تحریر : شہزاد سلیم عباسی بچپن میں ہمارے ذہن و قلوب کو نفرت زدہ بنانے کے لیے این جی اوز کے نام کو غیر ملکی طاقتوں کا مسلم ریاستوں کے خلاف گٹھ جوڑقرار دیاگیا ۔ این جی اوز کو صرف اور صرف مغربی تہذیب اور ثقافت کے پھیلائو کے مخفی ایجنڈا سے تشبیح دی جاتی رہی۔ این جی او میں کام کرنے والوں کو ایجنٹ اور این جی او کے کنسپٹ کو اسلام کے مدمقابل شیطانی ہتھکنڈا قرار دیا گیا۔ لیکن آج منظرنامہ یکسر تبدیل ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ کچھ این جی اوز پرو ویسٹرن ہیں اور اپنے مخصوص عزائم کے ساتھ برسرپیکار ہیں مگر زیادہ تر این جی اوز ملک میں غربت ، جہالت اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں۔پرائیویٹ اداروں کا جامع سیٹ اپ عشروں پر محیط ہے ۔ گلوبلائزیشن وولڈ آرڈر میں این جی اوز کا کردار مسلمہ حقیقت ہے۔
ملکی حالات کے پیش نظر یہ این جی اوز ایجوکیشن، کمیونٹی سروسز، رفاہ ِ عامہ ، روڈ سیفٹی، ہیلتھ سمیت دیگر شعبوںمیںگراں قدر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔حکومتوں کی نالائقی اور نااہلی اور بے بسی کی وجہ سے پرائیوٹ ادارے خدمت انسانی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے تمام بڑے حکمرانوں کے دوہرے معیار کا یہ عالم ہے کہ ان کی جائیدادیں اور بینک بیلنسز یوکے اور یو ایس اے میں ہیں اور ان کے بچے بھی وہیں اپنے بہترین فیوچر کے لیے کوشاں ہیں ۔ بیچارے عوام کوبنیادی ضروریات زندگی مثلاََتعلیم ، صحت، صاف پانی اور روزگار وغیرہ سے محروم رکھا ہوا ہے۔ انسانیت نے کامیابی و کامرانی کے وہ زینے طہ کیے کہ مشرق ومغرب اورشمال وجنوب میں اقوام نے نہ صرف خوشیاں اور اپنے لیے آسائشیں سمیٹیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی بے پناہ ترقی ، مختلف النوع ایجادات اورگوناگوں تحقیقات نے انسانی نظر کو ہی چندیا کر رکھ دیا۔پھر ترقی اور آگے نکلنے کی دوڑ نے طبقاتی نظام وضع کر کے امیر اور غریب کے درمیان ایک لیکر کھینچ دی۔
بہرحال منافع بخش ادارے اور غیر منافع بخش ادارے دونوں ہی اپنے تئیں خدمت خلق میں جتے ہیں۔ فی الوقت کالم نگارکا موضو ع غیر منافع بخش ادارے (NPO’s)ہیںجو کہ خدمتِ خلق کا کچھ چارج نہیں کرتے بلکہ صاحب ثروت افراد کی مدد سے مستحقین کا سہارا بنتے ہیں۔یہ ادارے ملک و قوم کی ترقی میں ریڑھ کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک پاکستان کا گروتھ ریٹ بڑھانے ، کسی حد تک غربت کرنے اور لیٹریسی ریٹ بڑھانے میں کلیدی کردار اداکرتے ہیں ۔ چند فلاح و بہبود کے اداروں کے نام پیش خدمت ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن پاکستان ، مسلم ایڈ، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، سویٹ ہومز، ایدھی ہومز، صراط الجنہ ٹرسٹ، ایس اور ایس ویلج، وزڈم ٹرسٹ ،ویمن سوشل ویلفئیر آرگنائزیشن ، کاروان علم فائونڈیشن، آل پاکستان فائونڈیشن ، سیو دی چلڈرن، میک ا ے وش فا ئونڈیشن ، الفلاح اسکالر شپ اسکیم ،تعلیم فار آل ٹرسٹ، بیسٹ، رائیٹ ٹو پلے، اجالا فائونڈیشن ، عرفا کریم ٹرسٹ، امید پارٹنر شپ ، تعمیر ملت فائونڈیشن ،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی ،کڈنی سینٹر ، آغا خان، شوکت خانم ،رازی ہسپتال اوراخوت سر فہرست ہیں ۔
الخدمت فائونڈیشن کے صدر میاں محمد عبد الشکور کے مطابق الخدمت ڈیزاسٹر مینجمنٹ ، ہیلتھ سروسز، ایجوکیشن، صاف پانی، کفالت یتامی ، قرضہ حسنہ اورسماجی خدمات کے پروگرامات میں اب تک اربوں روپے لگا چکی ہے۔ الخدمت کے تحت قائم90 ڈائیگناسٹک سینٹر ز اور کولیکشن سینٹرز،16زچہ بچہ سینٹرز، 19 ہسپتال،171کلینکس، 265 ایمبولینسز،10 بلڈ بینک او8آغوش سینٹرز کے ذریعے سالانہ کروڑوں لوگ ان منصوبوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن کاقربانی پراجیکٹ سماجی خدمات کی ایک بہترین مثال ہے اور الخدمت فائونڈیشن ہر سال مصیبت زدہ ، پسماندہ اور شہری علاقوں کے عوام تک قربانی کا گوشت پہنچانے کا اہتمام کرتی ہے۔
قربانی مالی عبادت کے ساتھ ساتھ شعائر اسلام میں سے ہے۔ہر وہ مسلمان جو صا حب استطاعت یعنی صاحب نصاب ہو چاہے دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو اس پر قربانی فرض ہے۔ایک بات بہت اہم ہے کہ جب آپ جیب سے پیسہ دے رہے ہیںتوضرور چیک کریںکہ کیا وہ ادارہ آپکی رقم کا صحیح حقدار ہے ؟ اور آپکا پیسہ کہیں ملکی سا لمیت اور مفاد کے خلاف تو استعمال نہیں ہو رہا ؟ آئیے اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ مستحکم معاشرے کے قیام کے لیے فلاح وبہبود کے کاموں میں حصہ ڈال کر امید کی نئی شمع روشن کرینگے۔