تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری حکومتی ترجمان اور سرکاری حلقے ہمیشہ یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا کلہ بہت مضبوط ہے مگر ہمارے ہاں چونکہ اکثر انتخابی عمل سے نہیں بلکہ بیرونی عالمی سامراج حکمرانی کی منشاء کے مطابق ہی حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں “مجھے یاد ہے ذراذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یا د ہو “راتو ںرات سامراجی حکمرانوں نے شوکت عزیز نامی ایک بیرونی ملک کے بنک میں ملازم کو بھجوا کر وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیا تھااور ہم دیکھتے رہ گئے تھے اسے تحفظ دینے کے لیے کمانڈو جنرل اور وزیر اعظم تسلیم کرنے کے لیے مشرف کی بغل بچہ تنظیم ق لیگ پہلے ہی تیار بیٹھی تھی کہ ہمیشہ سے یہی ہوتاآیا ہے کہ حکمران لیگ “گھڑ گھڑا” کر اور تیار کرکے آمر کی آمد کی منتظر ہوتی ہے ایوبی آمریت کی کنونشن لیگ یحییٰ کی قیوم لیگ کی طرح مشرف کی پروردہ ق لیگ ہمیشہ سرکاری لیگوں کا کردار ادا کرتی آئی ہیں۔بعض شخصیات تو ایسی موجود رہتی ہیں جو ہمیشہ کہتی رہتی ہیں کہ حکومت تبدیل ہوجاتی ہے مگر ہم تو ہر دور میں حکومت ہی میں رہتے ہیں غلام محمد اور سکندر مرزا کے ادوار میں تو راتوں رات بھی تابعداریں تبدیل ہوتی دیکھی گئیں تھیں شوکت عزیز جن کا پاکستان کا شناختی کارڈ بھی نہ تھا آئے جب سامراجی مفادات پورے ہوگئے توراتوں کے اندھیرے میں ہی واپس سامراجیوں کی غلامی میں جا بسے۔
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے سنبھال مالی باغ اپنا ہم تو اپنے گھر چلے
ایسے پرانے واقعات سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے کہ ہمارا ملک پاکستان علیحدٰہ بن جانے کے باوجود بھی ہم بڑی سامراجی طاقتوں کے غلام ابن غلام ہی نہیں بلکہ ان کے مزارع ہیں اور وہ ہماری زمین کے اصل مالک ۔ ہم نے یہاں محنت مزدوری کرکے سارا منافع(جو کہ پہلے ہی سود در سود کی وجہ سے انہیں پہنچ ہی رہا ہے) اُدھر ہی بھجوانا ہے۔ہمارا رویہ دیکھ کر وہ ہمیں اتنا ہی قرضہ( یا معاوضہ سمجھیں ) دیتے ہیں جس سے ہم بمشکل اپنے پیٹوں ( تندوروں ) کی آگ بجھا سکیں ۔ سپریم کو رٹ کے پانچ ججوں کے فیصلہ کے بعد کہ دو جج صاحبان نے تو ہمارے “صنعتکار قائد “کوکرپشن کابد کردار بھی قرار دے ڈالا ہے اور تین دوسرے جج صاحبان نے جے آئی ٹی بنا کر مزیدتحقیق و تفتیش کرنے کے لیے کہا ہے ایسی صورت میں لاکھ کہیں کہ حکومت ہے مگر نہ ہے دو ہفتے سے زائد وقت گزر چکا باقی تقریباً چھ ہفتے موجود ہیں ۔پانامہ لیکس ہو جانے کے بعد کئی ممالک کے وزارئے اعظم اور صدور تو اس میں لکھا پڑھ کر خود ہی مستعفی ہوگئے تاکہ غیر جانبدرانہ تحقیق ہو سکیں مگر ہمارے صنعتکار قائد تو شیر کی سواری کر کرکے اتنے دلیر ہوگئے ہیں وہ ان الزامات کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا جلد فیصلہ ہو جائے گا۔
حالیہ سعودی کانفرنس جس میں 55اسلامی ممالک کی نمائندگی ہوئی ٹرمپ کو”مسلمانوں کی اس مشترکہ کانفرنس ” کا چیف گیسٹ بنا ڈالا گیا ۔اس سے یہ تاثر ابھرا کہ سبھی اسلامی ممالک کے سربراہان گویا انہیں ہی “بڑا قائد “سمجھتے اور تسلیم کرتے ہیں”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ” کی طرح کا کردار سامنے آیا ہے۔پاکستان کو امریکہ نے کسی قسم کی امداد دینے سے انکار کر رکھا ہے اور ہم چین کو ہی اپنا مخلص دوست سمجھتے ہیںٹرمپ نے کئی ممالک کا داخلہ امریکہ میں بند کر رکھا ہے اور مسلمانوں کے تو وہ ذاتی دشمن بن کر انہیں امریکہ خالی کرنے کااعلان کر ہی چکے ہیں مسجدوں کو گرانے جلانے کا مذموم دھندا بھی وہاںاشتعال انگیزیوں کی وجہ سے جاری ہے۔ٹرمپ نے اپنی تقریر میں بھارت کی خوب تعریفیں کی ہیں اور اس کے کردار کو سراہا ہے اور ہمارے وفد کے ارکان بشمول وزیر اعظم وہاں ٹُک ٹُک دیدم کی کیفیت اختیار کیے ایک لاکھ کشمیری مسلمان بھائیوں کے قاتل ہندو بنیوں کی تعریفیں سنتے رہے ۔کانفرنس کو مختصرکیے جانے کی وجہ سے سے حروف تہجی کے اعتبار سے پاکستان کی باری نہ آسکی۔اور ہمارے وزیر اعظم تقریر نہ کرسکے ٹرمپ کو 57اسلامی ممالک میں سے واحد ایٹمی طاقت پاکستان سے علیحدگی میں ملاقات کرنا چاہیے تھی کہ ویسے بھی ہم دہشت گرد ی کے خلاف اس کے پارٹنر ہیں مگر انہوں نے اس بابت بھی ہمارے وفد کو لفٹ نہیں کروائی کاش ہم وہاں کانفرنس میں بھارت کی تعریفوں کے پل بندھتے سن کر پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوجاتے کہ کم ازکم ہم ایک لاکھ کشمیری مسلمانوں کے قاتل کے نام پر تعریفی کلمات نہیں سن سکتے ہم تو ایران کو تنہائی کا شکار کرڈالنے والی باتوں پر اپنا اختلافی نوٹ ریکارڈ نہ کرواسکے کاش ہمارے وزیر اعظم پانچ منٹ کے لیے ہی کانفرنس سے باہر نکل کر علامتی بائیکاٹ کامظاہرہ کر ڈالتے تاکہ واحد اسلامی ایٹمی ملک کا وقار تو قائم رہتا عالمی میڈیا بھی اس خبر کو ہیڈ لائن اور بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کرتا انتہائی دکھ بھری بات تویہ ہے کہ موذی مودی اور ہندو بنیوں مہاشوں کی تعریفیں تمام مسلمان سرابرہوں کی موجودی میں کی گئیںاور کوئی نہ بولاکہ سبھی شہنشاہ اور سربراہ تھے ۔غالباً عوامی نمائندگی سے منتخب ہو کر آنے والے چند ہی تھے ۔ہمارے انتہائی معزز اور قریبی دوست سعودی عرب کے بادشاہ نے بھی دہشت گردیوں کے خلاف ہمارے قربانیوں کا ذکر تک بھی نہ کیا غالباً ہماری نااہل وزارت خارجہ نے ان کو اس بابت نہ کچھ بتایا نہ لکھوایا اور نہ تقریر میں شامل کرنے کے لیے گزارش کی۔
اپنی تقریر دل پذیر سنانے کے بعد ٹرمپ سیدھے اپنے اصل حریف غالباً سرپرست اسرائیل جا پہنچے وہاں زبردست استقبال کروایا” ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں” کی طرح اب وہ پوری دنیا کو یہ تاثر دیتے پھرتے ہیں کہ دیکھا 55اسلامی ممالک کے سربراہان میرے ” مریدان خاص” ہیںاسرائیل کی تو ویسے ہی امریکہ کے اندر چلتی ہے کوئی پالیسی اس کے مشوروں کے بغیر بن ہی نہیں سکتی الکفر ملتاً واحدہ کی طرح یہود و نصاریٰ ،مرزائی ،سامراجی ،ہندو بنیے سب مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہیںانہیں ہم جتنی لفٹ کروائیں گے اتنے ہی سر پر چڑھتے جائیں گے انہیں خشمگیں آنکھوں سے دیکھیں گے تو ہندو مہاشے تک تابعداری کی طرف آمادہ ہوں گے۔ہاتھ جوڑے نمستے نمستے کرتے ہندوئوں نے 1947 میںانگریز حکمرانوں کو شیشے میں اتار کر ہم آٹھ سو سال سے وہاں اصل حکمرانوں کو 1/5حصہ اور خود کے لیے 4/5حصہ علاقے قبضہ کر لیے تھے۔
آقائے نامدار محمد مصطفیٰ ۖکا فرمان کہ ترکی اور ہند کی افواج ہی بالآخر یہودیوں کو شکست دیں گی حالانکہ اس وقت ترکی اور ہند میں مسلمانوں کا وجود تک نہ تھا ۔ہمیں بحر حال غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے عالم اسلام کی راہنمائی اور ان کی یہود ونصاریٰ سے حفاظت بطور واحد ایٹمی اسلامی ملک کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔عالم اسلام متحد ومتفق ہو تاچلا جائے گا اور ہمیں بھی جراء ت مند قیادت نصیب ہوجائے گی جو سامراجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے گی۔