شہر میں ایسی اگ لگی تھی الاامان الحفیظ اس وقت کا بغداد دنیا کے عظیم ترین شہروں میں شامل تھا اگ کی لپیٹ میں تھا۔ بڑے بڑے علما مشائخ دانشور فلسفی تاجر اور جاگیردار شہر میں موجود تھے۔بغداد میں یونیورسٹیوں حکمت کی پناہ گاہوں اور دانش کدوں کا یہ عالم تھا کہ پوری دنیا سے طالبان اور علم کے متلاشی کھنچے چلے اتے تھے۔ بغداد کو عروس البلاد کہا جاتا تھا۔ بنو عباسیہ نے اسے ایسے تعمیر کروایا تھا کہ سیاح اسکی رونق دیکھر مبہوت ہوجاتے۔ ایک روز بازاروں میں چہل پہل جاری تھی کہ اگ لگ گئی اور شعلے اسمانوں سے بات کرنے لگے۔
اگ لگی بھی کہاں منڈی میں اور نہایت تیزی سے پھیلنے لگی۔تاجر اور دوکاندار بدحواسی کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک تاجر چلاتے ہوئے بولا لوگو میں اپنے بیوی بچوں کو تو اگ سے نکال لایا ہوں مگر میرے دو قیمتی غلام اگ میں پھنسے ہوئے ہیں میری مدد کرو اور انہیں بچالو۔ تاجر نے غلاموں کو اگ سے بچانے والے کے لئے دو ہزار اشرفیوں کے نقد انعام کا اعلان کردیا مگر اگ کی شدت نے بڑے بڑوں کا پتہ ہوا کردیا تھا۔ حضرت شیخ ابو الحسن نوری ادھر سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے ماجرا سنا تو اللہ کا نام لیا اور تاجر کے مکان میں کود گئے۔
شیخ صاحب نے دونوں غلاموں کو بحفاظت اگ سے نکال لیا۔ تاجر نے حسب وعدہ دو ہزار اشرفیاں شیخ نوری کی خدمت میں پیش کیں تو اپ نے اشرفیاں لینے سے انکار کردیا اور کہا انہی اشرفیوں سے منہ موڑنے کی وجہ سے تو اگ نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ بھلا اب میں انہیں کیسے قبول کرسکتا ہوں۔ میں کسی لالچ کی بجائے انسانوں کو اگ سے نکالنے گیا تھا طریقت نام ہے خدمت کا۔ یہ عجیب اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سازش یہ وائٹ ہاوس کا نیا پینترا ہے یا تحریک طالبان پاکستان کا احساس ندامت کہ جونہی تحریک طالبان نے حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی تو امریکہ کے سبکدوش ہونے والے ڈیفینس منسٹر لیون پینٹا نے جاتے جاتے ہنگامی طور پر اخری ڈرون حملے کا وحشیانہ میزائل داغ دیاکہ پاکستان کے خلاف ڈرون حملے جاری ر ہیں گے۔
Amerika
ان کا کہنا تھا جب تک امریکہ کو شدت پسندوں اور اسلامک عسکریت پسندوں سے خطرات لاحق ہیں ڈرون یورش پوری اب و تاب سے جاری رہے گی۔ لیون پینٹا کی بیان بازی ایک ایسے نازک موڑ پر سامنے ائی جب امریکی نفرت میں اندھے ہوکر ارض وطن کے ایک ایک انچ کو خون میں ڈبودینے والے تحریک طالبان پاکستان کے عہدیداروں نے مشروط مذاکرات کی خاطر تین شخصیات نواز شریف جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اور مولانا فضل الرحمن کی ضمانت مانگ لی۔ ماضی میں بھی فریقین کے مابین معاہدے اور مذاکرات کے ناٹک رچائے گئے۔
جب تک ہماری اشرافیہ چاہتی معاہدے اور وعدے وعید جاری رہتے مگر جونہی امریکی فصل سراٹھاتی سارے ایگریمنٹ سبوتاژ ہوجاتے اور پھر وہی خون ریزی بم دھماکے اور خود کش حملے ہماری کم بختی کو ایک بار دوبارہ دعوت دے رہے ہوتے۔نواز شریف نے ابتدا میں تو کسی قسم کی گارنٹی دینے سے انکار کردیا مگر اب انکا موقف ہے کہ حکومتی اداروں کو فوری طور پر سنجیدہ مذاکرات کی ابتدا کرنی چاہیے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی مخلصانہ کاوشیں کرنی چاہیں ۔ اگ و بارود کے کھیل میں جہاں ایک طرف ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے تو وہاں پورا ملک سیاسی افراط و تفریط مذہبی کشت و قتال اور مالیاتی سیاسی و جمہوری انتشار کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔
اس وقت پاکستان سیاسی الیکشن کی جانب بڑھ رہا ہے تمام جماعتیں میدان میں اتر چکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین کو سب سے زیادہ خدشہ کالعدم تحریک طالبان کے انتہاپسندوں سے ہے جو ایم کیو ایم کے ایک جلسے کو نشانہ بنا کر خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں کہ وہ کسی بھی سیاسی جلسے میں خون کی ہولی بہانے کی سکت رکھتے ہیں۔ پشاور میں صوبائی سینیر وزیر بشیر بلور کو شہید کرکے تحریک طالبان طبل جنگ بجا چکی ہے۔ انتخابات کا اعلان اور نگران حکومت کا ظہور ہونے والا ہے۔سیاسی سرگرمیوں میں تیزی انے والی ہے۔ اگر امن مذاکرات کا اغاز اور نتیجہ خیز اختتام نہیں ہوتا تو الیکشن کمپین میں بڑی ہلاکتوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
Election Pakistan
شفاف اور منصفانہ الیکشن کی خاطر جہاں نیوٹرل نگران سیٹ اپ کی بازگشت زور شور سے سنائی دے رہی ہے تو وہاں ہماری حکومتی اور ملک کی ساری سیاسی و دینی برادری کو زہن نشین کرنا ہوگا کہ مطلوبہ اہداف کے حصول کی خاطر امن ڈائیلاگ بھی ناگزیر ہیں۔ طالبان نے مذاکرات کی دعوت تو دے دی ہے مگر وہ اپنے رویوں میں تبدیلی پر امادہ نہیں۔ طالبان جمہوری نظام سے نفرت کرتے ہیں۔ سیاسی اور حکومتی احباب کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ائین پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ افواج پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔
اب سوال تو یہ ہے کہ جئب تک طالبان تمام اداروں کے خلاف برسر پیکار ہیں گے تو پھر مذاکرات کا انعقاد کیونکر اور کیسے ممکن ہوگا؟ طالبانی گوریلے نفرت و تعصب کی اگ میں اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ نئی نسلوں کی خاطر اندھیروں کا بندوبست کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ ایک طرف وہ سکولوں کو بموں سے تباہ کرتے ہیں تو دوسری جانب انکی سینہ زوری نے فاٹا میں لاکھوں بچوں کو پولیو کے قطروں سے محروم رکھا۔ انتہاپسندوں نے نوزائیدہ بچوں کو جسمانی عوارض اور خسرہ ایسی سنگین بیماریوں سے بچاو کی خاطر گھر گھر جا کر قومی خدمت سرانجام دینے والے خدمت گاروں اور ہیلتھ ورکرز کو قتل کرنے کا سلسلہ تاحال جاری رکھا ہوا ہے۔
طالبان کو شائد اندازہ نہیں کہ جن سکولوں کو وہ تباہ کرتے ہیں وہاں ساری دنیا کی دانش پڑھائی جاتی ہے۔ دانش کی کوئی قومیت نہیں ہوتی اسکا وطن اور عقیدہ نہیں ہوتا۔ ائن سٹائن کا نظریہ اضافت یہودی نہیں نیوٹن کی کشش ثقل عیسائی نہیں اور فارابی کا فلسفہ اسلامی نہیں۔ درسگاہیں جب بند ہوتی ہیں تو کسی ایک سیاسی یا لسانی گروہ کے لئے نہیں بلکہ ساروں کے لئے بند ہو جاتی ہیں۔ کتب خانوں میں جلنے والی روشنیاں بجھتی ہیں تو پھر ہر کسی کے زہن میں جہل کا اندھیرا بچھتا ہے۔مذاکرات سے قبل ضروری ہے کہ طالبان وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں۔
غیر مشروط طور پرہتھیار ڈال دیں۔ دہشت گردانہ کاروائیوں کو ترک کرنے کا اعلان کریں۔ دانش کدوں پر بارود چھڑکنے سے تائب ہوں۔ طالبان کو زہن نشین کرلینا چاہیے کہ دنیا کی کوئی حکومت فوج اور سول سوسائٹی اس مسلح گروہ سے بات چیت کا اغاز نہیں کرسکتی جب انہوں نے دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہو۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھی اب کھل کر طالبان کی حمایت سے گریزاں ہیں ۔یہ سچائی ہر کسی پر منکشف ہے کہ پاکستانی قوم طالبان ملیشیا سے نفرت کرتی ہے۔ ایسے میں ایک پاکستانی بھی طالبان کاز کی حمایت کرنے سے انکاری ہوگا کیونکہ وہ خود تنقید کی زد میں اسکتا ہے۔
Pakistan U S
دوسری طرف حکومت اور فوجی ایسٹیبلشمنٹ کو بھی امریکی غلامی اور تابعداری سے رہا ہونا چاہیے۔ حکومت اور افواج پاکستان کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ مملکت پاکستان میں لاقانونیت کے جنگل میںامن کے گلستان کو پروان چڑھائیں۔ دونوں فریقین دانش مندی کا مظاہرہ کریں تو پھر کسی لیون پینٹا کو ڈرون حملوں کے جاری رکھنے کے اعلان کی جرات نہ ہوگی۔ مذاکرات کی کامیابی افغانستان سے درانداز ناٹو فورسز کے جلد انخلا ڈرون حملوں کے خاتمے شفاف و کامیاب انتخابات کے انعقاد مذہبی اور سیاسی جمہوری استحکام کے لئے لازم بن چکی ہے۔ حکومتی پالیسی سازوں فوجی اداروں کے مہان سرداروں اور کالعدم تحریک طالبان کے ہنرمندوں کو حضرت شیخ ابو الحسن نوری کی محولہ بالہ داستان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
امت مسلمہ اگ میں جل رہی ہے۔پاکستان میں خون سے بھڑکنے والی اگ اسمان سے باتیں کررہی ہے مگر کوئی ابو الحسن نوری کا کردار ادا نہیں کررہا۔ فریقین میں سے ابو الحسن کا کردار کون ادا کریگا اسکا فیصلہ تو انے والے دنوں میں ہوگا بحرف اخر طرفین کو امریکہ کے دجالی اور صہیونی عزائم کو پاش پاش کرنے کی خاطر اپنی اپنی ہٹ دھرمی اور انا کی اشرفیوں سے منہ موڑنا ہوگا ورنہ تاریخ انہیں ایسے قہر الود قبرستان میں درگور کرے گی کہ نام تک نہ ہوگا داستانوں میں۔ تحریر : روف عامر پپا