تک تجربہ گاہ کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے ، ایک ایسی تجربہ گاہ جہاں کے بیشتر تجربے ناکام ثابت ہوتے ہیں۔