اسلام آباد (جیوڈیسک) پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ حکیم اللہ کی ہلاکت کے اگلے روز طالبان سے باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے تھے لیکن تیسرا ہاتھ کام دکھا گیا۔
اجلاس کو تبایا گیا کہ ملا فضل اللہ حکومت سے مذاکرات نہیں چاہتا اس لئے حکومت بھی اس گروپ سے مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ بنوں راولپنڈی اور پشاور میں دہشت گردی ملا فضل اللہ گروپ نے کرائی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف طاقت استعمال ہو گی جبکہ مذاکرات میں دلچسپی رکھنے والوں سے بات چیت کی جائے گی۔ اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف نے سخت موقف اختیار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنی سر زمین کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کو اس وقت شدید خطرات کا سامنا ہے ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ملک کے آئین کو تسلیم کرنے والوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن سیکورٹی فورسز اور عوام پر حملے کرنے والے ملک اور اسلام کے دشمن ہیں۔
دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ ملک میں امن و استحکام لانے کیلیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فوج کے جوان جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں یہ فوجی جوان ہمارے ہیرو ہیں پاکستان کے لئے جان قربان کرنے والوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ٹارگٹڈ آپریشن میں عام شہریوں کی املاک کو نقصان سے بچایا جائے۔