خیال تو یہی تھا کہ وزیرِاعظم اپنے خطاب میں تحریکِ لبّیک پاکستان سے کیے گئے معاہدے پر قوم کو اعتماد میں لیں گے لیکن اُنہوں نے اِس معاہدے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ حکومت کا یہ معاہدہ ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں میں ڈھل چکا ہے جن میں آخر تک سسپنس قائم رہتا تھا۔ خود خاںصاحب نے اپنے وزیروں مشیروں کو بھی اِس معاہدے پر بات کرنے سے روک دیا ہے۔ وجہ شاید یہ ہو کہ حکومت نے ٹی ایل پی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہوں اور اب اُسے اِس معاہدے کے مندرجات ظاہر کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہو۔ معاہدے سے پہلے وزیروں مشیروں نے اپنی بڑھکوں سے آسمان سر پر اُٹھایا ہوا تھااور ہر کوئی حکومتی رِٹ کا جھنڈا اُٹھائے پھرتا تھا۔ پھر اچانک پتہ نہیں کیا ہوا کہ حکومت نے ٹی ایل پی کے سارے مطالبات پر سرِتسلیم خم کر دیا۔ مفتی منیب نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کا انتخاب بھی ہم نے خود کیا۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ ایسے معاملات میں ساری ذمہ داری وزیرِداخلہ کی ہوتی ہے لیکن ٹی ایل پی کی طرف سے مذاکرات کے لیے جانے والے علماء نے صاف صاف کہہ دیا کہ وزیرِداخلہ شیخ رشید، وزیرِاطلاعات ونشریات فوادچودھری اور وزیرِمذہبی امور نور الحق قادری کی موجودگی میں مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اُن کا یہ مطالبہ بھی مان لیا گیا اور متعلقہ وزراء کو وزیرِاعظم نے چلے جانے کے لیے کہا۔ آخر ایسی کون سی مجبوری آن پڑی تھی کہ حکومت کو یوں پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ شاید یہ مکافاتِ عمل ہو کہ نوازلیگ کے دَور میں تحریکِ انصاف اِسی ٹی ایل پی کے پیچھے کھڑی تھی۔
تحریکِ لبّیک پاکستان کا یہ پہلا دھرنا نہیں تھا۔ جنوری 2011ء میں گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کو پولیس اہلکار ممتاز قادری نے توہینِ مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا۔ جب ممتازقادری کو 2o16ء میں پھانسی دی گئی تو ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں ٹی ایل پی نے دھرنا دیا (اُس وقت تک یہ گروہ ٹی ایل پی کی صورت میں سامنے نہیں آیا تھا)۔ یہ دھرنا کئی روز تک جاری رہا۔ نوازلیگ کے دَورِحکومت میں نومبر 2017ء میں قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف نامے میں مبیّنہ تبدیلی پر ٹی ایل پی نے اُس وقت کے وزیرِقانون زاہد حامد کا استعفیٰ طلب کیااور فیض آباد میں 3 ہفتے تک دھرنا دیاجس سے اسلام آباد تین ہفتے بند رہا۔ بعد ازاں فوج کی ثالثی کے ذریعے ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت وفاقی وزیرِقانون زاہدحامد کو مستعفی ہونا پڑا۔ اِس دھرنے کے دوران تحریکِ انصاف کی تمامتر ہمدردیاں ٹی ایل پی کے ساتھ تھیں اور شیخ رشید تو نوازلیگ کی حکومت کو باقاعدہ دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔ اِسی دھرنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رُکنی بنچ نے فروری 2019ء میں ازخود نوٹس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ سڑکیں بلاک کرنے اور نقصِ امن کے مسائل پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اکتوبر 2018ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہینِ مذہب پر سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بیبی کو بَری کرنے کا حکم دیاتو تحریکِ لبّیک نے جگہ جگہ دھرنے دے کر پورے ملک میں نظامِ زندگی مفلوج کر دیا۔ تب تحریکِ انصاف کی حکومت نے ٹی ایل پی کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے بعد 5 نکاتی معاہدہ طے پا گیا۔ اِس معاہدے پر اُس وقت کے وزیرِداخلہ بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ اور وزیرِمذہبی امور نورالحق قادری نے دستخط کیے۔ نومبر 2020ء میں ٹی ایل پی نے ایک دفعہ پھر اسلام آباد مارچ کی کال دی۔ ٹی ایل پی کا مطالبہ تھاکہ حکومت پیغمبرِاسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف فرانسیسی حکومت سے تجارتی اور سفارتی تعلقات ختم کرے اور فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرے۔ اِس دھرنے پر بھی حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت فرانس کے حوالے سے سخت مؤقف اپنانے اور فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اِس معاہدے پر شیخ رشید نے بطور وزیرِداخلہ دستخط کیے۔
20 اپریل 2021ء کو تحریکِ لبّیک نے ایک بار پھر فیض آباد میں دھرنے کی کال دی۔ اِس سے قبل نومبر 2020ء میں ٹی ایل پی کے امیر خادم رضوی انتقال کر چکے تھے اور امارت اُن کے بیٹے سعد رضوی کو مل چکی تھی۔ د ھرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ حکمرانوں نے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا۔ تحریک کا احتجاج روکنے کے لیے پولیس اور رینجرز نے طاقت کا استعمال کیا اور لاہور کا علاقہ یتیم خانہ میدانِ جنگ بنا رہا۔ تصادم کے دوران 2 پولیس اہلکاروں سمیت 5 افرادہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ سعد رضوی کو گرفتار کر لیا گیا اور ٹی ایل پی کو کالعدم جماعت قرار دے کر اِسے تحلیل کرنے کی کارروائی شروع کر دی گئی۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود جب ٹی ایل پی اسلام آباد کی جانب مارچ پر بضد رہی تو حکومت نے یوٹرن لیتے ہوئے قومی اسمبلی میں قرارداد لانے کی حامی بھر لی۔
جب حکومت نے اپنے اِس معاہدے پر بھی عمل نہیں کیا تو ٹی ایل پی نے ایک دفعہ پھر اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کر دیا۔ اِس پُرتشدد مارچ میں 7 پولیس اہلکار شہیداور 70 کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ مارچ جب وزیرآباد کے قریب پہنچا تو مفتی منیب کی سربراہی میں علماء کے وفد نے وزیرِاعظم اور اُن کی ٹیم سے مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں جو معاہدہ ہوا اُس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا نہ قوم کواور نہ ہی اِس خفیہ معاہدے کے مندرجات سامنے آئے ہیں۔ البتہ ٹی ایل پی کے گرفتار شدہ 2000 کے لگ بھگ کارکنان کو رہا کر دیا گیا ہے اور تحریکِ لبّیک سے ”کالعدم” کا لفظ ہٹانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ایل پی کے تمام مطالبات کو من وعن تسلیم کر لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو پھر خونی تصادم سے پہلے ہی کیوں نہ کر لیا گیا؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ اُن پولیس اہلکاروں کے خون کا ذمہ دار کون ہے جو حکومتی رِٹ قائم کرنے کی تگ ودَو میں شہید ہوئے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود کہ کیا کوئی بھی مسلح گروہ اِس طرح سے حکومتی رِٹ کو چیلنج کر سکتا ہے جیسے ٹی ایل پی نے کیا۔ ہمارے وزیرِاعظم ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے داعی ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اسلام میں عہد کی پاسداری کا حکم دیا گیا ہے۔ اِس سے قطع نظر کہ ٹی ایل پی کے دھرنے درست تھے یا غلط کیا حکومت نے اُس سے بار بار معاہدے نہیں کیے؟۔ کیا حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ کیے گئے کسی ایک معاہدے پر بھی عمل درآمد کیا۔ حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ ٹی ایل پی کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہ کرتے جس پر عمل درآمد ممکن نہ ہوتا۔ وہ اپنی رِٹ قائم کرتی نہ کہ کسی مسلح گروہ کے آگے جھک جاتی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مکافاتِ عمل ہے جس کا آج تحریکِ انصاف سامنا کر رہی ہے۔ حکمرانوں کو ڈی چوک اسلام آباد کا وہ 126 روزہ دھرنا تو یاد ہی ہوگا جس میں اُس نے حکومتی رِٹ کو بار بار چیلنج کیا۔ اُس دھرنے میں سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا، یوٹیلٹی بِلز سرِعام جلائے گئے، تحریکِ انصاف کے کارکنان کو یوٹیلٹی بلز جمع کروانے سے منع کیا گیا، وزیرِاعظم ہاؤس پر حملہ کیا گیا، پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے گئے، سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندے کپڑے (پوتڑے) لٹکائے گئے، تھانے پر حملہ کرکے گرفتار شدہ کارکن چھڑوائے گئے، پولیس اہلکاروں کو نشانِ عبرت بنا دینے کی دھمکیاں دی گئیں، بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کوہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کے لیے کہا گیا اور پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود تحریکِ انصاف کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا کیونکہ وہ الیکشن کمیشن میں باقاعدہ سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ تھی۔ ٹی ایل پی سے تمام تر اختلافات کے باوجود وہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے جو عام انتخابات میں حصّہ بھی لے چکی ہے۔ اگر حکمران اُسے کالعدم قرار نہ دیتے تو آج اُنہیں یہ ہزیمت نہ اُٹھانی پڑتی۔ اِسی لیے سیانے کہہ گئے ”پہلے تو لو پھر بولو۔