مرکزی حکومت سندھ میں پیپلز پارٹی کا گورنر لانے میں دلچسپی رکھ رہی ہے، ناہید حسین

Karachi

Karachi

کراچی : اربن ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF)کے بانی چیرمین ناہید حسین نے کہاہے کہ مرکزی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کی ناقص کارکردگی کے باوجود سندھ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کا گورنر لانے میں دلچسپی رکھ رہی ہے اگر مرکزی حکومت نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو پھر کراچی میں موجود لاوا پھٹ پڑے گا جو شاید مرکز کو بھی ہلا دے لہذاٰ وہ اپنی مفاد پرستی دکھانے سے گریز کریں اور ملک و قوم کے مفا د میں غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں اس کے لئے ایسی شخصیت کا انتخاب کریں جو اہلیانِ کراچی کو قابل قبول ہو۔

کیونکہ پیپلز پارٹی کے گھپلے، کرپشن اور خون ریزی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ،لہذاٰ حکومت کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے سے گریز کرے اور خاص طور پر حساس ادارے بھی ان فیصلوں کو رد کردیں ورنہ کراچی آپریشن کے حوالے سے ان کی کارکردگی بھی مشکوک ہوجائے گی، کیونکہ متحدہ بھی ان کے حوالے سے جانبداری کے الزامات لگا رہی ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ مرکزی حکومت کی حمایت سے کراچی میں مزید عزیر بلوچ اور صولت مرزا نہ پیدا ہو۔

ویسے بھی قوم کو دونوں سیاسی جماعتوں پر بھروسہ نہیں ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارٹی کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،ناہید حسین نے مزید کہا کہ گزرے سات آٹھ برسوں کے دوران صوبہ سندھ خصوصاََ کراچی انتشار اور انارکی کا شکار رہا ہے ،پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا چیختے رہے حساس اداروں کی نشاندہی کے باوجود سندھ کے تمام وزراء ڈھٹائی سے اپنے عہدوں پر قائم رہے اور ملکی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے اور ان کی سنگت بھی جرائم پیشہ افراد سے وابستہ رہی جس کی طرف دبئی میں گرفتار عزیر بلوچ نے اشا رہ بھی کیا جس کی تصدیق سابق ام ۔این۔اے نبیل گبول بھی کر چکے ہیں۔

اگر اس کے باوجود بھی حکمران اپنی حکومت بچا نے کے لئے غلط فیصلے کرینگے تو پھر کچھ باقی نہیں رہے گا لہذاٰ شورش زدہ کراچی میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے فوج اور رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں،دنیا میں ہر چیز اقتدار اور روپیہ پیسہ نہیں ہوتی آخر عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے ،فیصلے اتنے بھونڈے اور غیر معیاری نہ ہوں کہ حکمران خود سب کی نظروں میں گر جائیں اور تنقید کا نشا نہ بن جائیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ اور سابق حکمرانوں نے عوام کو نظر انداز کر کے صرف اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی جو کہ جمہوریت نہیں بلکہ بدترین آمریت کہلاتی ہے اگر جمہوریت کے نام پر آمریت کرنا مقصود ہو تو پھر فوجی آمروں کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں ہزرہ سرائی کیوں کرتی ہیںاور آج بھی کررہی ہیں کم از کم فوج کے دورِ اقتدار میں بھتوں کی پرچیاں نہیں چلتی تھیں، اغواء برائے تاوان کے تحت لوگوں کو نہیں اٹھا یا جا تا تھا۔

ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوتی تھی، چوری ڈکیتی اور دہشت گردی کی وارداتوں کی تعداد اتنی نہیں ہوتی تھیں جسے یاد رکھا جا تا ہاں البتہ NRO کرنے کے بعد سیاستدانوں کا ساتھ دینے کی پاداش میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور وہ اس وقت قوم کے ہیرو تھے اور NRO کرنے کے بعد وہ قوم کے ہیرو سے زیرو بنے،کل بھی قوم فوج کے ساتھ تھی اور آج بھی ہے لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ملک کی دونوں بڑی سیا سی جماعتوں نے محض اپنے ذاتی مفادات کیلئے کبھی بھی جرائم کی حتمی سرکوبی کیلئے سخت اقدامات نہیں کئے۔

نتیجے کے طور پہ آج مادرِ وطن میں جرائم پیشہ ور افراد کا راج ہے،جس سے چھٹکارا پا نا ملک کے دفاعی اداروں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے اور وہ ان الزامات سے اپنی جان نہیں چھڑاسکتے انہیں ہر صورت میں اپنی ناقص پالیسیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔