ہم گھبرا سکتے ہیں؟

Inflation

Inflation

تحریر : ریاض احمد ملک

حکومت جوں جوں اپنی مدت پوری کرتی جا رہی ہے عوام کی پریشانیوں مصیبتوں میں بھی روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے آئے روز بجلی کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں گذشتہ روز ایک بار پھر ڈالر کی قیمت میں اضافے کی نوید سن کر غریب تو مر سا گیا مگر وہ لوگ جن کی تنخواہیں ڈالروں میں آتی ہیں خوشی سے پھولے نہ سمائے جا رہے ہیں آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں رونا آتا ہے لیکن جب کسی سے پوچھا جائے سڑکیں کیوں نہیں بنتیں جواب پچھلی حکومت کی کارکردگی ہے جناب پچھلی حکومت تو گئی ان کی جان چھوڑو یہ بتاو تم نے کیا کیا چینی ڈنل گھی ڈبل دالیں ڈبل گیس ڈبل پیٹرول ڈبل اس کے علاوہ سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں سوشل میڈیا پر بھی اب جو چند لوگ رہ گئے ہیں وہ بھی اب تو مشورہ مفت میں فراہم کر رہے ہیں کہ گھبرانا نہیں کیونکہ اگلے ٹینور میں عوام کو سہولیات ضرور دی جائیں گی۔

کچھ کی اپنی گھبراہٹ اتنی ہے کہ وہ لڑائی پر اتر آتے ہیں ویسے یہ جملہ ہمارے پیارے قائد محترم عمران خان کا ہے کہ گھبرانا نہیں سکون صرف قبر میں ملتا ہے یا وہ کیا غلط کہتے ہیں ہم کیوں گھبرائیں فاقے آئیں تو گھبرانا تو نہیں چاہیے آٹا نہ ملے تو گھبرانا نہیں چینی نہ خرید سکو تو گھبرانا نہیں گھی دالیں سببزیاں کھا کر کیا کرنا ہے اور سکون ؟ جہاں ملتا ہے اس کی تیاریاں کروں اب میں محترم عمران خان سے کہاں گا کہ راقم حروف کے پاس صحت کارڈ موجود ہے جسے میں گلے میں لتکائے چکوال کے ہسپتالوں میں مارا مارا پھرتا رہا علاج کہاں دستیاب ہے کس ہسپتال میں عوام کو بتایا تو جائے ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ وہاں علاج معالجے کی سہولیات کم ہی ہیں اور عوام کو پریشانی اور گھبراہٹ کے سوا کچھ دستیاب نہیں ہوتا غریب سے لیکر فیکٹری والا چھوٹے کاروبار سے لیکر بزنس مین سب پریشان ہیں اب یہ بتائیں کہ ایک مزدور جو پانچ سو سے سات سو کی دہاڑی لگاتا ہے وہ گھی خریدے چینی یا بچوں کے لئے آٹا آپ جب کینٹینر پر تشریف رکھتے تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ بجلی کے بل جلا دو بجلی مہنگی ہے اب یہ بتائیں کہ ہم بل جلا دیں یا ادا کریں اس مرتبہ واپڈا نے جو بل ہمیں دئیے ہیں۔

انہیں دیکھ کر تو ہم گھبرا رہے ہیں جناب ہم گھبرائیں یا نہیں میں بوچھال کلاں سے تعلق رکھتا ہوں اس کے لاری اڈا کی سڑک گذشتہ دس سالوں سے تباہی کا جو منظر پیش کر رہی تھی وہاں کے مکین برے حالات سے گزر رہے تھے میں اس بات کی طرف تو نہیں آوں گا کہ یہ سڑک کیوں نہ بن پائی یہاں ایک غریب سا مرد آہن نکلا گذشتہ الیکشن میں امیدوار صوبائی اسمبلی بنا مگر ہم ایسے لوگوں کو ووٹ کیوں دیں جن کا بیک گراونڈ کوئی نہ ہو وہ شخص چاہیے غریب کی خدمت ٹرسٹ سے چلا رہا ہو آپکے حقوق مانگنے کے لئے جان جوکھوں میں ڈال دے ہم تو ووت ایسے لوگوں کو دیتے ہیں جن کا بیک گراونڈ اچھا ہونا چاہے کام وہ کریں یا نہ کریں میں جس شخص کا تذکرہ کر رہا تھا۔

اس کا نام ملک نوید اختر ہے اس نے اپنی مدد آپ کے تحت سڑک بنانے کاعزم کیا مگر وہ سڑک کیوں بناتا روڑے ،،،،،،،؟پھر یہ کام جب رک گیا عوام کی مشکلات کو دیکھ کر ایک بار پھر وہ میدان میں نکلا ڈپٹی کمشنر چکوال سے درخواست کی جن کی مہربانی سے 12لاکھ روپے محکمہ ہائی وے کو ملے جس کا ٹینڈر ہوا اور کام شروع ہواہی تھا کہ کرونا نے ٹھکیدار کو آ لیا اور وہ جہان فانی سے رخصت ہو گیا میں تذکرہ کرتا چلوں کہ جب اس سڑک پر کام شروع ہوا تو بے شمار دعویدار نکل اائے کہ وہ کام کرا رہے ہیں جب کام بند ہو گیا تو وہ سب خواب خرگوش کے مزے لینے لگے عوام تنگ ہوئے تو انہوں نے میڈیا کہ زریئعے آواز اٹھائی تو کام شروع ہوا میں نے ڈپٹی کمشنر کا شکریہ ادا کیا تو ایک صاحب نے وہ انکشاف کیا کہ بس میں اسے جواب نہیں پایا بارہ لاکھ اگر ایم پی اے نے دئیے ہیں یا چوہدری سالک نے ہمیں شرم آنی چاہیے انہیں بارہ لاکھ ہی دینا تھے یا تنویر اسلم کے مقابلے میں سڑک بنانا چاہئے تھا اب میانی سے بوچھال اور کلر کہار سے میانی تک سڑک پر چلے جائیتو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے اب میں واپس آتا ہوں کہ ان تمام پریشانیوں کے ہوتے ہوئے ہمیں گھبرانے کی اجازت تو دے دیں یا جہاں سکون ملتا ہے وہاں پہنچانے کا اہتمام ہی کر دیں۔

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر : ریاض احمد ملک

03348732994
malikriaz57@gmail.com