تحریر : حافظ شاہد پرویز تعلیم کا حصول دنیا کے تمام معاشروں اور طبقات کیلئے انتہائی ضروری ہے اور دنیا کی ترقی اور جدت کے معیار کو بلنددرجے پر پہنچانے اور قرعہ ارض پر روزانہ کی بنیادوں پر رونما ہونے والی سائنسی تبدیلیوں کی بنیاد تعلیم ہی ہے۔یہاں تک کے ہمارے نبی ۖ نے مسلمانوں کو اس بات کی واضح الفاظ میں تلقین کی کہ علم حاصل کرو خواہ اس کیلئے چین ہی جانا پڑے۔ چین کا نام استعمال کرنے کی وجوہات کے بات میں جانا ایک لمبی بحث ہوگی تاہم بنیادی طور پر علم کا حصول مسلمان مرد و عورت سمیت دیگر مذاہب کیلئے بھی انتہائی ضروری رکھا گیا۔ اور ریاستی ڈھانچوں میں تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ حکومتوں کے سپرد ہوتی ہے۔ قانون کی عملداری صحت کی سہولیات کی فراہمی اور فری ایجوکیشن سسٹم کے نظام کو حقیقی طور پر عملداری رائج کرنے کا سسٹم حکومتوں کی ذمہ داری ہے جس میں بے شک پنجاب حکومت اور حکومت پاکستان گزشتہ کچھ دہائیوں سے رفتہ رفتہ تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتی ہے۔
تعلیم کے معیار اور جدت کو دوسری دنیا کے مقابلے میں لانے کیلئے کوشاں ہے جہاں پر تعلیمی میدان میں تبدیلیاں لائی گئیں تو وہیں پر پرائیوٹ ایجوکیشن سسٹم کے بھرپور رائج ہونے سے اس تعلیم کے نظام کو انتہائی زیادہ منافع پخش اور پرآسائش کاروبار کے طور پر اپنایا جانا عوامی اور سماجی حلقوں کیلئے تکلیف کا باعث ہے پرائیوٹ ایجوکیشن سسٹم کی ترقی کی بنیادی وجہ سرکار کے اداروں میں انتہائی اعلیٰ اور بڑے پیمانے پر تعلیم حاصل کرنے والے پوسٹوں پر بیٹھنے والے افراد کی عدم توجہ اور اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں لیت و لال اور ڈیوٹی میں کرپشن کے معاملات سر فہرست ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی جانب عدم توجہ کے باعث انتہائی ذہین بچوں کو مختلف ٹیسٹوں کے چکروں میں پھنساتے ہوئے اس کے حقوق کو فراہم نہ کرنے کی وجہ سے لوگ پرائیوٹ ایجوکیشن سسٹم کی جانب راغب ہونے پر مجبور ہیں۔
این ٹی ایس ٹیسٹ ایجوکیشن ٹیسٹ داخلہ ٹیسٹ اور دیگر ٹیسٹوں میں میرٹ کے اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد گورنمنٹ کے اداروں میں پڑھنے والے بعض بچے ذلیل و خوار ہوکر اپنی تعلیم کے مستقبل سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور بلآخر ان کا مقدر ذلالت اور رسوائی ہی ٹھہرتا ہے پنجاب ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے سرکاری اہلکاروں کی ڈیوٹی کے دوران انتظامی معاملات میں پرائیوٹ اداروں کی طرف سے پیسوں کا چکر اور امتحانی مراکزمیں وڈیرے اور جاگیرداروں کے بچوں کی جانب خصوصی توجہ اور ان کے پیپرز کا ذاتی طور پر نگران عملے کی طرف سے حل کرنے کے عوامل کے بعد انتہائی کمزور پوزیشن رکھنے والے افراد کو اے گریڈ کے رزلٹ فراہم کئے جانے کے بعد غریب اور مستحق بچوں کی حق تلفی کرنے سے گریز نہ کرنا معاشرے میں آج بھی پسے ہوئے طبقات کی راہ پر بڑے پیمانے پر روڑے اٹکانے کے مترادف ہے۔
کچھ حد تک پرائیوٹ ایجوکیشن سسٹم کو برداشت کرنے والے افراد سرکاری اداروں سے رخ مکمل طور پر ختم کرچکے ہیں اور ماہانہ ہر ضلع کی سطح پر اربوں روپے خرچ ہونے والا بجٹ کوئی خاطر خواہ فائدے کا سبب نہیں بنتا۔ عوامی سماجی حلقوں کی جانب سے حکومت کو اس بات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے دیکھا جارہا ہے کہ میرٹ پر ٹیسٹ میرٹ کی بنیادوں پر امتحانی نظام کا رائج ہونا اور گورنمنٹ کے کالجوں اور سکولوں میں لاکھوں روپے ماہوار کے طور پر تنخواہیں وصول کرنے والے اساتذہ کو ایماندار اور ذمہ دارانہ رویہ کی جانب لے کر جانا حکومت کیلئے کڑا امتحان ہے۔