تحریر : رقیہ غزل تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے، ‘ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ” ۔کمزوری اور بے بسی زندگی کا ایک حقیقی روپ ضرور ہے مگر اسے مقدر قرار دینا عین جاہلیت ہے اور ایک عرصے سے مسلم اقوام کا یہ المیہ ہے کہ طاقتور کے ظلم و ستم پر بے بسی کی تصویر بنے آسمان سے فرشتوں کی جماعت کے اترنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں بریں سبب اسے آفت الہی اور مقدر سمجھتے ہوئے نہ ہمت کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی متفقہ حکمت عملی اپناتے ہیں بلکہ نا موافق حالات میں یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جیسے ”عوام ویسے حکمران”۔ ۔یہ ہمارا مقدر اور مکافات عمل ہے کہ جب نا امیدی سوچ پر غالب آجائے تو ناکامی مقدر ہو جاتی ہے یہی جہ ہے کہ آج ملکی حالات چیخ چیخ کریہ کہہ رہے ہیں کہ
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
بدقسمتی سے زہرہ بھی اسی اندھیر نگری چوپٹ راجا کی بے بسی اور بے حسی کی نذر ہو گئی ہے اس کے نیم مردہ جسم کو دیہات سے شہر کے ہسپتال تک اس امید پر لایا گیا تھا کہ وہ بچ جائے گی مگر ہائے ری غربت ۔۔اس کے میلے کچیلے بدبو دارکپڑوں،بکھرے دیہاتی تیل سے اٹے ہوئے بالوںاور چہرے سے برستی فاقہ مستی کودیکھ کر ہسپتال انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ یہ زندہ رہے یا مر جائے اس سے کیا فرق پڑتا ہے اور اسے ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر ٹھٹھرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا کہ اتنے بڑے ہسپتال میں اس کے لیے ایک بستر بھی میسر نہ ہوا اور وہ صبح تک زندگی اور موت کی کشمکش سے نکل کر اس دار فانی کو خیر آباد کہہ گئی بے شک یہ موت امارت کے شیدائی اور بے حس معاشرے کے منہ پر عبرت ناک طمانچہ ہے۔۔! وائے افسوس کہ اس پر کسی کوبھی ترس نہیں آیا۔۔بالکل بھی نہیں ۔۔لیکن۔۔ آسمان ضرور رویا ہوگا ۔۔زمانے والو دیکھ لینا ۔۔! یہ دنیا مکافات عمل ہے اسکے ذمہ داران بچ نہیں پائیں گے کہ اقتدار اعلیٰ کے حقیقی مالک نے تو سب دیا تھا اور انہی افلاس زدہ بد نصیبوں نے تو ووٹ دیکر منتخب کیا تھا کہ امیر تو ووٹ ہی نہیں دیتا یہی بیچارے لوگ ہیں جو مسیحا ئی کی تلاش میں ہر بہروپیے پر اعتماد کر لیتے ہیں مگر کبھی کیڑے مکوڑوں کی طرح مسلے جاتے ہیںاور کبھی تنکوں کی طرح سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔
اس المناکی پر کسی نے غربت کا نوحہ لکھا تو کسی نے حکمرانوں کی غفلتوں کو اچھالا کسی نے معاشرتی بے حسی کا ماتم کیا تو کسی نے ہسپتالوں کی حالت زار کو موضوع بنایا اور ہمیشہ کی طرح وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے اس ایم ایس کو معطل کرنے کا حکم دے دیا کہ ہمیشہ سے یہی ہوتا آتا ہے اور یہی ہوا مگر کسی سربراہ کی طرف سے یہ بیان نہیں آیا کہ آج کے بعد اگر ایسا واقعہ ہوا تو عبرت ناک سزا دی جائے گی ہسپتالوں کو کوئی ایسی وارننگ جاری نہیںکی گئی جو کہ غریب کے دردو غم کا ہمیشہ کیلے مداوا کرسکے کہ آئندہ سے کوئی یوں اپنی جان نہ گنوائے یہی وجہ ہے کہ گذشتہ روز زچگی کی حالت میں ایک خاتون پھر اسی بے حسی اور غفلت کا شکار ہوگئی۔محو حیرت ہوں کہ لاپرواہی اور غفلت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اورایسے ہولناک واقعات کا مسلسل رونما ہونا تعجب کی بات ہے۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ایسا تب ہوتا ہے جب آخرت کا خوف دلوں میں نہ رہے کیونکہ جنھیں یقین تھا وہ تو راتوں کو گھر گھر جا کر دیکھتے تھے کہ کہیں کوئی بھوکا تو نہیں رہ رہا اور اسے فاقہ کشی سے بچانے کے لیے اپنے کاندھے پر آٹے کی بوری اٹھانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے تھے اور حضرت عمر فاروق نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگرفرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسامرگیا تو روز محشر عمرسے اس بارے پوچھ ہوگی یعنی حساب طے ہے مگرادراک ناپید ہے کیونکہ ہو س کا میل کانوں میں اور مفادات کی پٹی آنکھوں پر بندھی ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے لرزہ خیز واقعات معمول بن چکے ہیں۔
Jinnah Hospital
اگر ہم گذشتہ تین برسوں میں ہسپتال انتظامیہ کی بے حسی ،سفاکیت ،غفلتوں کا سرسری جائزہ لیں تو ہم ششدر رہ جاتے ہیں کہ ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج اور بے حسی کثیر تعداد میں قیمتی جانیں نگل گیا اور اکثر و بیشتر مریض ڈاکٹرز کی غفلت اور ڈھٹائی کا شکار ہوئے اگر ہم ماضی کے دریچوں میں زیادہ دور نہ جھانکیں صرف گذشتہ دو سال کا ہی جائزہ لے لیں تو 2015 میں دس بچے وینٹی لیٹر کی خرابی اور مشینوں کے خراب ہونے کیوجہ سے جاں بحق ہوئے ، کئی خواتین کو اصرار کے باوجود داخل نہ کیا گیا کسی نے سیڑھیوں پر بچے کو جنم دیا تو کسی نے گاڑی اور رکشہ میں اور کئی تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں مگر انتظامیہ سمیت ڈاکٹرز کی بے حسی برقرار رہی کہ کل پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہے اس کے علاوہ بھی مشینوں میں خرابی کیوجہ سے مریض پریشان اور پرائیوٹ مافیا کے ہاتھوں لٹنے اور ڈاکٹروں کی ملی بھگت پر مبنی منفعت پسندی کے لالچ کی بناء پر مجبور رہے ملاوٹ شدہ ادویات کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی کثیر تعداد ہے مگر اس مد میں بھی کوئی قابل قدر حکمت عملی نہیں اختیار کی گئی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے سختی سے احکامات ہیں کہ ہسپتال کی صفائی سمیت تمام چیزوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے مگر افسوس میاں صاحب کو خوشامدی چمٹے ہوئے ہیںاور ٹیم اچھی نہیں ملی یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام مخلصانہ سرگرمیاں انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں اور ہمیشہ ہی سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر جو کہ مسیحا کہلاتا ہے وہ اس مقدس پیشے سے مخلص کیوں نہیں ہے ؟ ظاہر ہے کہ اکثرو بیشتر ڈاکٹرزاپنے پرائیویٹ کلینک کھول رکھے ہیں اور مزید برآں وہ ادویات بنانے والی کمپنیوں سے بھی کمیشن کھاتے ہیں ،مختلف پیکجاور وزٹ سہولتیں لیتے ہیں اسی لیے وہ مریض کی تشخیص بھی ہسپتالوں میں دلجمعی سے نہیں کرتے اور نہ اچھی ادویات لکھتے ہیںحالانکہ نئی بننے والی گھوسٹ کمپنیاںجعلی ادویات تیار کر رہی ہیں مگر ہنوز خاموشی برقرار ہے کیوں ۔۔آخر کیوں ؟ڈرگ ایکٹ 1976کس لیے ہے ؟ جعل سازوں کے خلاف کاروائی سے دانستہ گریز کیوں کیا جاتا ہے ؟ایسی کون سی مصلحتیں ہیں جو کہ ہمیں انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف آپریشن کرنے سے روکتی ہیں اسی ڈھیل کیوجہ سے فارمیسی کی صنعت تیزی سے پھیل رہی ہے اور انسانی قاتل اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیںحتہ کہ سوشل میڈیا پر بھی ادویات کی ہوم ڈیلیوری عروج پر ہے الغرض موت کا جال ہر طرف پھیلا ہے مگر لا علمی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیاجا رہا ہے بریں سبب کرتا دھرتا کی مصلحت پسندی اور خاموشی دیکھتے ہوئے معاشرہ بھی سناٹے میں آچکا ہے یہاں تک کہ اپنے ہوش و حواس کھو چکا ہے ایسے میں معاشرتی بے حسی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ مہنگائی میں افراط و تفریط سمیت معاشی اور معاشرتی مسائل نے عوام الناس کو جکڑ رکھا ہے۔
دوسری طرف امن عامہ اور بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی وعدوں اور دعووں کی حدتک ہے یہی وجہ ہے کہ آئے روزخودسوزی اور قتل و غارت گری کے واقعات دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں کسی مد میں تو بہتری کی بات ہو کہ مردہ مرغیاں ،کیمیکل زدہ سبزیاں ،ملاوٹ شدہ مصالحے ، کہیں کلاشوں کو محفوظ کرنے والا کیمیکل ملادودھ ، کہیںکپڑے دھونے والا سوڈا ملا دودھ ، غلاظت ملا گٹر کا پانی ،مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے تیار شدہ کوکنگ آئل ،جعلی ادویات ،ہسپتالوں کی ویسٹ سے بنے ہوئے فیڈر اور بوتلیں ،گدھے کا گوشت الغرض نمائشی اقدام کے علاوہ کوئی اچھا کام آپ ہی بتا کہ تعریف کے ڈونگرے برسائے جائیں ایسے میںمثبت تنقید کو ترقی اور جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اصلاح سمجھنا چاہیئے کہ جنھوں نے رکاوٹ سمجھا تاریخ کے مئورخ نے ان کا ذکر اچھے الفاظ سے نہیں کیا کہ ترک صدر طیب اردگان کا طرز حکومت سب کے سامنے ہے کہ کیسے فوج کے اثرو رسوخ کو کم کرنے سے لیکر اخبارات کی بندش کے علاوہ ہر مخالف کو رستے سے ہٹا دیا گیا ہے کہ ان کی شہرت داغدار ہو چکی ہے اس لیے اختلاف رائے کو اہم گردانتے ہوئے کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اورنج ٹرین ، میٹرو کے ساتھ ساتھ چند ہسپتال ہی بن جاتے تو آج کتنے دل دعا دیتے مگر شاید حکومت کے لیے دعا دینے والے ہاتھ کسی کو نظر نہ آتے کیونکہ اس قوم کو تودکھاوا لے ڈوبا ہے۔
آج کل حکومت فیتے پہ فیتہ کاٹ رہی ہے لیکن عوام پریشان اور خوار ہیں ۔اگر آپ دیکھ سکتے ہیں تو جابجا وڈیرہ شاہی کے ہاتھوں عزت لٹانے والی بیٹیوں کو دیکھے ، اس عورت اور اس کے شوہر کو دیکھے جس پر زمیندار نے کتے چھوڑ دئیے ، ان مائوں کو دیکھے جن کے جوان بیٹوں کی لاشیں جعلی شربت اور دوائی پینے سے ہوئی ،ان بچوں کی مائوں کو دیکھے جنھوں نے اپنے جگر گوشوں کو تیار کر کے اسکول بیجھا تھا مگر ریلوے انتظامیہ کی غفلت سے ان معصوموں کی لاشیں گھر پہنچیں ، اس باپ کو دیکھے جس نے اپنے پانچ بچوں کو زہر پلا کر خود بھی پی لیا کہ اب بھوک نہیں لگے گی ،کاش !آپ دیکھ سکتے !کہ لٹی بیٹی کی رپورٹ درج کروانے جو باپ تھانے میں گیا اس کو کیسے دھتکار دیا گیااور اس بیٹی نے کیسے تھانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی کاش! آپ دیکھ سکتے! کاش! آپ ان چیخوں کو سن سکتے! کاش آپ اس درد کو محسوس کر سکتے! مگر کیسے کہ آپ کا تودل بھی گھبرائے تو آپ امریکہ چلے جاتے ہیں اور یہاں کوئی مسائل کاذکر کرے تو اسے سڑکوں کاجال دکھایا جاتا ہے مزیداسے غدار قوم کاٹیگ لگا دیا جاتا ہے مگر ذرا سوچیں! کہ جب دیکھنے والے ہی نہیں رہیں گے تو آپ کے جال کس کام آئیں گے کہ اگر زہرہ کا جرم واقعی غربت ہے تو اس کی حالت نہ بدلنے کے قصوروار آپ ہی تو ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ” حکمران جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے لگیں تو وہ ملک و قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے۔