٢مئی ٢٠١٣ کو پاکستان میں الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ ن کو واضع اکثریت حاصل ہوئی،اور یوں میاں محمد نواز شریف مملکت خداداد پاکستان کے اٹھارویں وزیر اعظم بن گئے۔الیکشن سے پہلے کئی دفعہ میاں صاحب اپنی تقریروں میں یہ کہہ چکے تھے کہ اقتدار میں آکر تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کیے جائیں گے، جب اقتدار ملا تو میاں صاحب نے حالات کی نوعیت کو پرکھنے لگے،اس دوران تحریک طالبان پنجاب کے ترجمان عصمت اﷲمعاویہ نے ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام ہوسٹ سلیم صافی کے نام ایک خط لکھا جسمیں تحریک طالبان پنجاب کی جانب سے حکومت پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی،اس خط کے چند ہی دنوں بعد تحریک طالبان کے مرکزی امیر حکیم اﷲ محسود نے ویڈیو پیغام کے ذریعے حکومت تک یہ پیغام پہنچایا کہ جو خط عصمت اﷲ معاویہ نے بھیجا ہے اسے ہماری حمایت حاصل ہے اور ہم بھی مذاکرات کرنے کو راضی ہیں،یہ وہ وقت تھا جب ایسا معلوم ہونے لگاکہ اب پاکستان کی عوام سکھ کا سانس لے گی مگر پاکستان کا سب سے بڑا دوست نما دشمن امریکہ کو یہ کیوںکر گوارہ ہوتا کہ دنیا کا واحد ایٹمی مسلمان ملک پاکستان میں امن ہو، جب مذاکرات کے لئے موسم سازگار ہونے لگا عین اسی وقت امریکہ بہادر نے ایک ڈرون حملہ کرکے امن کی امیدوں پر پانی ڈال دیا۔طالبان میں غم و غصہ اور اضطراب کی کیفیت پن اپنے لگی،دوسری طرف میاں صاحب کی حکومت بھی اس واقعے سے خوش نہ تھی،کچھ دنوں میں طالبان کی مجلس شوری کا اجلاس ہوا جسمیں ملا فضل اﷲ کو انہوں نے اپنا نیا امیر نامزد کردیا۔
ملا فضل اﷲ کو پاکستان کا سخت دشمن سمجھا جاتا ہے،جولائی ٢٠٠٩ میں ملا فضل اﷲ پاکستانی افواج کے ساتھ ایک جھڑپ میں شدید زخمی حالت میں افغانستان فرار ہو گیا تھا۔یکم نومبر ٢٠١٣ کو ایک امریکی ڈرون حملے میں جاںبحق ہونے والے حکیم اﷲ محسود کے واقعے کے بعد ٧نومبر کو ملا فضل اﷲ کو نیا امیر بنا دیا گیا تو فور١ً ہی طالبان کی جانب سے سابقہ امیر کی شہادت کا بدلہ لینے کا دوٹوک اعلان کردیا گیا،جسکے بعد پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں نے حکومت پاکستان سے مذاکرات کی ضد چھوڑکر جنگ کی طرف دھکیلنے کا مشورہ دیا ،مگر وزیر اعظم صاحب نے کسی کی نہ سنی اور کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح سے مذاکرات کی فضاء قائم ہوجائے،اس دوران افواج پاکستان کا صبر بھی قابل تعریف رہا،امریکہ کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان بلا شبہ پاکستان کی فوج کا ہی ہوا ہے اور دنیا بھی یہ بات مانتی ہے،آرمی چیف کی جانب سے پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے حکومت کے مذاکرات کرنے کے فیصلے کو خوب سراہا گیا اور مکمل تعاون کا اعادہ کیا گیا۔اس دوران میاں صاحب نے امریکہ کا دورہ کیا اور امریکی صدر باراک حسین ابامہ کو قائل کرنے کی کوشش کی ڈوران حملے بند ہونے چائیے اس سے بے گناہ افراد بھی مارے جا رہے ہیں اور اس عمل سے پاکستانی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
جب میاں صاحب واپس پاکستان تشریف لائے تو تنقید کرنے والوں نے اپنے کڑوے جملوں سے ان کا استقبال کیا اور قوم کے پیسے پر امریکہ کا دورہ کرکے پکنک منانے کا الزام دے ڈالا۔پھر ایک اور دہشت گرد حملے میں پاک فوج کے ایک میجر جنرل ثناء اﷲ اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ اس موقع پر آرمی چیف نے ایک بھرپور انداز میں تقریر کی جسمیں کہا گیا کہ ہم مذاکرات کے حامی ہیں ،لیکن ہماری خاموشی کو کمزوری ہر گز نہ سمجھا جائے،آرمی چیف کی اس جوش بھری تقریر کے بعد حالات نے کچھ ہی دنوں میں پلٹا کھایا،اورطالبان کی جانب سے مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دی گئی ۔اس موقع پر عمران خان نے وفاقی حکومت سے وقت ضائع کیے بغیر فوری مذاکرات کرنے پر زور دیا،حکومت اسی موقع کے انتظار میں تھی ،فوراً ہی اس پر کام شروع ہوگیا،دوسری طرف تحریک طالبان نے حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے اپنی ٹیم کے نام فائنل کیے،ان میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،مولانا سمیع الحق،پروفیسر ابراہیم ،لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیر شامل تھے ، کچھ ہی دنوں میں حکومت پاکستان نے بھی اپنی مذاکراتی کمیٹی کے نام فائنل کردیے جن میں عرفان صدیقی(مشیر قومی امور)،رحیم اﷲ یوسفزئی(صحافی)،افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور آئی ایس آئی کے میجر عامر شاہ(ریٹارڈ) شامل تھے۔
Chaudhry Nisar
وزیر داخلہ چودھری نثار نے نہایت ہی دانائی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں بلخصوص تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مکمل اعتماد میں لیااور انہیں ساتھ لیکر چلتے رہے۔یہ وہی عمران خان ہیں جو آج سے کچھ عرصہ پہلے تک میاں صاحب کو برداشت بھی نہیں کرتے تھے مگر وزیر اعظم کی دور اندیشی کے سبب آج وہ انکے گرویدہ ہوگئے ہیں ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت ایک صحیح راہ پر ملک کو لے جا رہی ہے۔میاں صاحب کے دورہ امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کے لئے ایک خبر ہے کہ ڈرون حملے روکے ہوئے آج 100دن سے زیادہ ہو گئے ہیں ، میں اسے میاں صاحب کی جیت سمجھتا ہوں کیونکہ میاں صاحب کی کامیاب حکمت عملی نے اس شیر کو پنجرے میں بند کردیا ہے جو جنگل میں زبردستی تشدد کی فضاء بنا کر شیر بنا ہوا ہے۔
حکومت اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان ایک دوسرے پر اعتماد کے بحال ہونے کی دلیل ہے،اس دوران امن کے دشمن عناصر نے دھماکے کرکے ان مذاکرات کو ختم کرانے کی بھرپور کوشش کیں مگر شاباشی کے حقدار ہے وفاقی حکومت،افواج پاکستان اور طالبان کہ جنہوں نے مذاکرات کو جاری رکھا،پرسوں ہی حکومت نے طالبان کے قیدیوں میں سے غیر عسکری ١٩ افراد کو رہا کیا ہے اور ساتھ ہی مزید کو جلد رہائی دیئے جانے کا امکان ہے۔حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے مذاکرات کے ابتدائی دور جاری ہیں ابھی کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہوگا کہ ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا۔مگر امید پر ہی دنیا قائم ہے،کوشش اگر سچے دل سے کی جائے تو محنت رائیگاں نہیں جاتی ،بس ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اﷲ کرے یہ مذاکرات کامیاب ہوجائیں تاکہ پاکستانی عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔اس موقع پر اگر کوئی ڈرون حملہ ہوتا ہے
وہ امن کی ان کوششوں کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گا،اور پھر آپریشن ہی واحد حل بچے گا ،طاقت کا استعمال کرنے سے بات اور بگڑے گی،یہ معاملہ مذاکرات کی میز پر ہی سلجھ سکتا ہے،میاں نواز شریف کو چائیے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات کو پایّہ تکمیل تک لے جائیے اورساتھ ہی فوج کو یہ حکم دیا جائے کہ اب اگر امریکی ڈرون پاکستانی سرحد میں داخل ہوتا ہے تو اسے فوراًمار گرایا جائے تاکہ مذاکرات جاری رہ سکیں اسی میں پاکستان کی بقاء ہے،ورنہ اگر آپریشن ہی مسئلہ کا حل ہوتا تو گزشتہ بارہ سال سے پاکستان کے شمال میں مختلف مقامات پر آپریشن ہوتا رہا ہے ،دہشتگردی ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھی ہی ہے۔
Mian Nawaz Sharif
مذاکرات کی کامیابی کے لئے جس طرح وفاقی حکومت بلخصوص وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف ‘پر امید ہیں ، وہیں ہمیں بھی اﷲ کے سامنے یہ دعا کرنی چائیے کہ حکومت کی اس کوشش کو کامیاب فرمائے اور حکومت اور طالبان مذاکرات صحیح انداز میں حل کامیاب ہوجائیں،تبھی یہ عظیم ملک ترقی کر سکے گا۔